ہوم << یہ تم نے کیا حال کر دیا ہے کراچی اور پاکستان کا؟ - سیلانی

یہ تم نے کیا حال کر دیا ہے کراچی اور پاکستان کا؟ - سیلانی

‘‘sitt down here’’
اس بوڑھے بزرگ کی بارعب آواز میں تحکم جھلک رہا تھا، ایسا تحکم جس میں ناراضگی کے ساتھ ساتھ اپنائیت بھی تھی، سیلانی نے حکم کی تعمیل کی اور ان کے برابر بنچ پر بیٹھ گیا
’’یہ کراچی کا کیا حال کر دیا ہے، اتنا گندا ہوگا، یہ تو سوچ میں بھی نہیں تھا۔‘‘ سیلانی نے اپنی عادت کے مطابق بات کاٹ کر کچھ کہنا چاہا تو انہوں نے خشمگیں نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا’’کیا میں اپنی بات مکمل کر لوں؟‘‘
’’جی جی پلیز‘‘سیلانی گڑبڑا گیا
’’جب کوئی بات کر رہا ہو تو بیچ میں نہیں بولنا چاہیے اور جب بات کرنے والا بڑا ہو تو بالکل نہیں بولنا چاہیے. ہم نے اپنے بڑوں سے یہی سیکھا تھا اور حیرت کی بات یہ کہ جو یہاں سیکھا تھا، اس پر وہاں انگریزوں کو عمل کرتے دیکھا۔ خیر اب تو وہ ہیٹ اور ٹائی والا انگریز بھی نہیں رہاجو دن میں تین سوٹ بدلتا تھا‘‘
سجاد سلیمی سے سیلانی کی ملاقات 14 اگست کو مزار قائد پر ہوئی، سیلانی گذشتہ تین چار برسوں سے یہی کرتا ہے، وہ 14 اگست کو مزار قائد آ کر اس پاکستان کے سچے پاکستانیوں کو تلاش کرتا ہے جس کا وژن قائد اعظم کی ذہن میں تھا. ایسے کھرے سچے پاکستانی کہیں بھی ہوں 14 اگست کے روز مزار قائد پر حاضری ضرور دیتے ہیں،گذشتہ برس یہیں اس کی ملاقات وہیل چیئر پر بیٹھے بزرگ جوزف پریرہ سے ہوئی تھی جو ہر برس جشن آزادی پر قائد اعظم کو سلام کرنے آتے ہیں، اس بار وہ دکھائی نہیں دیے، رش بھی تو بلا کا تھا، بچے، بڑے ،بوڑھے، خواتین، اسکولوں کے طالب علم، طالبات، اسکاؤٹس اور منچلے نوجوان ۔۔۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ محسن ملت قائداعظم کا شکریہ ادا کرنے آ رہے تھے، ان میں چھوٹی چھوٹی ننھی منی بچیوں کی سج دھج دیکھنے والی تھی، سبز اور سفید رنگ کی چنریاں اوڑھے کلائیوں میں سبز سفید چوڑیا ں ڈالے، ہاتھ میں سبز ہلالی پرچم لیے تمتماتے ہوئے چہروں کے ساتھ قائداعظم کی مہمان بنی مزار قائد میں یوں چہکتی گھومتی پھر رہی تھیں جیسے لاڈلی پوتیاں اور نواسیاں دادا اور نانا کی حویلی میں عید ملنے آئی ہوئی ہوں، ویسے یہ عید ہی تو تھی ،14 اگست کا دن عید آزادی ہی کا تو روز ہے، وہ یہ عید صحیح جگہ عید منانے آئی تھیں۔
