ہوم << مساوات، انسانی حقوق تو بس اسلام میں ہے - ذیشان علی

مساوات، انسانی حقوق تو بس اسلام میں ہے - ذیشان علی

ذیشان علی انقلاب امم کے مسئلہ پر غور کریں اور اقوام کے ارتقا اور تنزل کے اسباب تلاش کریں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح آشکار ہو جاتی ہے کہ وہ اسباب جو ان کی ترقی کے وقت تھے وہ ان میں تنزل اور انحطاط کے وقت باقی نہ رہے. جن اصولوں پر ان اقوام کے اسلاف کاربند تھے اور ان کو اپنا سرمایہ افتخار سمجھتے تھے، ان کے بعد آنے والوں نے ان کو چھوڑ دیا اور انہی باتوں کو اپنی کسرشان سمجھنے لگے تو اس کا لازمی نتیجہ یہ نکلا کہ ارتقاء کے عوض تنزل ہوا اور ہدایت کے نور کی جگہ ظلمت اور گمراہی کی تاریکی نے لے لی۔
جب مسلمانوں میں باہمی افتراق، نسلی امتیاز اور محض خاندانی حسب نسب شرافت کی علامت اور معیار نہ تھا، اس وقت مسلمانوں کی اقبال مندی کا آفتاب سارے عالم کو اپنی شعاعوں سے منور کر رہا تھا، ان کاتمدن تمام جہاں کے تمدن سے فائق تھا، ان کی تہذیب ساری دنیا کی تہذیب سے بہتر تھی، ان کی انتظامی قابلیت اور حکمرانی کی لیاقت مشہور و مسلم تھی اور وجہ یہ تھی کہ انہوں نے آسمانی احکامات کو اپنے لیڈر اور رہنما تسلیم کیا اور ان کے ایک اشارے پر لبیک کہتے ہوئے عمل کیا، آپس میں پیار و محبت اور مساوات کو فروغ دیا اور نفرتوں اور گروہ بندیوں کو گہرے کنویں میں غرق کر دیا۔ ان کی اسی مخلصانہ جدوجہد کی خدا نے بھی گواہی دی کہ یہ لوگ کفار کے سامنے نہایت سخت اور آپس میں رحم دل اور محبت کرنے والے ہیں لیکن نہایت حسرت اور افسوس کا مقام ہے کہ خدا کے اس صریح پیغام کے باوجود آج ہم قومی تشخص، خاندانی اور نسلی امتیازات میں اس قدر بٹ گئے اور ان عناصر کو اتنی فوقیت دے دی کہ ایک دوسر ے سے بیگانہ ہوگئے اور وہ باہمی یکجہتی اور ہمدردی جو سار ی ترقیوں کا راز ہے، وہ مفقود ہوگئی اور ہم اس تہذیب کو اپنا بیٹھے جس کہ متعلق شاعر مشرقؒ نے فرمایا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جوشاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا نا پائیدار ہوگا
آج مغربی دنیا میں مساوات اور ہیومن رائٹس کا غلغلہ مچا ہوا ہے اور ہم اپنی ناواقفیت اور ناسمجھی کی بنا پہ یہ خیال کر بیٹھے ہیں کہ شاید مساوات اور انسانی حقوق یورپ اور امریکہ کی اختراع ہیں جبکہ مساوات اور ہیومن رائٹس تو ہیں ہی اسلام میں، مغرب کا نعرہ تو مساوات کے نام پہ ایک دھوکہ اور فریب ہے. صرف ارکان اسلام پر ہی نگاہ دوڑائیں تو مساوات اور برابری کی بازگشت سنائی دیتی ہے، مساجد میں امیر اور غریب کی کوئی تفریق نہیں چاہے ملک کا بادشاہ ہو یا کوئی غریب مزدور، دونوں ایک صف میں شانہ بشانہ رب کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں، امامت کے لیے بھی امارت کی کوئی شرط نہیں بلکہ تقوی اور بزرگی ضروری ہے، اگر یہ صفات کسی کالے کلوٹے حبشی غلام میں بھی پائی جائیں تو ہمیں اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے۔ اسی طرح روزے میں بھی جس طرح ایک امیر آدمی سارا دن بھوکا پیاسا رہتا ہے اسی طرح غریب بھی، امیر کا وقت روزے میں کم نہیں اور غریب کا زیادہ نہیں بلکہ دونوں یکساں وقت پر روزہ افطار کرتے ہیں، اسی طرح باقی ارکان دیکھے جائیں تو بخوبی علم ہوتا ہے کہ امیر و غریب، حسب نسب اور قومیت کی بنا پہ کسی کو کوئی تخصیص حاصل نہیں اور اسلام نے سب کو مساوی حقوق سے نوازا ہے. جب ارکان کی یہ کیفیت ہے تو باقی پورا دین جس کا مدار ان ارکان پر ہے وہ تو سراپا مساوات اور عدل ہے، اس کے برعکس اگر مغربی تہذیب کو دیکھا جائے تو مساوات کی خوشنما پیکنگ میں تعصب اور منافقت کا سیاہ چہرہ جھلکتا دکھائی دیتا ہے۔ غریب اور غربت کو عیب کی نظر سے دیکھا جاتا ہے، ایک ساتھ رہنا تو دور ان کے ساتھ بیٹھنے حتیٰ کہ دفنانے تک کو معیوب خیال کیا جاتا ہے. امیر اور غریب کا قبرستا ن الگ ہے، امیر اور غریب کا چرچ الگ ہے اور غریب کی عبادت گاہ میں جانے کو بھی برا اور حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے.
ہماری مثال اس بوکھلائے ہوئے بدحواس شخص کی سی ہے جو فریق مخالف سے بری طرح مرعوب و متاثر ہے اور اپنی درست بات بھی بیان کرتے ہوئے ڈرتا ہے کہ کہیں یہ اس کے نزدیک درست نہ ہو. یہی وجہ ہے کہ آج ہم کثیر تعداد اور بےانتہا وسائل کے باوجود پستی و ظلم کا شکار ہیں. جب تک ہم دین مغربی کی پوجا سے توبہ اور اپنی تہذیب و ثقافت، تعلیمات اور طور طریقوں پر ببانگ دہل فخر اور انھیں دل وجان سے قبول نہیں کریں گے اس وقت تک حالت نہیں بدلے گی.

Comments

Click here to post a comment