ہوم << البرٹ پنٹوکو غصہ کیوں آتا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

البرٹ پنٹوکو غصہ کیوں آتا ہے؟ محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی یہ ایک مشہور بھارتی آرٹ فلم کا نام ہے۔ ایک زمانے میں بھارت میں متوازی سینما ایک خاص اہمیت کا حامل تھا، ستر اور اسی کے عشرے میں بہت خوبصورت آرٹ فلمیں بنیں۔ ہر قسم کے سبجیکٹس اور موضوعات پر طبع آزمائی کی گئی۔ تخلیقی تجربات کرنے والوں کا اچھا خاصا حلقہ بھارت میں موجود تھا۔ سنجیدہ سٹریٹ تھیٹر سے لے کر انوکھے موضوعات پر آرٹ فلموں تک بہت عمدہ کام ہوا۔ نصیر الدین شاہ نے ان آرٹ فلموں میں یادگار قسم کے کردار ادا کیے۔ ایسے کردار کہ بیس پچیس سال پہلے دیکھی فلم کا ہر منظر ذہن میں نقش رہتا ہے۔ سمیتا پاٹل اور شبانہ اعظمی ان فلموں کی فی میل سٹار ہوتیں، فاروق شیخ بیشتر میں ہیرو بنتے۔ ان فلموں کا بجٹ بہت ہی کم ہوتا اور شاید فاروق شیخ ہی ان اداکاروں میں سب سے وجیہہ اداکار تھے۔ اوم پوری کا بھی بعض فلموں میں عمدہ کام ہے، ”پارٹی“ میں ان کی اداکاری مجھے ابھی تک یاد ہے، اس میں نصیر الدین شیخ ایک سین کے لیے، فلم کے آخر میں آئے، مگر وہ ہلا دینے والا منظرتھا۔ پارٹی کے ڈائریکٹر گووند نہلانی تھے۔ قیام پاکستان سے سات سا ل پہلے کراچی میں پیدا ہونے والے گووند نہلانی ایک لیجنڈری بھارتی فلم ڈائریکٹر، پروڈیوسر اور سکرپٹ رائٹر ہیں۔ ان کی تین فلموں کی ایک سیریز تھی، اکروش( Aakrosh)، اردھ ستیا( Ardh Satya) اور پارٹی(Party)۔ موقع ملے تو یہ تینوں فلمیں ضرور دیکھنی چاہییں۔ اکروش کو اوم پوری اپنی بہترین فلموں میں سے ایک مانتے ہیں۔
اوم پوری کا ذکر آیا تو ایک چھوٹا سا دلچسپ واقعہ سنتے جائیے۔ وہ پچھلے سال لاہور آئے تو ایک اعلیٰ صوبائی شخصیت کے صاحبزادے نے انہیں چائے پر مدعو کیا۔ اوم پوری کے ساتھ دو تین اور لوگ بھی تھے، ان میں سے ایک اس واقعہ کے راوی ہیں۔ صاحبزادے نے اوم پوری کا پرجوش خیرمقدم کیا اور کہا کہ میں آپ کی فلموں کا بڑا فین ہوں، خاص طور سے ایک فلم میں آپ کا کردار مجھے بہت پسند آیا تھا۔ اوم پوری نے سوچا کہ میزبان نے شاید میری مشہور فلموں میں سے کوئی دیکھ رکھی ہوگی۔ انہوں نے دو تین فلموں کے نام لیے، اکروش، پارٹی وغیرہ۔ نوجوان میزبان نے انکار میں سرہلایا اور چمکتی ہوئی آنکھوں سے بولے کہ آپ کی ایک فلم گپت تھی، اس میں آپ انسپکٹر بنے تھے، وہ بڑے مزے کی تھی۔ اوم پوری کے چہرے پر مایوسی چھا گئی، دھیرے سے وہ بولے، صاحب ، وہ تو میری کچن فلموں میں سے ایک تھی، ایسی عام کمرشل فلمیں تو ہم گھر کا خرچہ چلانے کے لیے سائن کر لیتے ہیں، اداکاری کا مارجن کہاں ہوتا ہے ان میں۔ اس پر میزبان پرجوش انداز میں بولے، نہیں نہیں، آپ نے کمال کام کیا تھا اس میں۔ اوم پوری نے بے چارگی سے اپنے ساتھیوں کو دیکھا اور مسکرا کر شکریہ ادا کیا اور پھر خاموشی سے چائے پینے لگ گئے۔
