ہوم << تبدیلی کیسے لا ئی جائے ؟-حامد میر

تبدیلی کیسے لا ئی جائے ؟-حامد میر

hamid_mir1
اس یوم آزادی پر مجھے اپنی آزادی چاروں طرف سے خطرات میں گھری نظر آئی ۔13اگست کی رات میں اسلام آباد میں ایک دوست کے ہاں عشائیے پر مدعو تھا۔ دوستوں کی اس محفل میں ہماری زیادہ توجہ پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان چوتھے ٹیسٹ میچ پر تھی جسے ہم ٹی وی اسکرین پر دیکھ رہے تھے ۔کھانے سے فارغ ہوئے تو ساڑھے گیارہ بج چکے تھے اور کانوں میں پٹاخوں کی آوازیں پڑنے لگیں ۔ میں نے میزبان سے اجازت طلب کی تاکہ رات بارہ بجے سے پہلے گھر پہنچ جائوں۔ گاڑی میں بیٹھا تو ڈرائیور نے بتایا کہ مارگلہ روڈ پر ٹریفک کا بہت رش ہے لہٰذا ہمیں جناح ایونیو یا کشمیر روڈ کی طرف سے ایف ٹین جانا ہو گا۔ ہم نے فیصل ایونیو سے جناح ایونیو کی طرف جانے کی ٹھانی ۔
جیسے ہی ایف سیون سے نکل کر فیصل ایونیو پر آئے تو سڑک پر موٹر سائیکل سوار نوجوانوں کا قبضہ تھا جو قمیضیں اتار کر ناچ رہے تھے ۔ گمان گزرا کہ شاید میں کسی سیاسی جماعت کی ریلی میں پھنس گیا ہوں لیکن یہ سیاسی جماعت کی ریلی نہیں تھی ۔میں نے امداد طلب نظروں سے دائیں بائیں ٹریفک پولیس کو تلاش کیا کیونکہ عین سڑک کے بیچ موٹر سائیکلیں کھڑی کرکے ناچ گانا کسی طور پر بھی قانون کے مطابق نہ تھا لیکن پولیس نظر نہیں آئی ۔ مجھ سمیت بہت سے شہری اپنی اپنی گاڑیوں میں محبوس تھے ۔ سڑک کے بیچ ناچنے والے نوجوان اپنا جشن سڑک کے کنارے بھی منا سکتے تھے لیکن کناروں پر ان کا ناچ دیکھنے والوں کا ہجوم تھا۔ ڈرائیور نے راستہ لینے کیلئے ہارن بجایا تو ایک نوجوان نے اپنا ناچ روک کر اسے خونخوار نظروں سے دیکھنا شروع کر دیا ۔ ڈرائیور نے اپنا حق طلب کرنے کیلئے پھر سے ہارن بجایا تو نوجوان چھلانگ لگا کر گاڑی کے سامنے آ کھڑا ہوا۔ نجانے وہ کیا کرنا چاہتا تھا لیکن اسکی نظر مجھ پر پڑی تو وہ مسکرایا۔ اس نے اشارے سے مجھے سلام کیا اور پھر زورز ور سے تھرکنے لگا۔
میں نے تالی بجا کر اسے داد دی اور راستہ طلب کیا ۔ نوجوان نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سڑک پر کھڑی دو موٹر سائیکلیں ہٹائیں اور ہمیں راستہ دیکر ہماری طرف ایک ہوائی بوسہ پھینکا۔ ابھی ہم چند گز آگے بڑھے تھے کہ نوجوانوں کاایک گروپ سڑک کے کنارے آتش بازی کرتا ہوا نظر آیا ۔ وہ اپنے پٹاخے سڑک پر پھوڑ رہے تھے ۔بارہ بجنے میں دو منٹ باقی تھے اور چاروں طرف پٹاخوں کی تڑتڑاہٹ اور گھن گرج بڑھ رہ تھی ۔ ہم سے آگے والی گاڑی کو ایک خاتون چلا رہی تھیں اور وہ پٹاخوں کے بیچ سے گاڑی گزارنے کیلئے تیار نہ تھیں ۔ان کے رکنے سےہم بھی رک گے اور ہمارے رکنے سے کئی اور گاڑیاں بھی رک گئیں۔
ہم جشن آزادی کے نام پر قانون کی دھجیاں اڑانے والے نوجوانوں کے ہاتھوں پرغمال بن چکے تھے ۔ اتنے زیادہ پٹاخے چلائے جا رہے تھے کہ فضا میں ہر طرف بارود کا دھواں پھیل گیا ۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ بارود ہمیں غم دیتا ہے سانحے بھی دیتا ہے لیکن ہم اسی بارود میں اپنی خوشیاں بھی تلاش کرتے ہیں ۔ بارہ بجکر ایک منٹ پر 14اگست شروع ہوا تو اتنے پٹاخے چلے کہ مجھے گمان گزرا میں کسی میدان جن میں پھنس گیا ہوں ۔ اس دوران ایک پٹاخہ میرے آگے والی گاڑی کی چھت پر گرا۔ پٹاخے کے شعلوں نے اس گاڑی کی چھت پر لگے قومی پرچم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ یوم آزادی پر جشن منانے والوں کے ہوش پرجوش کے غلبے نے ایک قومی پرچم کو آگ لگا دی تو گاڑی ڈرائیو کرنے والی خاتون نے گاڑی سے باہر نکل کر اپنے آنچل سے اس آگ کو بجھانے کی کوشش کی جس پر ان کے آنچل کو بھی آگ نے پکڑ لیا ۔ بیچاری خاتون نے خود کو بچانے کیلئے آنچل زمین پر پھینک دیا ۔
کسی بھلے آدمی نے اپنی گاڑی میں موجود پانی کی بوتل نکالی اور خاتون کی گاڑی پر لگے پرچم کی آگ بجھائی ۔ اس خاتون نے پٹاخے چلانے والوں کو لعن طعن شروع کی تو اچانک دو پولیس والے بھی آ گئے ۔ ان کی مہربانی سے ہمیں کچھ راستہ ملا ۔ہم زیرو پوائنٹ کے پاس پہنچے تو وہاں ون ویلنگ کرنے والوں کا رش تھا اور ایک نوجوان سڑک کے بیچ گرا پڑا تھا ۔ ہر طرف قانون کی دھجیاں بکھر رہی تھیں اور میں سوچ رہا تھا کہ جتنا بارود پٹاخوں میں استعمال ہوا ہے اگر اس کا تھوڑا سا حصہ بھی دہشت گردوں کے ہاتھ لگ جائے تو وہ ہمارا کیا حشر کریں گے؟ مجھے ان نوجوانوں پر غصے کی بجائے ترس آرہا تھا ۔ ان نوجوانوں کا رویہ ایک ایسی قوم کی نمائندگی کر رہا تھا جس کے پاس جوش تو ہے لیکن ہوش کی کمی ہے، جذبہ تو ہے لیکن نظریہ اور فکر نہیں ۔
نغمے گاتی اور نعرے لگاتی اس قوم کے ہاتھ میں پٹاخےبھی ہیں اور پرچم بھی لیکن اتحاد، ایمان اور تنظیم کا فقدان ہے جس کا سبق بانی پاکستان قائداعظم ؒ نے بار بار دیا ۔ 14اگست کو ٹی وی چینلز پر نغموں اور نعروں کی بھرمار تھی ۔رمضان المبارک کے بعد یوم آزادی کو بھی کمرشلائز کر دیا گیا ہے لیکن کمرشل ازم کی دوڑ میں قائد اعظمؒ کی تعلیمات کو فراموش کر دیا گیا۔ بے سمت حب الوطنی چند نغموں اور نعروں تک محدود ہو چکی ہے ۔ کہنے کو تو اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں لیکن یوم آزادی پر بھی بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت ہمیں ایک دوسرے پر الزامات لگاتی نظر آئی ۔ ہماری سیاسی قیادت نے سانحہ کوئٹہ کے بعد قومی اسمبلی کے فلور پر جس سیاسی ناپختگی کا مظاہرہ کیا وہ افسوسناک تھا اگر آپ ایک قومی سانحے کے بعد قومی اسمبلی میں اتحاد کا مظاہرہ نہیں کر سکتے اور ایک دوسرے پر سیاسی الزامات لگائیں گے تو پھر قوم کے نوجوانوں سے سڑکوں پر مناسب رویے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ؟میں ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ بدترین جمہوریت بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ۔ میں آج بھی یہ سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا مستقبل جمہوریت اور آئین کی بالادستی سے وابستہ ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ سیاسی قیادت کے غیر جمہوری رویے کو نظرانداز کر دیا جائے ۔
مسلم لیگ (ن) ،پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف پاکستان کی تین بڑی جماعتیں ہیں اور تین صوبوں میں مقبولیت کی دعویدار بھی ہیں ۔ ان تینوں جماعتوں کے اندر جمہوریت کا فقدان ہے ۔ تینوں جماعتوں کے اندر اتحاد اور تنظیم نظر نہیں آتی ۔ان سیاسی جماعتوں کی کمزوریوں کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں اٹھاتی ہیں ۔بظاہر پچھلے تین سال سے نواز شریف اس ملک کے وزیر اعظم ہیں لیکن انکی حکومت اپوزیشن میں نظر آتی ہے اور اپوزیشن اصلی حکومت کی ترجمان بنی نظر آتی ہے ۔ نواز شریف تین سال سے حکومت چلا نہیں رہے بلکہ حکومت بچا رہے ہیں ۔ ان کے بار بار بچ جانے کی وجہ ان کا اچھا طرز حکمرانی نہیں بلکہ اپوزیشن کی کمزوریاں ہیں جو خود فیصلے کرنے کی بجائے کہیں اور سے ڈکٹیشن لیتی نظر آتی ہے ۔
جس دن اپوزیشن نے اپنے فیصلے خود کرنے شروع کر دیئے اور متحد ہو گئی اس دن نواز شریف کیلئے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گی ۔ وزیر اعظم نواز شریف کو اپنا طرز حکمرانی تبدیل کرنا ہو گا ۔ تمام فیصلے میرٹ پر کرنے ہونگے۔ افراد کی بجائے اداروں کو مضبوط بنانا ہو گا ۔ مسلم لیگ (ن) کو ایک منظم جمہوری جماعت بنانا ہو گا تاکہ باقی جماعتیں بھی ان کے نقش قدم پر چلیں ۔ جمہوریت کو مضبوط بنانے کیلئے بڑی سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت لانی ہو گی اور اپنے آپ کو اپنی جماعت سے بالاتر سمجھنے والے ضدی اور انا پرست وزراء سے جان چھڑانی ہو گی۔ سیاسی قائدین اپنے آپ کو بدل لیں تو پوری قوم بدل سکتی ہے اور ہمیں ایک سمت مل سکتی ہے بصورت دیگر ہم اپنی آزادی کیلئے خود ہی خطرات میں اضافہ کرتے رہیں گے اور دشمنوں کو ہمارے خلاف کچھ کرنے کی ضرورت نہ ہو گی۔