ہوم << خاک کا پیغام - آفاق احمد

خاک کا پیغام - آفاق احمد

OLYMPUS DIGITAL CAMERA

انسان خاک سے بنا ہے، اسی خاک سے رزق کھاتا ہے، اسی خاک پر زندگی گزارتا ہے۔
یہی خاک پوری زندگی انسان کے پیروں تلے روندی جاتی ہے، ہوا سے اُڑ جائے تو انسان اپنے گھر کے دروازے کھڑکیاں بند کرلیتا ہے، اندر چیزوں پر خاک کی تہہ جمی ہو تو اس کو صاف کردیتا ہے، یہاں تک کہ اپنے جوتوں پر بھی اس کی موجودگی پسند نہیں کرتا۔
جب یہ خاک کیچڑ کی صورت اختیار کر لیتی ہے تو انسان مزید احتیاط سے گزرتا ہے، مبادا کپڑے خراب ہوجائیں یا جوتے کیچڑ میں بھر جائیں۔
بچوں کو بھی مٹی میں کھیلنے سے منع کرتا ہے
گویا پوری زندگی مٹی سے اپنا دامن بچاتا رہتا ہے
اگرچہ انسان کی تخلیق اسی مٹی سے ہے
اور جب آخری سانسیں لیتا ہے اور ابدی نیند سوجاتا ہے
تو یہی خاک اسے اپنی گود میں چھپا لیتی ہے، جہاں وہ درندوں سے محفوظ ہوجاتا ہے، اس کی نعش دنیا کی نظروں سے اوجھل ہوجاتی ہے اور باہر کی دنیا کے لیے ہر قسم کی بےحرمتی سے محفوظ ہوجاتی ہے۔
یہ مٹی کی سرشت ہے، یہ خاک کی صفت ہے، خاک تواضع کی علامت ہے۔
جسے انسان نے پوری زندگی حقیر و کمتر جانا، اس نے اپنا فراخ سینہ اسی انسان کے لیے کھول دیا۔
یہی خاک کی صفات ہیں کہ اشرف المخلوقات کا خمیر ٹھہری۔
اس کی یہی صفات ہیں کہ انسان کی روح کا سانچا بنی۔
بس اے انسان! تو بھی اپنا سینہ فراخ کر دے، جب کوئی بھولا بسرا اور کمزور شرمندہ ہو کر تیرے در پر آجائے۔
نہ احسان جتلانا، نہ شرمندہ کرنا اور نہ انکار کرنا۔
خاک کا تجھے یہی پیغام ہے۔