ہوم << تلاش ’مقامی ہوٹل‘ کی-احمد حاطب صدیقی

تلاش ’مقامی ہوٹل‘ کی-احمد حاطب صدیقی

Ahmed Hatib Siddiqui
ہمارے ذرایع ابلاغ اب تو خیر زبان کامنہ چڑاتے ہیں، مگر ایک زمانہ ایسا بھی تھا کہ ذرایع ابلاغ کی زبان مستندادبی زبان سمجھی جاتی تھی۔ بالخصوص اخبارات کی۔ اُسی زمانے کا ذکر ہے۔ہمارے ایک پرائمری پاس دوست نے کتابوں کی دکان کھول لی۔نصابی کتابوں کے ساتھ ساتھ ادبی کتب بھی بیچنے لگے۔ کیا زمانہ تھا کہ ادبی کتابوں کے خریداربھی گلی گلی اور محلے محلے پائے جاتے تھے۔ان کی دُکان پر ادب کے طالب علموں کے ساتھ ساتھ ادیبوں اور شاعروں کا جمگھٹا بھی لگنے لگا۔ اُس زمانے میں ادیب اور شاعر بھی گلی گلی اور محلے محلے پائے جاتے تھے۔
کبھی کبھی تو دکان کے آگے بچھی ہوئی کرسیوں پر بیٹھے ہوئے ادیب اور شاعر حضرات وہیں بیٹھے بیٹھے ،پوری پوری ادبی نشستیں اور اکثر اوقات مشاعرے بھی منعقد کرڈالتے۔ ہوتے ہوتے فرقان بھائی کی دکان مرکز ادب بن گئی۔ ایک کام اب اُنھوں نے یہ بھی شروع کردیا کہ دکان پر’ آج کے تازہ اخبارات یہاں سے طلب فرمائیں‘ کا بورڈ لگا دیا۔ یوں اُن کی دکان پر اخبارات بھی فروخت ہونے لگے۔ ملک کا شاید ہی کوئی اخبار ایسا ہو جو اُن کی دکان پر نہ ملتا ہو۔ اُس زمانے میں آج کے زمانے کی طرح ایک ہی اخبار کے ہر شہر سے ایڈیشن نہیں نکلتے تھے۔بعض اخبارات ایسے تھے جو صرف ایک شہر سے شایع ہوتے اور ٹرین یا جہاز سے سفر کرکے تمام شہروں میں فروخت ہوتے۔ فرقان بھائی کی دکان پر ایسے اخبارات بھی مل جاتے تھے جو دوسرے شہروں سے شایع ہوتے تھے۔اس خصوصیت کی وجہ سے اُن کی دکان پر صحافیوں اور اخباری تجزیہ نگاروں کا آنا جانا بھی شروع ہوگیا۔
فرقان بھائی تھے تو بڑے خوش اخلاق، مگر تعلیم کی کمی اُنھیں اپنی گفتگو کا معیار بلند کرنے میں آڑے آتی نظر آتی تھی۔اس کمی کا انھیں شدت سے احساس تھا۔کہتے تھے اتنے ’’بڑے بڑے اکابرین‘‘ میری دکان پر آتے ہیں کہمجھے اُن سے بات کرتے ہوئے شرمندگی ہوتی ہے۔ حالاں کہ اُن کی دکان داری کا اصل جوہر اُن کی خوش اخلاقی اور اُن کا خلوص تھا۔جس کی وجہ سے اُن کے مستقل گاہک شہر کی کسی اور دکان پر جانے کی بجائے دُوردُور سے چل کر اُن ہی کی دکان پر آتے تھے۔ وہی اقبالؔ والی بات:
ہجوم کیوں ہے زیادہ شراب خانے میں
فقط یہ بات کہ پیر مغاں ہے مردِ خلیق
