یوں تو دنیا کی آبادی کا 10فیصد جبکہ پاکستانی آبادی کا 7فیصد ذہنی و جسمانی معذوری سے گزر رہا ہے۔ تاہم یہ شرح اس وقت بڑھ جاتی ہے جب اس معذور فرد ساتھ اس کے گھر والوں کو بھی شامل کر لیاجائے۔ اس وقت اس آبادی کا 30فیصد حصہ ایسا ہے جو 5سے 15سال کی عمر سے تعلق رکھتا ہے۔اور ان میں سے صرف4 فیصد کو تعلیم و صحت کی سہولیات حاصل ہیں۔ حکومت پاکستان نے اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ڈکلریشن سے لے کر میلینیم ڈویلپمنٹ گولز تک تمام معاہدوں میں دستخط کیے ہوئے ہیں۔ خصوصی تعلیمی پالیسی کے مطابق تمام سکولز 2025ء تک انکلوسو ہو جائیں گے۔گو کہ حکومت نے اس سلسلے میں کوششوں کا آغاز کیا ہے لیکن اس کی رفتار نہایت سست ہے۔ آج ملینیم ڈولپمنٹ گولز کا شور بہت زیادہ ہے لیکن یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ خصوصی بچوں کی تعلیم کے بغیر یہ ہدف حاصل کرنا ناممکن ہے۔
سروے کے مطابق پاکستان میں 18سال تک کی عمر کے 60 لاکھ سے زائد بچے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہیں۔ ذہنی معذور بچوں کی تعداد 30فیصد، نابینا پن کا شکار 20فیصد، قوت سماعت سے محروم 10فیصد جبکہ جسمانی معذوری کاشکار 40 فیصد ہیں۔ادارہ شماریات کے 16اکتوبر2012ء کو شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 181ملین ہے، جس میں معذور افراد کی کل تعداد ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد ہے۔ وزارت سوشل ویلفیئر کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے تقریباََ ہر گائوں میں 10سے 20 بچے ایسے ہیں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکا ر ہیں۔ ان بچوں کی تعلیم و تربیت کے ادارے بہت کم ہیں، اگر کچھ نظر بھی آتے ہیں تو وہ صرف بڑے شہروں تک محدودہیں اور کافی حد تک وسائل کی کمی کا شکار ہیں۔ سب سے بڑا المیہ یہ ہے کی عام تعلیمی اداروں میں نظرانداز ان طلبہ کو داخلہ نہیں دیا جاتا۔ دوسری طرف والدین اپنے بچوں کی تکالیف اور ان کے مسائل کے حل کی رہنمائی نہ ہونے کی وجہ ذہنی تنائو کا شکار رہتے ہیں۔ جو واقف ہیں ان کو ان کی تعلیم کے لیے کوئی مناسب ادارہ نظر نہیں آتا جن سے مستفید ہو کر وہ اپنے متاثرہ بچوں کے مسائل سے عہدہ برا ہو سکیں۔ خصوصی افراد کے حقوق کی آواز بلند کرنے کے لیے جگہ جگہ سیمینارز اور کانفرنسز معذور افراد کی معاشرہ میں موجودگی اور ان کے مسائل کا احاطہ کرتے ہیں مگر جو دعوے اور وعدے کیے جاتے ہیں، وہ صرف کانفرنسز تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اگر ان پر عمل کر لیا جاتا تو آج خصوصی افرادکے مسائل کافی حد تک کم ہو سکتے تھے۔
یہ امر باعث افسوس ہے کہ ہمارے ہاں خصوصی بچوں کی تعلیم و نگہداشت کے لیے کوئی منظم نظام موجود نہیں۔ اس مسئلے سے نبرد آزما ہونے کے لیے کم و پیش 5 ہزار سے زائد اداروں کی ضرورت ہے جو بلاشبہ حکومت اور پبلک سیکٹر کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔ اس وقت سرکاری و نجی طور پر کم و بیش 750ادارے کام کر رہے ہیں۔ پنجاب میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تعداد 250 کے قریب ہے مگر یہ دیہات سے کوسوں دور ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر سکول میں 10نارمل بچوں کے مقابلے میں کم از کم ایک خصوصی بچہ ضرور ہو۔ بجائے اس کے کہ انھیں الگ تھلگ رکھا جائے انہیں ایک ہی ماحول میں پروان چڑھایا جائے۔ اس طرح انہیں سیکھنے کے زیادہ مواقع میسر آئیں گے۔ شمولیاتی تعلیمی نظام کے تحت انہیں سسٹم میں شامل کیا جانا چاہیے۔ حکومتی وسائل اس بات کی اجازت نہیں دیتے، اس لیے بھی شمولیاتی تعلیم سے بہتر نظام اور کوئی نہیں ہے جس کے ذریعے زیادہ سے زیادہ بچوں تک پہنچا جا سکتا ہے۔ یہ ایک نہایت موثر طریقہ تدریس ہے جس سے بچہ میں احساس کمتری کا خاتمہ ہوتا ہے اور وہ عام بچوں کے ساتھ بیٹھ کر خود کو بھی نارمل محسوس کرتا ہے۔ یہ طریقہ تدریس کم وسائل میں رہ کر خصوصی بچوں کی تعلیم و نشونما کا بہترین طریقہ ہے۔ جس میں وہ نارمل بچوں کے ساتھ بیٹھ کر زندگی کی بحالی کی طرف آتے ہیں اور ان کی شخصیت اور کارکردگی میں نکھار آتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں صرف 30 کے قریب ایسے ادارے ہیں جو انکلوسو ایجوکیشن پر کام کر رہے ہیں جن میں ایک نام ’’غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ‘‘ کا بھی ہے۔ غزالی پاکستان کے دور افتادہ دیہات میں جہالت کے اندھیروں کو کم کرنے میں مصروف عمل ہے۔ دیہاتوں کے انہی سکولوں میں انکلوسو ایجوکیشن کے فارمولے کے تحت خصوصی بچوں کو بھی عملی مراحل سے گزارا جا رہا ہے۔ ’’امین مکتب‘‘ اور ’’رائزنگ سن ‘‘جیسے ادارے ٹرسٹ کو نہ صرف اساتذہ کی پیشہ ورانہ ٹریننگ، راہنمائی و معاونت فراہم کر رہے ہیں بلکہ اپنے ماہر سائیکالوجسٹ کی خدمات بھی مہیا کیے ہوئے ہیں۔ جو مستقل بنیادوں پر خصوصی بچوں کی نفسیات، تربیت، فزیو تھراپی، سپیچ تھراپی کے ذریعے ان کی کمزوریاں دور کرتے اور ان کے گھریلو ماحول کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیم و تربیت اور پرورش کی منصوبہ بندی کرتے ہیں. جن اداروں نے بھی انکلوسو ایجوکیشن کا تجربہ کیا، انہیں اس میں کامیابی حاصل ہوئی۔ یہ سہولت ہر شہر اور علاقے کے ہر سکول میں ہونی چاہیے۔ ان بچوں پر تھوڑی سی توجہ ان بچوں میں زندگی کی امنگ پیدا کر سکتی ہیں۔ انکلوسو ایجوکیشن انہیں معذوری کے احساس سے بھی بچائے گی اور معاشرے کی ترقی کی دوڑ میں آگے بھی بڑھائے گی۔
تبصرہ لکھیے