ان پرانی بھارتی آرٹ فلموں میں سے”البرٹ پِنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے؟“ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ نصیرالدین شاہ اس میں البرٹ پنٹو بنے تھے۔ اس فلم کے ہدایت کار سعید اختر مرزا ہیں۔ سعید مرزا ترقی پسند رائٹر اور ڈائریکٹر تھے اور ان کی فلموں میں ایک خاص انداز سے سماجی مسائل کو اجاگر کیا جاتا تھا۔ البرٹ پنٹو ایک عیسائی کردار تھا، گوا سے اس کا تعلق ہونے کے باوجود حالات اسے ممبئی میں بطور موٹر مکینک کام کرنے پر مجبور کر چکے تھے۔ البرٹ پنٹو کے اندر شدید قسم کی فرسٹریشن اور غصہ تھا جو مختلف طریقوں سے چھلکتا رہتا۔ وہ دولت مند بننے کا خواہش مند تھا۔ اس کا خیال تھا کہ محنت کرنے، اچھا کام کرنے اور اپنے گاہکوں کے ساتھ سوشل ریلیشن بنانے سے وہ کامیاب ہوسکتا ہے۔ اس کے بعض دولت مند گاہک اسے کہتے کہ ہڑتال کرنا بہت بری بات ہے اور جو مزدور یا ورکر ہڑتال کرتے ہیں، وہ خطرناک ہیں، ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں، کاروبار تباہ کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ البرٹ پنٹو کو ان لیبر یونین کے ورکرز پر بےتحاشا غصہ آتا۔ اسے ان دولت مند گاہکوں پر بھی غصہ آتا جو اس کی تمام تر کوشش کے باوجود اسے غریب اور نچلے طبقے سے ہونے کا احساس دلاتے رہتے۔ البرٹ پنٹو کو زندگی اور دنیا کا سسٹم سمجھ نہیں آتا، وہ اس پر ہر وقت جھنجھلایا رہتا، غصہ کا اظہار کرتا رہتا، کبھی اپنی محبوبہ سے الجھ پڑا، کبھی کسی اور کو سنا دیں۔ دراصل اس فلم میں نہایت خوبصورتی سے اس معاشی اور سماجی نظام کو نشانہ بنایا گیا جو ایک نوجوان کو سوائے شدید فرسٹریشن اور غصہ کے کچھ نہیں دے رہا۔ البرٹ پنٹو پہلے ورکرز اور ہڑتال کرنے والوں کے خلاف تھا، پھر اس کا اپنا باپ جب ہڑتال کرنے کی پاداش میں مل مالک کے غنڈوں کا نشانہ بنا تو اس پر حقائق منکشف ہوئے۔ اس کا غصہ بعد میں بھی جار ی رہا، مگر اب اس کا ہدف وہ سرمایہ دارانہ نظام اوراستحصالی سرمایہ دار تھے۔ فلم کا نام مختلف ہونے کی وجہ سے یاد رہ جاتا ہے۔ البرٹ پنٹو میں لفظ پنٹو (Pinto) شامل ہونے کی وجہ بھی دلچسپ تھی۔ فلم کا بجٹ کم ہونے کے باعث اس کی زیادہ تر شوٹنگ ایک مکان میں ہوئی، جو مزاحیہ اداکار پنٹو کی ملکیت تھا۔ پنٹو کو خوش کرنے کے لیے اس کا نام فلم کے نام میں شامل کیا گیا۔ یوں البرٹ سے” البرٹ پنٹو کو غصہ کیوں آتا ہے ؟“ ہوگیا۔