علم کی کمی سے جنم لینے والی سادہ لوحی میں ادا کیے گئے اُن کے بعض فقروں پر بڑی ہنسی آتی تھی۔ مثلاً اُنھوں نے ایک بار ادیبوں میں ایک گھمسان کا معرکہ پڑجانے پر دونوں طرف سے ایک ہی فقرہ بار بار سنا:
’’آخر آپ کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں، پہلے آپ یہ بتائیے کہ آپ کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟‘‘
اتنے میں کوئی حجتی گاہک آگیا اورعین لڑائی (یعنی بحثا بحثی میں)فرقان بھائی سے ٹکر گیا۔ وہ کوئی کتاب واپس کرنا چاہتا تھا یا شاید تبدیل کرانا چاہتاتھامگر سبب بتانا نہیں چاہتا تھا۔ بات اتنی طویل ہوگئی کہ فرقان بھائی جیسے خوش مزاج شخص کا ناریل بھی چٹخ گیا۔اُس وقت فرقان بھائی کو ادبی بحث سے دلچسپی تھی، وہ اُس کا انجام دیکھناچاہتے تھے۔ اُنھوں نے ادیبوں سے بھی بلند آواز میں گاہک کو ڈانٹتے ہوئے یہ سوال کیا:
’’پہلے آپ یہ بتائیے کہ آخر آپ کا باور کیاہے؟‘‘
ایک زور دار قہقہہ پڑا۔ گاہک ہکا بکا بلکہ شرمندہ ہو کر رہ گیا۔اوروہ بحث ہی ختم ہوگئی، جسے سننے کے لیے فرقان بھائی نے خلافِ عادت گاہک کو ڈانٹا تھا۔
ایک روز کسی نے اُنھیں مشورہ دیا کہ یہ اخبارات جو تم بیچتے ہو، بیٹھے بیٹھے ان ہی کو پڑھا کرو۔ ادبی زبان سیکھنے کا موقع ملے گا۔ پرائمری پاس فرقان بھائی کے لیے یہ مشورہ کارگر ثابت ہوا۔وہ ’فنا فی الاخبار‘ ہوگئے۔ہوتے ہوتے گفتگو بھی اخبار کی (مطبوعہ) زبان میں کرنے لگے۔مثلاً ایک بار علی الصباح، جس وقت وہ دکان کھول کر دکان کے باہر کی الماریاں کتابوں سے سجا رہے تھے، ایک شخص کو ایک قیمتی لغت چوری کرتے پکڑ لیا۔ بعد کے حالات بڑی تفصیل سے ہم دوستوں کو بتائے۔اُن کی زبان میں تمام تفصیلات بیان کرنے کی گنجائش تو یہاں نہیں ہے، بس ایک اقتباس سن لیجیے:
’’۔۔۔ملزم نے ڈھٹائی کے ساتھ صحتِ جرم سے انکار کردیااورمجھ سے غیر پارلیمانی زبان میں گفتگو کرنے لگا۔آخر میں نے بھی اُس کی شان میں ناگفتہ بِہ الفاظ استعمال کرتے ہوئے اُسے سخت زد و کوب کیا۔بعد ازاں قریبی دکان داروں نے مضروب کو مجھ سے چھڑایا۔۔۔‘‘
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ہم شہر کے ایک انتہائی (خوش) پوش علاقے میں اپنے باس کا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔باس کی ساس کا انتقال ہوگیا تھا ۔ فرقان بھائی اچانک اور خلافِ توقع وہاں مل گئے۔ وہ بھی کسی کا گھر ڈھونڈ رہے تھے۔ پہلے تو اُنھوں نے ’اہلاً وسہلاً‘ کہہ کر ہمارار ’’شاندار خیرمقدم‘‘ کیا اور ہمیں کلیجے سے لگایا۔ جب ’’پُرتپاک معانقے‘‘ اور ’’پُرجوش مصافحے‘‘ سے فارغ ہوچکے توپوچھنے لگے:
