پاسپورٹ ایک سرکاری دستاویز ہوتی ہے جو حکومت جاری کرتی ہے۔یہ دستاویز جس کو جاری ہوتی ہے اس کی شناخت اور شہریت کی حکومت کی طرف سے تصدیق اور بیرونی ممالک میں حکومتی تحفظ کے تحت سفر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ ہر ملک کے پاسپورٹ کا اپنا رنگ ہوتا ہے۔ ہمارے پاسپورٹ کا رنگ سبز ہے اور ہم سوائے اسرائیل کے دنیا کے ہر ملک میں اس پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر سکتے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ ہمارا سبز پاسپورٹ ہمارا وقار تھا۔ دنیا میں اس کی اپنی ایک پہچان تھی۔
لیکن آج ہمارا نمبر دو ہے۔ اچھے پاسپورٹ میں نہیں بلکہ برے میں۔ افغانستان کے بعد ہمارا نمبر آتا ہے۔ بنگلہ دیش، عراق، صومالیہ اور کینیا وغیرہ بھی ہم سے اچھے ہیں۔ کیا ہماری خارجہ پالیسی اس حد تک ناکام ہو چکی؟ کیا ہم اس حد تک گری ہوئی قوم ہیں؟
ہم اپنے آپ میں اس طرح الجھ گئے کہ ہمیں خیال تک نہ رہا کہ دنیا ہمارے بارے میں کیا سوچتی ہے؟ ہمارے ساتھ سلوک کیا کرتی ہے؟ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہمارا پڑھا لکھا ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جو خود کو اس دور کا فلاسفر سمجھتا ہے اور سارا دن اس قوم کو جمہوریت کے درس دیتا ہے، حکمرانوں کے گیت گاتا ہے۔ بس ان کے دعوے ہی ان کے دلیل ہوتے ہیں۔ ایک رٹا رٹایا جملہ، جی ہمارے خادم اعلی ایڈمنسٹریٹر اچھے ہیں۔ باہر سے آنے والے لوگ جب ان کے صوبے میں داخل ہوتے ہیں انہیں لگتا ہے وہ جنت میں آگئے ہیں۔ اس قوم کو اس لیے برا بھلا کہتا ہے کہ ہماری قوم نالی پکی کرانے پر ووٹ دیتی ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہمارے ان پڑھ لوگوں کی سوچ محلے کی نالی تک ہے اور اس طبقہ کی سوچ اورنج ٹرین اور میٹرو پر جا کر ختم ہو جاتی ہے۔ اس سے آگے انہوں نے کبھی سوچا ہی نہیں۔ جس ملک کے وزیر اعظم کو عوام کی ایک بڑی تعداد چور سمجھتی ہو، جس ملک میں آئے روز دھماکے ہوں اور سینکڑوں لوگ لہو میں نہا جائیں اور لیڈر بجائے اس کے سدباب کے ایک دوسرے پر الزام تراشی شروع کر دیں، جب ملک کا وزیراعظم خود قوم اور قانون کے سامنے جوابدہ نہ سمجھتا ہو اس ملک کے پاسپورٹ کی ایسی عزت کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے۔
حکمران بھی کمال کرتے ہیں۔ پہلے بنیادی ضروریات سے محروم کرتے ہیں اور پھر سڑک، پل بنوا کر سوچتے ہیں کہ انہوں نے قوم پر احسان کیا ہے۔ کیا حکمرانوں کا کام پل اور سڑک بنانا ہے یا قانون سازی اور اقوام عالم میں اس قوم کی عزت بحال کرنا ہے۔اس جدید دور میں کوئی بھی ریاست اقوام عالم اور ممالک میں اپنا وقار بحال کیے بغیر ترقی کر سکتی ہے نہ زیادہ دیر تک قائم رہ سکتی ہے۔ اس قوم کی عزت بس وہی بحال کرا سکتا ہے جس کی اپنی کوئی عزت ہو۔ جس کی اقوام عالم میں اپنی کوئی پہچان ہو اور جو خود دلیر ہو اور دلیری سے حالات کا سامنا کر سکتا ہو۔
تبصرہ لکھیے