یہ فلم اور اس کا دلچسپ نام آج کل ہمارے آس پاس، چاروں اطراف میں پھیلے شدید غصے کی کیفیات اور اس کے بےمحابہ اظہار کو دیکھ کر یاد آ جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں غصہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ نوجوانوں میں تو خیر چڑچڑاپن، فرسٹریشن اور غصہ عام نظر آتا ہے، مگر اس بیماری کا شکار پختہ عمر کے لوگ بھی ہوچکے ہیں۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں، ان پر تفصیل سے بات کرنے کے لیے کئی کالم درکار ہوں گے۔ چند دن پہلے وائس آف امریکہ نے اس پر ایک تفصیلی پروگرام کیا، جس میں کچھ معروضات خاکسار نے بھی پیش کیں۔ سچی بات یہ ہے کہ البرٹ پنٹو کی طرح ہمارے ہاں بھی اس غصے کی ایک بڑی وجہ تو ہمارا استحصالی نظام ہے، ہر طرف ظلم، لوٹ مار، عام آدمی کی تذلیل اور توہین۔ سرکاری ہسپتال سے تھانہ کچہری اور شناختی کارڈ دفتر سے پاسپورٹ آفس تک ہر جگہ جہاں کہیں لوگوں کا سرکاری اہلکاروں سے رابطہ ممکن ہے، وہاں قدم قدم پرعوام کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم کمی، کمین اور کسی منحوس ترین درجے کی مخلوق ہو، جس کا کوئی حق نہیں کہ اس کی عزت افزائی کی جائے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ جس دفتر میں جائو، بے پناہ رش ملتا ہے، لوگ صبح آٹھ بجے اٹھ کر قطاروں میں لگتے ہیں اور پھر پورا دن ضائع کرنے کے بعد کہیں جا کر کچھ سنی جاتی ہے۔ حکمرانوں کو یہ قطعی خیال نہیں آتا کہ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ کے دفاتر ڈبل کر دیں،اس میں کتنا خرچ آ جائے گا؟ لوگوں کو کتنا سکھ ملے گا، اس کا سوچ کر ہی یہ تمام خرچے قابل قبول لگتے ہیں، مگر چونکہ یہ تکالیف عام آدمی کے لیے ہیں، اس لیے ہماری اشرافیہ کبھی ایسا نہیں کرے گی، خواہ کتنا ہی شور مچتا رہے۔
ایک اور پہلو یہ ہے کہ طاقتور اور بااثر طبقات کچھ زیادہ ہی کھل کر اپنی من مانیاں کرنے لگے ہیں۔ پہلے کچھ نہ کچھ بھرم رکھا جاتا تھا، اب اس کی کوئی زحمت ہی نہیں کرتا۔ پیسے دے کر ملازمت لینا ہو، سفارش اور اثرورسوخ سے تبادلہ کرانا یا دیانت دار افسروں کو کھڈے لائن لگا دینا۔ یہ سب نہایت دیدہ دلیری اور ڈھٹائی سے کیا جاتا ہے۔ میری بہت سے نوجوانوں سے بات ہوتی رہتی ہے۔ تبدیلی کی شدید خواہش ان میں جاگتی ہے، اس کا اظہار وہ اپنی سیاسی چوائس میں بھی کرتے ہیں۔ عمران خان نے نوجوانوں کے انہی جذبات اور سوچ کو استعمال کیا اور اپنے تبدیلی کے نعرے سے انہیں اپنے گرد اکٹھا کیا۔گزرتے وقت کے ساتھ جیسے جیسے عمران خان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہو رہی ہے، مسلم لیگ ن کا روایتی سیاسی شخصیات اور جوڑتوڑ پر انحصار کر کے طاقت حاصل کرنے اور ایک بار پھر جیتنے کا امکان پیدا ہو رہا ہے، اس سے مجھے لگتا ہے کہ تبدیلی کے خواہاں عناصر بھی مایوس ہو رہے ہیں۔ یہ مایوسی اس لحاظ سے زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے کہ جب پڑھے لکھے نوجوانوں کے ایک بڑے حلقے میں فرسٹریشن غلبہ کر لے تو وہ مین سٹریم سے ہٹ سکتا ہے۔ البرٹ پنٹو کا غصہ تو اس کی اپنی ذات پر نکل جاتا تھا، مگر ضروری نہیں کہ ہر کوئی ایسا کرے۔

Comments

محمد عامر خاکوانی

عامر خاکوانی

Click here to post a comment