ہوم << ایک عجیب معاشرہ- ہارون الرشید

ایک عجیب معاشرہ- ہارون الرشید

m-bathak.com-1421247288haroon-rasheed
رحمۃ للعالمین کے آٹھ ارشادات ہیں، اعتدال کی جن میں تلقین ہے۔کیا کبھی کسی مولوی صاحب سے آپ نے ان میں سے کوئی ارشاد سنا؟
ابھی ابھی مبارک باد کا ایک پیغام موصول ہوا‘ تلخ تبصرے کے ساتھ ''Atomic Power without electric power'' واقعی پاکستان ایک دلچسپ ملک ہے۔ ان چند اقوام میں سے ایک ‘ دشمن جس سے خوف زدہ رہتا ہے‘ پانچ گنا بڑا دشمن۔ دنیا کی سب سے طاقتور قوم جس کی تزویراتی حلیف ہے۔ صرف اس لیے نہیں کہ وہ ایک مثالی ایٹمی اور میزائل پروگرام کا حامل ہے بلکہ اس لیے بھی کہ اس کی مسلّح افواج بہترین ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف پندرہ سالہ جنگ نے اس فوج کو اور بھی زیادہ سخت جان کردیا ہے۔
اس کے سائنس دان باکمال ہیں۔ ان کارناموں کے علاوہ جو معلوم اور معروف ہیں‘ کچھ ایسے بھی ہیں جن کا ذکر کبھی نہیں ہوتا‘ ان کی خبر دنیا کو تب ہو گی معرکہ جب گرم ہوا۔ ان کی یکسوئی اور مہارت پر آپ حیران رہ جاتے ہیں۔ سترہ سال اِدھر ایک نوجوان سے ملاقات ہوئی‘ جو اپنے نامور والد کے پہلو میں خاموش بیٹھا رہا۔ بارہ سال کی عمر میں میٹرک پاس کر کے باپ گورنمنٹ کالج میں داخل ہوا۔ لڑکپن ہی میں اس کے والد‘ یعنی نوجوان کے دادا نے ‘اپنے فرزند کو بتایا تھا کہ اپنے وطن کے لیے اسے ایٹم بم بنانا ہے۔ مزنگ لاہور سے تعلق رکھنے والے اس آدمی کے ذہن میں یہ خیال کیسے پھوٹا۔ جس کے مکین تو پتنگ بازی اور خوش خوراکی سے پہچانے جاتے ہیں۔ ہیروشیما اور ناگاساگی پر گرنے والے امریکی بموں سے‘ جب جاپان ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا۔
برسوں تک تاثر یہ رہا کہ پاکستانی ایٹم بم کے واحد معمار ڈاکٹر عبدالقدیر خان ہیں۔ بے شک یورینیم کی افزودگی انہی کا کارنامہ ہے۔ ایٹم بم مگرکوئی میز یا کرسی نہیں‘ تنہا جسے ایک ترکھان بنا دے۔ اکیس عدد یورینیم کی افزدوگی کے بعد۔ پورے اکیس مراحل ہوتے ہیں‘ان میں سے بعض مراحل اِس سائنس دان کی نگرانی میں انجام پائے۔
باپ نے شفقت بھری نگاہ سے فرزند کی طرف دیکھا اور انکشاف کیا کہ ایک برطانوی یونیورسٹی سے نو ماہ میں اس نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ پاک فوج کے سیاست سے بیزار سربراہ ‘جنرل عبدالوحید کاکڑ نے اس سائنس دان کو پاکستان کا پہلا اورجنل میزائل بنانے کی ذمہ داری سونپنا چاہی تو اس نے کہا : میں نے تو میزائل دیکھا تک نہیں۔ جنرل کا جواب یہ تھا : مگر آپ کی ٹیم بہت اچھی ہے۔ سوا دو سال میں ٹھوس ایندھن والا شاہین میزائل لانچنگ پیڈ پر لگا دیا گیا‘ جبکہ بھارتی سائنس دانوں کو صرف ٹھوس ایندھن بنانے میں پانچ برس لگے۔ اس میزائل کے لیے رہنمائی (Guidance)اور نگرانی (Monitoring)کے نظام اس نوجوان نے ڈھالے ۔ تین نسلوں کا سفر ‘ ایک خواب‘ اس کی تعبیر اور اس میں رفعت و بالیدگی۔