’’آپ یہاں کیسے ’مٹرگشت‘ کر رہے ہیں؟‘‘
باس کی ساس کے سانحۂ ارتحال کی خبر اُنھیں سنائی۔ سن کرپوچھنے لگے:
’’اچھا تو آپ اُن سے اظہارِ تہنیت کرنے جار ہے ہیں؟‘‘
عرض کیا: ’’جی!ہم اب تک اسی حیص بیص میں مبتلا تھے کہ اس موقع پر اُنھیں تہنیت پیش کریں یا اُن سے تعزیت کریں؟ اچھا ہوا آپ مل گئے‘‘۔
کہنے لگے: ’’دیکھیے مجھے ’خیرمقدمی کلمات‘ میں آپ کی ’پُرتکلف ضیافت‘ کرنے کا خیال ہی نہ رہا۔ (اِدھر اُدھر دیکھ کر)کہاں کی جائے؟‘‘
اتنے میں انھیں ’’پولیس کا ایک جوان گشت پر‘‘ نظرآگیا۔اُس سے اُنھوں نے ’’استفسار‘‘ کیا:
’’محترم! کیا آپ مقامی ہوٹل تک ہماری رہنمائی فرماسکیں گے؟‘‘
’’مکامی ہوٹل؟!!!‘‘ ۔۔۔ پولیس کے ادھیڑ عمر ’جوان‘ نے بحرطویل میں تادیر کھانسنے کے بعد اپنے پچکے ہوئے کلّوں کو پُھلا کرجواب دیا:
’’باؤجی! میں تے اے ناں ای پہلی واری سنیا اے‘‘۔ (بابوجی! میں نے تو یہ نام ہی پہلی بار سنا ہے)
لاحول پڑھ کر ہمارا بازو کھینچتے ہوئے ہمیں لے کر ایک طرف چل پڑے اور کہا: ’’آئیے باوثوق ذرایع سے معلوم کرتے ہیں‘‘۔
خیر،ہم تو وہیں کھڑے رہے۔ مگریکایک اُنھیں ایک ’’ممتاز شہری‘‘ جو اُسی ’’محلے کا باشندہ‘‘ تھا اپنے گھر سے نکلتا نظرآیا تو اُس کی طرف لپکے۔اُس نے پہلے تو اپنے دائیں ہاتھ سے اپنے دائیں کان کے پیچھے چھجاسا بنایاپھراپنا سردائیں بائیں دونوں سمتوں میں ہلایا۔ اُس سے مایوس ہو کر وہ ایک دودھ والے کی دکان پر گئے اور واپس آکر بتایا:
’’علاقے کے اس معروف تاجر نے بھی متعلقہ استفسار پر اپنی لاعلمی کا اظہار کیا‘‘۔
کچھ دور کچھ لوگ ایک درخت کے نیچے تھڑے پر بیٹھے گپیں لگارہے تھے۔وہاں سے لوٹے تو نہایت دلچسپ رپورٹ پیش کی:
’’۔۔۔ سوال سنتے ہی عوامی حلقوں میں سنسنی کی لہر دوڑ گئی۔ان کے ایک ترجمان نے اپنا نام نہ بتاتے ہوئے علاقے میں کسی ’مقامی ہوٹل‘ کی موجودگی کی سختی سے تردید کی اور اُن عناصر کی سخت مذمت کی جواپنے سادہ لوح مہمانوں کو مکمل پتا فراہم نہ کرکے اُن کے وقت اوراُن کی توانائی کے زیاں کا باعث بنتے ہیں‘‘۔
ہم نے عرض کیا: ’’حضرت! اب مزید تحقیقات جاری نہ رکھیں ورنہ مزید سنسنی خیز انکشافات ہوں گے، بس اب آپ ہمیں پُرتپاک انداز سے رخصت ہی فرمادیں‘‘۔
اُنھوں نے ہماری طرف بڑی محبت بھری نظروں سے دیکھااور کہا: ’’الوداع!‘‘