ہوم << ’’گورکن‘‘ - سیلانی

’’گورکن‘‘ - سیلانی

سیلانی کی آنکھوں کے گوشے نم ہوئے نہ منہ سے آہ نکلی۔ وہ بت بنا خالی خالی نظروں سے ٹیلی ویژن کے سامنے کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ ٹی وی پر کوئٹہ میں ڈھائی گئی قیامت کے مناظر دکھائے جا رہے تھے۔ لہو میں لت پت لاشیں۔۔۔ موت کی اچانک جھپٹ پر حیران کھلی ہوئی ساکت آنکھیں۔۔۔ اکھڑتی ہوئی سانسیں۔۔۔ کراہتے ہوئے زخمی۔۔۔ اور ان زخمیوں کے درمیان بچ رہنے والے بوکھلائے ہوئے حواس باختہ خوش نصیب۔۔۔
سول اسپتال کوئٹہ کی ایمرجنسی لمحوں میں قتل گاہ بن چکی تھی۔ بارودی دھماکے نے انسانی جسموں کے چیتھڑے اڑا دیئے تھے۔ درو دیوار خون سے رنگ دیئے تھے۔ زمین مذبح کے فرش کی طرح سرخ کردی تھی۔ اس مقام پر کٹے پھٹے وجود آڑھے ترچھے پڑے ہوئے تھے، جہاں زندگیاں بچائی جاتی ہیں، مسیحائیاں کی جاتی ہیں، آج وہیں ایک انسان نما درندہ موت بانٹ کر خود ’’جام شہادت‘‘ نوش کرگیا تھا، لیکن ایسا پہلی بار تو نہ ہوا تھا۔ دہشت و وحشت کا یہ کھیل پہلی بار کھیلا گیا ہوتا تو سیلانی کے چہرے کا رنگ بھی متغیر ہوتا۔ اس کا حلق خشک ہو تا اور آنکھیں چھم چھم برستیں۔ گزشتہ چار دہائیوں سے موت اس دھرتی پر ایسا ہی ناچ ناچ رہی ہے۔ بازار، اسپتال، تھانے، چھاؤنیاں، کچہریاں، سرکاری دفاتر، مدارس، اسکول، یونی ورسٹیاں حتیٰ کہ عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں۔
ملک کا کون سا حصہ ہے جہاں خوف و دہشت نے کوئی سانحہ رقم نہیں کیا؟ خوف کی زیادتی خوف کو شکست دے دیتی ہے۔ دکھ کو دکھ اور تکلیف کو تکلیف مات دے دیتی ہے، سیلانی تو اپنے حصے کے اشک کب کے بہاچکا۔ 1987ء میں پہلی بار کراچی کے بوہری بازار میں ہونے والے بم دھماکے کے بعد سے اس ملک میں اتنے دھماکے ہوئے کہ اب کوئی دھماکا دھماکا نہیں لگتا۔ اس کا دل بھی کسی قصاب، سرجن یالاشیں زخمی اٹھانے والے رضاکارکی طرح سخت سا ہوگیا ہے، اسی لیے جب اسے کوئٹہ کے سول اسپتال میں بم دھماکے کی اطلاع ملی تو وہ بس خاموش سا ہوگیا اور ٹیلی ویژن کے سامنے آکر لاشیں گننے لگا۔ دھماکے میں پندرہ جانوں کے ضیاع سے شروع ہونے والی بریکنگ نیوز اب پچاس کا ہندسہ عبور کرچکی تھیں۔ زخمیوں کی تعداد سو سے زیادہ بتائی جارہی تھی۔ رات تک یہ تعداد ستر تک پہنچ چکی تھی اور پھر سب کچھ ویسا ہی ہو نے لگا جیسا اب تک ہوتا آیا ہے۔