سیلانی ان دمکتے چہروں کو تکتے ہوئے اللہ تعالٰی کا شکر ادا کر رہا تھا کہ اس کی آنکھیں یہ منظر دیکھ رہی ہیں، ان بچوں بچیوں کے ہاتھوں سے یہاں کوئی قومی پرچم چھیننے کی جسارت نہیں کر سکتا، کوئی ان منچلوں پر لاٹھی چارج نہیں کر سکتا ہے، ہندو توا کا کوئی گھمنڈی پیشانی پر بل ڈالے ان کی طرف بڑھ سکتا ہے نہ راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کا سیوک ہاتھ میں تلوار لیے یہ ہاتھ قلم کرنے کے لیے آگے بڑھ سکتا ہے کہ یہ آزاد پاکستان کا کراچی ہے مودی کا ممبئی نہیں۔
سیلانی مزار کے ایک گوشے میں کھڑا یہ دلکش منظر اپنے ذہن میں محفوظ کر ہی رہا تھاکہ اسے تھری پیس سوٹ میں ملبوس ایک بزرگ دکھائی دیے. انہوں نے سر پر جناح کیپ پہن رکھی تھی، وہ دراز قامت بزرگ اپنی وضع قطع میں سب ہی سے مختلف اور کسی ملک کے سفارتکار لگ رہے تھے، انہوں نے اگر جناح کیپ نہ پہنی ہوتی تو سیلانی انہیں کسی ملک کا سفارت کار سمجھتے ہوئے حیران ہو رہا ہوتا کہ یہ بنا پروٹوکول کے ہی مزار قائد میں چلے آئے، ان کے ساتھ دو نوجوان اور ایک چھوٹا سا گول مٹول بچہ بھی تھا، وہ سیلانی کے قریب ہی خالی بنچ پر بیٹھ گئے، انہوں نے اپنے ساتھ نوجوانوں سے کچھ کہا اور ہاتھ سے اشارہ بھی کیا جیسے کہیں جانے کا کہہ رہے ہوں، دونوں نوجوان بچے کو لے کر مزار کی طرف بڑھے اور ہجوم میں غائب ہوگئے، نجانے سیلانی کو کیوں لگا کہ اس انگریزی لباس میں ایک سچا اور کھرا پاکستانی موجودہے اور پھر اس نے سجاد سلیمی صاحب کے پاس پہنچنے میں وقت نہیں لگایا۔
’’السلام علیکم ‘‘سیلانی نے پیشانی تک ہاتھ لے جا کر قیام پاکستان سے قبل کے انداز میں سلام کیا، جیسے پاکستان ٹیلی ویژن کے بلیک اینڈ وائٹ ڈراموں میں کردار ملتے ملاتے ہوئے آداب کیا کرتے تھے، سیلانی کے اس انداز پر وہ چونک سے گئے، انہوں نے سر سے لے کر پیر تک اپنے سامنے کھڑے اجنبی کا جائزہ لیا اور مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھا دیا
’’خوش رہو بیٹا، کسی بھلے خاندان کے لگتے ہو‘‘
’’شکریہ، میں ایک صحافی اور کالم نگار ہوں‘‘سیلانی نے خوش ہوتے ہوئے اپنا تعارف کرایا
’’اچھا اچھا ماشاء اللہ ‘‘
’’آج کے دن کے حوالے سے آپ سے کچھ باتیں کرنا چاہتاہوں، کچھ یادیں کریدنا چاہتاہوں ہوں‘‘
انہوں نے سیلانی کی بات سن کر گلے میں لٹکی عینک ناک پر رکھی اور کہا ‘‘sitt down here’’
’’جی ای ای ای۔۔۔‘‘ ان کا یہ انداز سیلانی کے لیے غیر متوقع تھا.
’’تشریف رکھیے‘‘ انہوں نے بنچ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا اور سیلانی کے بیٹھتے ہی ناراضگی سے گویا ہوئے’’یہ کراچی کا کیا حال کر دیا ہے۔‘‘
ان کا یہ سوال بھی غیر متوقع تھا اور انداز ایسا تھا جیسے سیلانی ہی اس گندگی کا ذمہ دار ہے. اسے اس وقت سندھ حکومت کے وزیر بلدیات جام خان شورو کی کمی شدت سے محسوس ہوئی، وہ ہوتے تو سیلانی انہیں سامنے کر دیتا کہ یہی شخص اس سوال کا ٹھیک ٹھیک جواب دے سکتا ہے.
’’میرے ذہن میں تو تھا کہ کراچی میں صفائی ستھرائی بس ایسے ہی ہوگی مگر یہاں تو آ کر دیکھ کر سمجھ نہیں آرہا کہ افسوس کی جائے یا حیرت‘‘
’’لگتا ہے آپ کہیں باہر ہوتے ہیں‘‘
’’میں چالیس سال پہلے باہر نکلا تھااور اب وطن واپس آیا ہوں، میں سویڈن میں ہوتا ہوں ، وہاں ایک شہر ہے مالمو، نام کبھی سنا ہے مالموکا؟
سیلانی نے نفی میں سرہلا دیا
’’تین لاکھ کی آبادی ہے، صاف ستھرا شہر ہے، بس وہیں ساری زندگی گذر گئی، اب چل چلاؤ کا وقت ہے تو سوچا آخری بار پاکستان دیکھ لوں۔ میں یہاں سامنے ہی رہتا تھا، وہ ہے ناں جیکب لائنز ‘‘
’’جی، جی‘‘
’’وہیں رہائش تھی، قائد کا یہ مزار ہمارے سامنے ہی بنا ہے، ہم سارا سارا دن یہاں کھیلتے رہتے تھے، یہیں اپنا بچپن گزرا، پھر ہم پر جوانی کی بہار آئی، ہماری مسیں بھیگیں، ہمیں فوٹوگرافی کا شوق ہوگیا اور اسی شوق نے ہمیں آوارہ گرد بنا دیا. ہم جانے کہا ں کہاں گھومتے پھرے اور بلآخر سویڈن کے ہوگئے‘‘۔
’’پاکستان یاد تو آتا ہوگا؟‘‘
’’یہ کوئی کہنے اور پوچھنے کی بات ہے، پاکستان یاد نہ آتا تو ہم یہاں آئے ہوتے؟ پچھلے سال عمرہ کیا، واپسی پر طبیعت خراب ہوگئی، اب ذراسنبھلی تو ہم نے بچوں سے کہا کہ ہمیں تو پاکستان جانا ہے، اب مسئلہ یہ کہ وہاں پاکستان کا امیج ایسا خوفناک ہے کہ نام سنتے ہی سب کان پکڑ لیتے ہیں، بچوں نے بھی منع کر دیا، اٹھا کر travel advisory لے آئے، پاکستان کے سفر سے احتیاط کریں، بھئی ہم نے تو کہا کہ جان جاتی ہے تو جائے، ہم تو پاکستان جائیں گے، ہم بیاسی سال کے بچے بن کر ضد کرنے لگے اور بچوں کو ہماری ضد کے سامنے ہار ماننا پڑی‘‘
سجاد سلیمی صاحب خاصی دلچسپ شخصیت کے مالک نکلے، ان کی صحت قابل رشک تھی، کہیں سے بھی بیاسی برس کے نہیں لگ رہے تھے، سیلانی نے ذرا گہری نظروں سے انہیں دیکھا تو بھانپ گئے، کہنے لگے
’’کیا دیکھ رہے ہو بھائی، میں واقعی بیاسی برس کا ہوں، یہ جیکب لائینز، ایمپریس مارکیٹ، صدرکا سارا علاقہ اپنا دیکھا بھالا ہے، یہاں جو بڑا کیتھولک چرچ ہے ناں، ہمارا ہر سنڈے وہیں گذرتا تھا، وہاں بڑی بڑی موٹرکاروں والے صاحب لوگ آتے تھے، ہم ان کی موٹر کاریں دیکھنے جاتے تھے‘‘۔
’’آپ کی صحت ماشاء اللہ بہت اچھی ہے‘‘سیلانی کہے بنا نہ رہ سکا
’’ہا،ہا،ہا‘‘ انہوں نے ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کرتے ہوئے زوردار قہقہہ لگایا اور رازداراانہ انداز میں سیلانی کی طرف جھک کر بولے ‘‘credit goes to sweedish system’’، وہاں کسی شے میں ملاوٹ کا تصور نہیں، رویوں سے لے کر کھانے پینے کی چیزوں تک، سب کچھ خالص ہے، یہاں آ کر تو میری طبیعت ہی خراب ہوگئی، پانی صاف نہ کوئی کھانا، تم لوگوں نے پاکستان کا کیا حال کر دیا ہے، یہ وہ پاکستان تو ہے ہی نہیں جسے قائداعظم نے بنایا تھا، قائداعظم تو ایسے نفیس انسان تھے کہ آج کے کراچی میں رہنے کا تصوربھی نہ کرتے، میں تو کہتا ہوں پتہ کرواؤ میرا قائد اب اس مزار میں ہے بھی کہ نہیں، انہیں ناراض ہو کر چلے جانا چاہیے‘‘۔ سجاد سلیمی صاحب کی چوٹ خاصی گہری تھی لیکن ان کے لیے جن کے احساس زندہ ہوتے، یہاں تو احساس ہی مر چکا ہے، صرف بھٹو زندہ ہے.
سلیمی صاحب کہنے لگے ’’یہاں کے لوگوں کو قدر نہیں اس ملک کی، پاکستان قدرت کا انعام ہے bigest richest gift of ALLAH، میرے دو بیٹے ہیں، ایک وہاں پولیس میں ہے اور دوسراہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں ہے، دونوں اپنے اپنے گھر کے ہیں، میں اپنے گھر میں رہتا ہوں، ہفتے کی شام یہ میرے پاس آجاتے ہیں، میں اپنے پوتے پوتیوں سے اردو میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہوں، انہیں تھوڑی سی اردو بھی آنے لگی ہے، ایک بار میں نے ا ن کے لیے آم منگوائے، میرے دوست کا لڑکا پاکستان جا رہا تھا، پوچھنے لگا انکل! آپ کے لیے کیا لاؤں؟ میں نے کہا ہوسکے تو سندھڑی آم لے آنا اور وہ دو تین کلو آم لے آیا، ویک اینڈ پر میرے بچے آئے تو میں نے کہا تم لوگوں کے لیے میرے پاس سرپرائز ہے، میں نے آم لا کر ان کے سامنے رکھ دیے، اب انہیں کیا پتہ یہ کیا چیز ہے؟ آم تو گرم علاقوں کی سوغات ہے اور پھر پاکستان کے آم کا تو کوئی مقابلہ ہی نہیں، انہیں آم کے چوکور چوکور ٹکڑے کر کے دیے، انہوں نے چمچ سے ایک ایک پیس منہ میں رکھا اور پھر وہاں جھگڑا شروع۔ ہا،ہا،ہا وہ کہنے لگے ہم نے پوری زندگی میں اتنی لذیذ چیز نہیں کھائی. میرا پولیس آفیسر بیٹا تو اس کی گھٹلی ہاتھ میں لے کر بھاگ گیا اور بچے اس کے پیچھے۔ بتانا یہ چاہتاہوں کہ اس پاکستان میں کون سی نعمت ہے جو نہیں ہے، کسی ملک میں سمندر ہی سمندر ہے، دریا کو وہ جانتے نہیں، یہاں کتنے ہی دریا بہتے ہیں۔ کتنے ہی ملک ہی جہاں ایک دریا بھی نہیں، اپنا سعودی عرب، کویت، یو اے ای اور مالٹا، موناکومیں ایک بھی دریا نہیں۔ ایسے ملک بھی ہیں جہاں سمندر نہیں اور اپنے پاس کتنا بڑا ساحل ہے۔ ہم سے پوچھو، گرمیوں کی قدر، یہاں چار موسم ہیں، ناروے، سویڈن، ماسکو چلے جاؤ تولگ پتہ جائے، سردی سردی اور پھر ٹھٹھراتی سردی۔ یہاں سمندر، دریا، نہریں، جنگلات، آبشاریں، پہاڑ اور صحرا ہیں، ہمارے بچوں کو پتہ ہی نہیں کہ صحرا کیا ہوتا ہے اور صحرا میں ناچتا مور کیسا ہوتا ہے؟ پھرپاکستان کے پاس دنیا کی بہترین فوج ہے، اب تو پاکستان نیوکلئیر کنٹری بھی ہے، سب کچھ ہی تو ہے پاکستان کے پاس، بس نہیں ہے تو وہ دل جس میں اس ملک کا درد ہو، تم لوگوں سے اللہ حساب لے گا، ان سب نعمتوں کو جو اس نے دیں اور پاکستانیوں نے قدر نہیں کی. میں تو سمجھتا ہوں کہ یہ ان نعمتوں کی قدر نہ کرنے کی ہی سزا ہے کہ آج سب کچھ کے ہوتے ہوئے قرضے مانگتے پھر رہے ہیں، میں تو قائد کے مزار پر شرم سے سر نہیں اٹھا سکا، مجھے حیرت ہوتی ہے کہ آپ لوگ کس طرح تنی ہوئی گردنیں لے کر وہاں چلے جاتے ہو۔‘‘یہ کہہ کر سلیمی صاحب نے اپنے ہوٹل کا نام اور کمرہ نمبر بتا کر رات ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دے ڈالی. سیلانی سوچنے لگا کہ وہ ان کے سوالوں کا جواب دے سکے گا؟ وہ یقیننا اس تنزلی کا ذکر کریں گے، کراچی کی ان بوری بند لاشوں کا پوچھیں گے، یہاں ہونے والی قتل و غارت گری پر سوال کریں گے، بیس کروڑ کی آبادی میں صرف چند لاکھ انکم ٹیکس دینے والوں پر حیرت کا اظہار کریں گے، یہاں کے وزیروں کی عیاشیوں پر ہماری خاموشی پر سوال اٹھائیں گے۔ اور انہوں نے پاکستان کی شہہ رگ کشمیر کے لیے ہماری کوششوں پر کسی سوال کا پوچھ لیا تو سیلانی کیا جواب دے گا؟ سیلانی نے ان کاشکریہ ادا کیا، ان سے مصافحہ کیا اور ان کے پاس سے اٹھ کر مزارقائد آنے والے ان پاکستانیوں کو دیکھنے لگا جن کے ذمے ہی سلیمی صاحب کے سوالوں کے جواب ہیں، جو پانچ سال رونے کے بعد مزید پانچ سال رونے کے لیے اپنے انگوٹھوں پر لگنے والی سیاہی کو مقدر کی سیاہی بنا لیتے ہیں. سیلانی یہ سوچتا ہوا دمکتے ہوئے چہروں کے ساتھ مزار قائد آنے والے نادان لوگوں کو بوجھل دل کے ساتھ دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment