ہوم << بلوچستان کا حل جناح ؒ فارمولے میں ہے - آصف محمود

بلوچستان کا حل جناح ؒ فارمولے میں ہے - آصف محمود

آصف محمود مودی نے حوادث آئندہ کا انتساب لکھ دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہمارا فیصلہ کیا ہے۔
اگر ہم مسئلہ بلوچستان کو سمجھنا اور حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اس سوال پر غور کرنا ہو گا کہ وہ کیا حالات تھے جنہوں نے حضرت قائداعظمؒ جیسے آدمی کو جو، جو تین عشرے متحدہ ہندوستان کا پیش منظر ترتیب دینے کی سنجیدہ کوششیں کرتے رہے، بالآخر تقسیم ہند کا مطالبہ کرنے پر مجبور کر دیا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ بلوچستان کے مسئلے کا تقسیم برصغیر سے کیا تعلق، لیکن مکرر عرض کرتا چلوں کہ مسئلہ بلوچستان کو درست طور پر سمجھنے اور حل کرنے کا اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں۔
1916ء میں معاہدہ لکھنؤ سے لے کر 1946ء کے کیبینٹ مشن پلان تک، قائداعظم ؒ متحدہ ہندوستان کے تصور سے متفق تھے۔ وہ صرف یہ چاہتے تھے کہ ان کی قوم آنے والے دنوں میں اجتماعی زندگی سے الگ کر کے غلام نہ بنا لی جائے۔ تین عشروں پہ پھیلی اس جدوجہد میں وہ اپنی قوم کے مفادات کے تحفظ کی گارنٹی طلب کرتے رہے۔ لیکن جب انہیں آخری حد تک یقین ہوگیا کہ کانگریس کے متحدہ ہندوستان کے تصور میں مسلمانوں کے لیے عزت سے جینے کا کوئی امکان موجود نہیں تو پھر انہوں نے تقسیم ہند کا مطالبہ کیا۔ یاد رہے کہ اقلیت مذہبی ہو یا معاشی، یا حتی کہ محض نفسیاتی، اس کے وہی مطالبات ہوتے ہیں جو قائد اعظم ؒ کے تھے اور جب ان مطالبات کے ساتھ کانگریس جیسا متعصبانہ سلوک کیا جائے تو پھر علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی ہیں۔
قائداعظم ؒ اس وقت مسلمانوں کے لیے جومانگ رہے تھے متعصب ذہن کہہ سکتے ہیں کہ وہ مروجہ جمہوری اصولوں کے خلاف تھا۔ لیکن روایتی جمہوریت کی روایتی وارداتوں کو دیکھ کر قائداعظم ؒ روایت سے ہٹ کر مسلمانوں کے لیے کچھ طلب کر رہے تھے۔ ان کا پہلا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے متناسب نہیں ہوں گی بلکہ زیادہ ہوں گی۔ اب جمہوریت کی روایات بھلے کہتی رہیں کہ یہ مطالبہ ان کے مطابق نہ تھا، اقلیت کے تحفظات کی روشنی میں یہ ایک برحق مطالبہ تھا۔ قائداعظم ؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی نشستیں ان کی آبادی کے تناسب سے ہوئیں تو قانون سازی کے عمل سے مسلمان ہمیشہ کے لیے لاتعلق ہو جائیں گے۔ ( اسی طرح جیسے آج ہم نے بلوچستان کو آبادی کی بنیاد پرقومی اسمبلی میں محض 17نشستیں دے کر قانون سازی کے عمل سے لاتعلق کر دیا ہوا ہے)۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی سے کم نہ ہو۔ تیسرا مطالبہ یہ تھا کہ مسلمانوں کو ملازمتوں میں ان کی آبادی کے تناسب سے زیادہ کوٹا دیا جائے کیونکہ قائدؒ دیکھ رہے تھے کہ اگر ایسا نہ ہوا تو ملازمتوں میں مسلمان دیوار سے لگا دیے جائیں گے۔ (ایسے ہی جیسے آج بلوچستان کو لگا دیا گیا ہے۔ پوری فوج میں ایک جرنیل بھی بلوچستان سے نہیں اور پورے اسلام آباد میں ایک بھی فیڈرل سیکرٹری کا تعلق بلوچستان سے نہیں)
1916ء میں کانگریس نے یہ مطالبات قریب قریب مان لیے۔ مگر 1928ء کی نہرو رپورٹ میں کانگریس جداگانہ انتخابات کے ساتھ ساتھ اس بات سے بھی مکر گئی کہ مسلمانوں کی نشستین ان کی آبادی سے زیادہ ہوں گی۔ اس نے مرکزی مجلس قانون ساز میں مسلمانوں کی نمائندگی ایک تہائی کے بجائے ایک چوتھائی کرنے کی بات کر دی۔ قائداعظم ؒ نے بھانپ لیا کہ ایک چوتھائی نشستوں کے ساتھ تو مسلمان قانون سازی کے معاملات میں بے بس ہو جائیں گے۔ وہ نہ کوئی قانون بنوا سکیں گے اور نہ کوئی قانون بننے سے روک سکیں گے یعنی معاملات ریاست میں ان کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔ ( بالکل ایسے ہی جیسے آج بلوچستان کو قومی اسمبلی میں صرف 17نشستیں حاصل ہیں۔ یہ صوبہ قومی اسمبلی میں اکٹھا بھی ہو جائے تو نہ کوئی قانون بنا سکتا ہے نہ کسی قانون کو بننے سے روک سکتا ہے۔) چنانچہ مستقبل کے اس ہولناک منظر سے بچنے کے لیے علیحدگی کا نعرہ لگا اور متحدہ ہندوستان کے بجائے تقسیم ہند پر معاملہ ہوا۔یہی وہ پس منظر ہے جو جسونت سنگھ کو یہ کہنے پر مجبور کرتا ہے کہ کانگریسی رویوں نے مسلم لیگ کو مجبور کر دیا تھا کہ وہ علیحدگی کی بات کرے۔
اس پس منظر کے ساتھ اب آپ بلو چستان کی طرف آئیے۔ بلوچستان اس ملک کا 46% رقبہ ہے اور باقی کے تین صوبے مل کر 54 فی صد۔ لیکن ہم نے قائد اعظم کا نہیں بلکہ کانگریس کا اصول اپنایا ہے اور انہیں ان کی آبادی کی بنیاد پر نشستیں دی ہیں چنانچہ342 کی قومی اسمبلی میں بلوچستان کے پاس صرف 17نشستیں ہیں۔ وہ نہ کوئی قانون بنا سکتے ہیں نہ کوئی قانون بننے سے روک سکتے ہیں۔ پنجاب کی زمین اپنا خزانہ باہر اگلتی ہے اور یہ خزانہ گندم ہو یا چاول اس کا ہوتا ہے جس کی زمین ہو۔ بلوچستان کی زمین کا خزانہ اس کے پیٹ میں ہے چاہے گیس ہو یا تیل۔ مگر یہ خزانہ بلوچ کا نہیں ہوتا۔ اس پر مرکز نے اپنا حق جتلا رکھا ہے۔ کوئٹہ یونیورسٹی میں بلوچ دوستوں نے جب یہ نکتہ اٹھایا کہ آصف محمود کی زمین کی فصل آصف محمود کی ہے مگر آصف بلوچ کی زمین کی گیس یا تیل آصف بلوچ کا نہیں ہے تو آنکھیں کھل گئیں۔ عرض کیا کہ آپ یہ قانون بدلوا لیں۔جواب آیا کہ آپ لوگوں نے ہمیں17نشستیں دے کر اس قابل ہی کہاں چھوڑا کہ ہم آپ کے ظالمانہ قوانین بدل سکیں۔ اس لمحے مجھے قائداعظم بہت یاد آئے، میرے قائد کی کیا بصیرت تھی۔ قائداعظم کے اس پہلے اصول کی نفی ہم نے کی۔ بلوچستان عملا ہم سے کٹ چکا ہے۔ جس صوبے میں صرف 17نشستیں ہوں ، نوازشریف یا آصف زرداری وہاں جا کر وقت کیوں ضائع کریں۔ سیاسی جماعتوں نے بلوچستان جانا وقت ضائع کرنے کے مترادف جانا چنانچہ آج فیڈریشن میں بلوچستان سٹیک ہولڈر ہی نہیں رہا۔ ہمارا میڈیا پورے بلوچستان سے زیادہ صرف ایک اکیلے شیخ رشید کو کوریج دیتا ہے۔
ملازمتوں میں یہ عالم ہے کہ سول سروس میں پورے بلوچستان کی نمائندگی پنجاب کے ایک ضلع سرگودھا سے بھی کم ہے۔ (یادرہے کہ قائد اعظم نے ملازمتوں میں کیا تناسب مانگا تھا) تو عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آج بلوچوں کے وہی خدشات ہیں جو قائداعظم ؒ کے کانگریس سے تھے۔ اور ہم بلوچستان کے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جو کانگریس نے مسلمانوں کے ساتھ کیا تھا۔ چنانچہ بلوچوں کا ردعمل وہی ہوتا جا رہا ہے جو مسلم لیگ اور قائداعظم ؒ کا تھا۔ ہم آج قائداعظم ؒ کی فکر پر عمل کرتے ہوئے بلوچستان کو ان بنیادوں پر حقوق دے دیں جن بنیادوں پر بابائے قوم نے کانگریس سے بات کی تھی تو ہم حادثے سے بچ سکتے ہیں۔ بلو چستان کو فکر قائد پر عمل کر کے بچایا جا سکتا ہے۔