محدود وسائل اور ان گنت رکاوٹوں کے باوجود‘یہ ملک ایسا خیرہ کن سفر کیونکر طے کر سکا‘ جس کے اڑھائی کروڑ بچے سکول نہیں جاتے‘ جس کی اسی فیصد آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں‘ ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی حالت ناقابل بیان حد تک پست۔ صرف حکمران ہی نہیں‘ کئی اپوزیشن لیڈروں کی دولت بھی ملک سے باہر پڑی ہے ۔
صرف دفاع اور سائنس ہی نہیں‘ کچھ دوسرے میدانوں میں بھی ایسے ہی کارنامے انجام دیئے گئے۔ سیاست میں مداخلت سے قطع نظر‘ آئی ایس آئی کبھی دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی تھی۔ 1988ء میں امریکہ کے (سینئر) صدر بش نے جس کے ''پر کاٹنے ‘‘کا حکم دیا تھا۔ 1987ء میں راجیو گاندھی نے براس ٹیک مشقوں کی آڑ میں پاکستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو پورے کا پورا منصوبہ ‘آئی ایس آئی پر واشگاف تھا۔ حریف نے ہر کہیں اس فوج کو اپنے سامنے پایا۔ بھونچکے بھارتیوں کو جلد ہی ایک سے زیادہ صدمے کا سامنا ہوا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کرکٹ میچ دیکھنے گئے اور بھارتی وزیراعظم کو بتایا : میں ایک سپاہی ہوں اور جانتا ہوں کہ قابل استعمال (live)گولہ بارود اس وقت جاری کیا جاتا ہے‘ حملے کا منصوبہ جب طے شدہ ہو۔ حماقت کا ارتکاب ہوا تو ناقابل بیان تباہی کو آپ دعوت دیں گے۔ جنرل نے اپنے ایک دوست کو بتایا : راجیو گاندھی کی ٹانگیں عملاً کانپ رہی تھیں۔
ان لوگوں میں سے کوئی بھڑک اٹھے گا‘ جو خود کو ''دانشور ‘‘کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے سرپرست سیاست دانوں اور این جی اوز کی ناپسندیدہ فوج اور اس کے مرحوم سربراہ کی ایسی تعریف؟ یہی ہمارا مرض ہے‘ تعصبات میں گرفتار‘ جذباتی اور توازن سے محروم‘ ہیجان میں مبتلا معاشرہ۔ جنرل محمد ضیاء الحق ہرگز ایک اچھے حکمران نہ تھے۔ فوج نے باربار مارشل لا نافذ کر کے پہاڑ ایسی غلطیوں کا ارتکاب کیا اور پے در پے۔ مگر ان کی کامیابیاں ہیں اور کارنامے بھی۔
ایک فوجی آمر کی گود میں پل کر ''جوان‘‘ ہونے والا بھٹو‘ اپنے صدر کی خوشامد کیا کرتا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی اور ایشیا کا ڈیگال کہا کرتا۔ تمام پارٹیوں پرپابندی لگا کر اسے یک جماعتی نظام نافذ کرنے کا مشورہ دیا کرتا۔ ضلع کا ڈپٹی کمشنر جس کاصدر اور ایس ایس پی جس کا سیکرٹری ہو۔ ایسا منتقم مزاج کہ جس آدمی کو صلاح الدین ایوبی کہا کرتا، اس کے مرنے کی خبر سرکاری ٹیلی ویژن اور ریڈیو تو کیا، نجی اخبارات میں نشرکرنے کی اجازت بھی نہ دی۔
مخالفین کی رائے میں وہ غدّار تھا۔ نفرت کی شدّت میں انہوں نے اس کی ماں کا مذاق اڑایا، حالانکہ وہ ایک سادہ سی گھریلو خاتون تھی۔ قوم پرست ‘ ایٹمی پروگرام کا بانی جس نے ملک کی ازسر نو دفاعی تعمیرکوممکن بنایا‘ پہلا قابل عمل جمہوری آئین دیا۔ اپنے دشمن ہی نہیں، عالمی طاقتوں کو بھی ٹھکانے پر رکھا۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بار ایک اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاسی جماعت تعمیر کی۔ بھٹو کے کارنامے ‘اس کے مخالفین تسلیم نہیں کرتے۔ وہی تعصبات، وہی جذباتیت، وہی عناد اور وہی ہیجان۔
یہ جذباتیت اور یہ سطحیت کس چیز کی پیداوار ہیں؟ جہل کی! فقط درسی تعلیم سے محرومی نہیں بلکہ انداز فکر کی خرابی۔ قوموں کی عادات صدیوں میں تشکیل پاتی ہیں اور آسانی سے بدلتی نہیں۔ پے درپے ناکامیاں، جن کے ہم شکار ہوئے اور جو اظہرمن الشمس ہیں‘ ملک کو مایوسی کی طرف لے گئیں۔ مایوسی جو شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے‘ جس کا مرتکب فرد یا معاشرہ دلدل میں جیتا ہے۔
بنگلہ دیش میں غریب عورتوں کو سود پر قرض دینے والے ڈاکٹر یونس کو نوبل انعام دیا گیا۔ عبدالستارایدھی بدرجہا اس سے بہتر تھے، صلہ و ستائش سے بے نیاز۔ ان کی موت پر ان کی عظمت کا ادراک کیا گیا۔ اتنا ہی بڑا ایک اور آدمی ہمارے درمیان زندہ سلامت ہے، ڈاکٹر امجد ثاقب۔ ایسا ہی عظیم کارنامہ انجام دینے والا، اسی طرح دادو تحسین سے بے نیاز۔ کم ہی اخبار نویس اس کا ذکرکرتے ہیں۔ بڑا سبب تو وہی ہے ‘خودترسی، مگر ایک اوربھی۔ ''اخوّت‘‘ اس کے ادارے کا نام ‘ مدینہ منورہ کی ''مواخات ‘‘سے لیا گیاہے۔ بعض کو یہ ناگوار ہے۔کھینچ تان کر جو قائداعظم کوسیکولر ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں، درآں حالیکہ عمر بھر انہوں نے یہ لفظ کبھی نہ برتا۔
ڈاکٹر ادیب رضوی ہیں، سٹی سکول ہے، چھیپا ہے، غزالی فائونڈیشن ہے، ریڈ فائونڈیشن، شوکت خانم ہسپتال جائے ‘ گنتے جائیے‘ آپ تھک جائیں گے، جتنے کہ آسمان پر ستارے۔ اس قوم سے مایوس ہونے کا ہرگز کوئی جواز نہیں۔ اس کے باوجود کچھ لوگ مایوسی پھیلانے پر کیوں تلے رہتے ہیں؟ ایک تو وہی جہل اور خود ترحمی مگر کچھ انقلابی ہیں، امریکہ کی گود میں براجمان۔ کچھ علما ہیں، علم کے نام پر دھبّا اور احمق جو نہیں جانتے کہ مایوسی کینسر کی طرح ہوتی ہے۔ تنوع میں آہنگ ہی آخر کارایک بے سمت معاشرے کو قوم میں ڈھال سکتا ہے۔
فرد کی طرح معاشرہ بھی ایک جذباتی توازن میں بروئے کار آتا اورعلم سے فروغ پاتا ہے۔ آزادی ہی وہ چیز ہے جس میں بہترین انسانی صلاحیت دمکتی ہے۔ آزادی میں ڈسپلن، بے تعصبی اور رواداری۔رحمۃ للعالمین کے آٹھ ارشادات ہیں، اعتدال کی جن میں تلقین ہے۔کیا کبھی کسی مولوی صاحب سے آپ نے ان میں سے کوئی ارشاد سنا؟

Comments

Click here to post a comment