آرمی چیف کوئٹہ پہنچ گئے۔۔۔ زخمیوں کی عیادت کا سلسلہ شروع ہوگیا۔۔۔ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاس طلب کرلیے گئے۔۔۔ وزیر اعظم بھی کوئٹہ تشریف لے ہی آئے۔۔۔ دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے عزم کا اظہار کیا جانے لگا۔۔۔ مژدہ سنایا جانے لگا کہ بھاگتے دہشت گرد اب بوکھلاہٹ میں نہتے عوام کو نشانہ بنارہے ہیں۔۔۔ انکشاف ہونے لگے یہ دہشت گرد ملک کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ دلاسے دیئے جانے لگے کہ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھا جائے گا۔۔۔ سب کچھ ویسا ہی ہورہا تھا جیسا دہشت گردی کے پہلے واقعے کے بعد سے ہوتا آیا ہے۔ سیلانی ٹیلی ویژن پر یہ سب دیکھتا رہا اور کڑھتا رہا۔
حکمران ’’قیمتی جانوں‘‘ کے ضیاع پر اس افسوس کا اظہار کرچکے جو انہیں کبھی نہیں ہوا۔ سیاستدانوں نے بھی مذمتی بیان چلواکر اپنا فرض ادا کر دیا۔ امن و امان کے قیام کے ذمہ دار ادارے جیسے پہلے متحرک تھے، ویسے ہی اب بھی متحرک ہوگئے۔ میڈیا نصرت فتح علی کے الاپ کے ساتھ نیوز رپورٹیں دکھا دکھاکر رات نو بجے کا خبرنامہ بھگتا چکا، جس کے بعد سیلانی نے دفتر سے اپنا بیگ اٹھایا اور باہر نکل آیا، دفتر کے ایک دو دوستوں نے اس سے چھیڑ چھاڑ کی کوشش بھی کی، لیکن سیلانی نے کوئی جواب نہیں دیا اور چپ چاپ باہر نکل آیا۔
اس کا دفتر پریس کلب سے پیدل مسافت پر ہے، وہ وہیں موٹر سائیکل کھڑی کرتا ہے۔ وہ جانے پہچانے راستوں پر سر جھکائے چلتا ہوا پریس کلب کی طرف چل پڑا۔ وہ گہری سوچ میں گم تھاکہ آخر اس دہشت وحشت کے کھیل کا خاتمہ کب ہوگا؟ وہ آخری دہشت گرد کب مارا جائے گا جس کے بعد ہم سکون سے کہہ سکیں کہ ہماری نسلیں اب اس کینسر سے محفوظ ہیں اور ان سے آنے والی نسلیں ان سے پوچھا کریں گی کہ یہ خودکش دہشت گرد کیسا ہوتا تھا۔۔۔ کاش اس کا آخری کالم اسی آخری دہشت گرد کے خاتمے پر ہو۔
سیلانی نے موٹر سائیکل اسٹارٹ کی اور گھر کو ہولیا۔ دفتر سے گھر کا راستہ ہمیشہ سیلانی کے کاندھوں پر وزنی اینٹوں کی مشقت کا سا بوجھ رکھ دیتا ہے، لیکن آج ستر جنازوں کے بوجھ کے خیال نے یہ بوجھ ہلکا کردیا۔ اسے نہیں پتا چلا کہ کب ماری پور روڈ پر بچھا فاصلہ سمیٹا، کب گلبائی سے ٹرک اسٹینڈ تک گڑھوں کی دھول مٹی میں اٹا راستہ عبور کیا اور کب گھر پہنچا۔ موٹر سائیکل کے ہارن کی آواز پر ہمیشہ کی طرح منیب نے حسب معمول ’’بابا آگئے‘‘ کا نعرہ لگایااور دروازہ کھول دیا۔
سیلانی نے موٹرسائیکل اندر کھڑی کی۔ منیب نے پنجوں پر کھڑے ہوکر بابا کے گال پر بوسہ دیا اور اس کے کاندھے سے بیگ لیتے ہوئے بولے: ’’بابا! آج آپ نے اتنی دیر کردی، ہم تو ڈر ہی گئے تھے۔‘‘
’’ڈر۔۔۔‘‘ سیلانی چونکا۔
’’جی، ہم سمجھے کہ آپ کو ئٹہ نہ چلے گئے ہوں۔۔۔ آپ کا پتا نہیں چلتا ناں، آپ رپورٹنگ کے لیے چلے جاتے ہیں، بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘
منیب نے وہیں کھڑے کھڑے اپنے خدشے کا اظہار کرکے سیلانی کو صحافت چھوڑنے کا بھی کہہ دیا۔ اس کا یہ انداز، یہ بے چینی غیرمعمولی تھی۔ وہ ایک حساس بچہ ہے اور سیلانی کی طرح گہرا مشاہدہ کرنے والا observer ہے، لیکن اس طرح اس نے کبھی نہیں کہا۔ سیلانی نے پیار سے اس کے پھولے پھولے گالوں کو چھوا اور جواب دیئے بغیر والدہ کے کمرے میں چلا آیا۔ انہیں سلام کیا۔ انہوں نے جواب میں ہاتھ اٹھاکر ڈھیروں دعائیں دیتے ہوئے کہا: ’’ظالموں نے آج کوئٹہ میں قیامت ڈھا دی۔ اللہ انہیں غرق کرے، انہیں تباہ کرے۔۔۔ دیکھو ذرا! بیچارے لوگوں کے پیچھے پڑگئے ہیں۔‘‘
’’جی مورے! ستر بندے مرگئے ہیں۔‘‘
’’کیا، ستر بندے ہاہ آہ۔۔۔ اللہ انہیں برباد کرے۔‘‘ والدہ ہاتھ ملتے ہوئے بددعائیں دینے لگیں اور سیلانی اپنے کمرے کے غسل خانے میں گھس گیا۔ نہا دھوکر کپڑے بدل کر باہر آیا۔ ننھی ابرش نیند سے جاگ چکی تھی۔ سیلانی نے اسے بے اختیار اٹھاکر سینے سے لگالیا۔ ابرش کو سیلانی کی سخت شیو چبھتی ہے، وہ چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے اپنے بابا کا چہرہ دور کرنے لگی۔ وہ جتنا دور کرتی، سیلانی اتنا ہی اس کے نرم و نازک چہرے پر اپنا گال رگڑنے لگتا۔ ابرش تنگ آکر رونے لگی۔ شیث نے فوراً اپنی لاڈلی بہن کو بابا سے لیا اور پچکارتے ہوئے کمرے سے باہر لے گیا۔
سیلانی صبح سے پہلی بار مسکرایاتھا، وہ مسہری پر نیم دراز ہوگیا۔ منیب بھی مسہری پر چڑھ آیا اور کہنے لگا: ’’بابا! آج کوئٹہ میں دو کیمرا مین بھی مر گئے ہیں ناں۔‘‘
’’جی بیٹا‘‘
’’یہ کیمرا مین بھی صحافی ہوتے ہیں؟‘‘
’’جی یہ بھی صحافی ہی ہوتے ہیں، ان کا کام تو زیادہ خطرناک ہوتا ہے۔ کسی بھی حادثے دھماکے میں انہیں وہاں کی فوٹیج بنانی ہوتی ہیں۔ فوٹو بنانی ہوتی ہیں۔‘‘
’’لیکن بابا! آپ کا کام بھی تو خطرناک ہے ناں، آپ بھی تو زخمی ہوئے تھے۔۔۔ بابا! آپ یہ جاب چھوڑ دیں۔‘‘
’’پھر کیا کروں؟‘‘ سیلانی نے مسکراکر اپنے ننھے خیر خواہ سے پوچھا۔
’’آپ، آپ آپ۔۔۔ ایسا کریں کہ گورنمنٹ جاب کرلیں۔‘‘
’’اچھا مگر کیوں؟‘‘
’’گورنمنٹ جاب میں خطرہ کم ہوتا ہے۔‘‘ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے شیث خان نے اس کی بات کی فوراً ہی نفی کردی۔
’’گورنمنٹ ملازمین کو تو دہشت گرد زیادہ ٹارگٹ کرتے ہیں۔ کبھی ان کی بس پر حملہ کرتے ہیں اور کبھی ان کے دفتروں پر۔‘‘
’’پھر بابا! آپ فوجی بن جائیں۔ ان کے پاس تو بندوق بھی ہوتی ہے۔‘‘
سیلانی نے مسکراتے ہوئے کہا: ’’بیٹا! سب سے زیادہ خطرہ تو فوجیوں کو ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ حملے تو انہی پر ہوتے ہیں۔‘‘
’’پھر آپ کوئی بزنس کرلیں، لیکن ایک مسئلہ ہوگا کہ بزنس مینوں کو بھتے کی پرچی ملتی ہے۔‘‘ منیب نے خود ہی اس پیشے کو اپنے بابا کے لیے ناموزوں قرار دے دیا۔ پھر وہ تھوڑی دیر سوچتا رہا اور کہنے لگا: ’’ایسا کریں کہ آپ کسی اسپتال میں جاب لے لیں۔‘‘
’’اسپتال میں؟‘‘ سیلانی مسکرایا۔
’’نہیں نہیں نہیں۔۔۔ منیب نے تیزی سے یہ ملازمت بھی ردکر دی اور آہستگی سے بولا: ’’آج دھماکا اسپتال ہی میں تو ہوا ہے۔۔۔‘‘
’’بابا!آپ کچھ ایسا کریں ناں کہ جس میں خطرہ نہ ہو۔‘‘ سیلانی نے پیار سے منیب کو سینے سے لگایااور کہا: ’’میں بالکل محفوظ ہوں، کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے۔‘‘
’’نہیں بابا، ہمیں ڈر لگتا ہے، آپ رپورٹنگ چھوڑ دیں۔‘‘
منیب کی فرمائش پر شیث کہنے لگا: ’’بازار، اسپتال، روڈ، بسیں، ائیر پورٹ ہر جگہ ہی تو دھماکے ہوتے ہیں۔۔۔ پھر بابا کیا کریں؟‘‘
شیث کی بات پر منیب نے جو جواب دیا اسے سن کر سیلانی لرز کر رہ گیا۔ منیب اپنے بابا سے کہہ رہا تھا:
’’ایک جگہ ایسی ہے جہاں دھماکے نہیں ہوتے۔‘‘
”کیا مطلب؟“ سیلانی چونکا۔
’’بابا! آپ undertakerبن جائیں۔‘
’’میں ریسلر کیسے بن جاؤں ۔۔۔‘‘
’’نہیں، نہیں بابا! وہ والا انڈرٹیکر نہیں، میں قبرستانوں والے انڈرٹیکر کا کہہ رہا ہوں۔۔۔ قبرستانوں میں دھماکے نہیں ہوتے، آپ قبریں کھودنے والا بن جائیں۔۔۔ ہماری میڈم بتا رہی تھیں کہ شہر میں ایک ایک قبر ہزاروں روپے کی ملتی ہے۔‘‘
سیلانی نے منیب کی آنکھوں میں جھانکا، وہاں معصومیت محبت اور careکے علاوہ کچھ نہ تھا۔ سیلانی نے بے ساختہ منیب کو سینے سے لگاکر اس کی پیشانی چوم لی۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہم صرف گزشتہ ایک عشرے میں 49,000 جانیں گنوائے بیٹھے ہیں۔ یہ انچاس ہزار جانیں گنوانے کے بعد بھی آج ہم اپنے آنے والے کل کو محفوظ کل نہیں دے سکے ہیں۔ ہمارے معصوم بچے ذہن لڑا لڑا کر تھک رہے ہیں۔ اسکول، کالج، یونی ورسٹیاں، بازار، چھاؤنیاں، ائیرپورٹ، تھانے، کھیل کے میدان اور سڑکیں۔۔۔ کسی جگہ بھی تو امان نہیں۔ امان ہے تو بس شہر خاموشاں میں۔ پھر وہ کیوں نہ وہاں جا بسنے کی بات کریں۔۔۔ ہمیں اب دہشت گردوں کے خلاف ہرمصلحت جھاڑ کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ اب دہشت گردوںاور جاسوسوں کو بھگانا نہیں، لٹکانا ہوگا۔ انہیں گردن کے ٹوٹے ہوئے منکوں کے ساتھ نشان عبرت بنانا ہوگا۔ بچھو کو بچھو اور سانپ کو سانپ صرف سانپ ہی نہیں کہنا ہوگا، ان کا سر بھی کچلنا ہوگا۔ ہم آج یہاں خدا کو حاضر ناظر جان کر فیصلہ کرتے ہیں تو شاید کل کوئی سیلانی کسی آخری دہشت گرد پر آخری کالم لکھ سکے۔ حکمران ملک و قوم کی خاطر نہ سہی، اپنی غرض کے لیے ہی خودغرض بن کر سوچیں تو یہ ان کی مجبوری ہے۔ انہیں اپنی شہنشاہی کے لیے زندہ رعایا بھی تو چاہیے۔۔۔ سیلانی یہ سوچتا ہوا اپنے ہاتھوں کے پیالے میں منیب کا چہرہ لیے شفقت پدری سے دیکھتا رہا دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment