ہوم << ٹرین کا کیبن اور تصویر کے خیالی رخ - عمیر علی

ٹرین کا کیبن اور تصویر کے خیالی رخ - عمیر علی

عمیر علی صبح کے چار بجے کا الارم لگایا، لیکن اُٹھ نا پائے، بھئی اُٹھتے تو تب نہ جو سوتے۔ رات ایک بجے تک ماں جی کی نصیحتیں سُنیں۔ سفر میں احتیاط کرنا۔ کسی سے کچھ لے کر مت کھانا۔ سامان کا خیال رکھنا. بھئی ماں تو ماں ہیں۔ بھلے میں تیس کے پیٹے میں داخل ہونے والا ہوں، اور بیگم کو لینے اسلام آباد سے سسرال حیدر آباد جا رہا ہوں، ایک بیٹی کا باپ ہوں لیکن ماں جی کے لیے تو چھوٹا ہی ہوں نا۔ سوچا اب سووں گا تو صبح آنکھ نہ کُھل سکے گی۔ سو ادھر اُدھر کسی طرح وقت گزارا اور تین بج کر پچپن منٹ پر اپنے انھی شادی شدہ ہاتھوں سے الارم بند کیا۔ بیگ پر ایک طائرانہ نظر دوڑائی۔ سب ٹھیک پا کر، غسل کرنے غسل خانے میں چھلانگ لگائی۔ پھسلتے ہوئے بچے، اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ کمرے میں کوئی نہیں، احتیاطا دیکھا کہ کوئی دیکھ کر یہ نہ کہہ دے کہ بیگم سے ملنے کو بائولا ہوا جاتا ہے۔ غسل کر کے تیار ہو کہ باہر سے ٹیکسی لی اور اسٹیشن کو روانہ ہو گئے۔ اپنی سیٹ تلاش کی، اور براجمان ہو گئے۔ رفتہ رفتہ باقی لوگ بھی اردگرد موجود تھے۔ کسی خواب کی مانند سب کچھ ہوتا گیا اور چھ بج گئے اور ٹرین چل پڑی۔
۔
شروع میں تو بیگم اور بچی سے ملنے کے موقع کے خیالی پلاو پکائے لیکن چکلالہ کے اسٹیشن آنے پر چونک کر نگاہ دوڑائی تو پایا کہ ساتھ میں پانچ ہمسفر بمع دو عدد حسین چہرے بھی موجود ہیں۔ لمبا سفر تھا سو کچھ نہ کچھ گپ شپ تو لازمی تھی۔ حسینائوں پر نگاہ ڈالتا تو رن مُرید ضمیر اور حسینائوں کی والدہ محترمہ دونوں کی طرف سے جنگ کا اندیشہ تھا سو ساتھ والے بھائیوں گفتگو شروع کی۔ اسی دوران خوبصورت گھاٹیوں سے گزرتی ٹرین جہلم ریلوے اسٹیشن پر رُکی تو سامنے والی حسینہ نے میرے ماتھے پر ازل سے لکھا ہوا ’’بھائی‘‘ لفظ پڑھا اور پھر باقاعدہ ادا کرتے ہوئے بولی کہ پانی کی بوتل لا دیں۔ پانی لا کر دینے پر پڑھا گیا سبق دہراتے ہوئے حسینہ نے شکریہ ادا کیا۔ گویا یہ اُس فیملی سے گپ شپ کا بھی آغاز ہو گیا۔ لاہور تک پہنچتے پہنچتے تو گویا سب ایک فیملی بن چُکے تھے۔ ادب و آداب کے دائرے میں خواتین سے بھی گفتگو، ایک دوسرے کو اپنا اپنا کھانا دینا لینا وغیرہ جاری ہو چکا تھا۔ اور والدہ کے قصے بھی شروع ہو چکے تھے جن میں کبھی اُن کی کسی نند نے اُن کی بیٹیوں پر کالا جادو کیا اور کبھی اُن کے معصوم ترین بیٹے پر آوارہ گردی کا جھوٹا الزام لگا۔
۔
گویا چوبیس گھنٹے کے لیے یہ چھ افراد کا کیبن ہی میری دنیا تھا، میری فیملی تھا، میرا وطن تھا، مجھے انہیں دکھ درد بانٹنا اور محسوس کرنا تھے۔ اور اپنی ناقص عقل کو استعمال کرتے ہوئے اچھی رائے بھی دینا تھی۔ میرے یہ ہمسفر افراد اور میرے درمیان جیسے کوئی وقتی لیکن مضبوط رشتہ بن چکا تھا۔ ہم سب مل کر کھا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے کام آ رہے تھے۔ اُس کیبن میں آنے والی ہر مشکل، جیسے اماں بی کا کوئی بیگ ادھر اُدھر کرنا، کسی بھائی کو سونے کےلیے وقتی جگہ دے کر خود کو اکڑوں بٹھانا، کیونکہ سونے والے برتھ تو عموما رات کو ہی کھولے جاتے ہیں، میں کام آرہے تھے۔ ہم میں سے کسی کو کوئی غرض نہیں تھی کہ سامنے والے کی ذات کیا ہے، اُس کا مذہب کیا ہے، اُس کا مسلک کیا ہے، اُس کی معاشرتی و مالی حیثیت کیا ہے۔ ہم صرف ایک ساتھ تھے۔
۔
یکایک ایک تیز دودھیا روشنی پھیلی، اور کیبن کا دائرہ پھیلنا شروع ہوگیا۔ پانچ گز کا کیبن پہلے دس کا ہوا، پھر سو کا اور پھر رفتہ رفتہ تا حد نظر ہو گیا۔ اسی تناسب سے افراد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ دور تلک ہزاروں افراد نظر آنے لگے۔ میں ان میں سے کسی کو بھی نہیں پہچانتا تھا۔ ان میں سے کوئی بھی میرا اپنا نہیں تھا۔ لیکن جانے کیوں یہ میرے اپنے تھے۔ یہ سب میرے کیبن کے لوگ تھے، مجھے ان کے غم اور خوشی میں شریک ہونا تھا۔ مجھے ان سے محبت کرنا تھی۔ یہ خیال رکھنا تھا کہ اگر میری تھوڑی سی تکلیف سے کسی کو کوئی راحت ملتی ہے تو ہر کوشش کروں۔ میں ہی نہیں اس وسیع و عرض کیبن کے باقی ماندہ تمام افراد بھی اسی جذبے سے سرشار تھے۔ آخر ہم سب ہم سفر تھے۔ یہی ہمارا مسلک تھا۔ یہی ہماری ذات تھی۔ یہی ہماری حیثیت تھی یہی ہمارا خاندان تھا۔
۔
اچانک جھٹکا لگا اور میں چونک کر بیدار ہوا، رات ہو چکی تھی اور سب لوگ اپنی اپنی برتھ کھول کر سو چکے تھے سوائے میرے اوپر والے افضل بھائی، کیونکہ جانے کب میری آنکھ لگی اور میں نے اپنا سر اُن کی گود میں رکھ دیا تھا اور وہ اونگھتے ہوئے جاگنے کی کوشش کر رہے تھے۔ میں ہڑبڑا کر اُٹھا، اور اُن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اُنہیں اپنی برتھ کھولنے کو کہا ۔ اُن کے جانے کے بعد پھر میں صبح تک سو نہ پایا، اور یہی سوچتا رہا۔ کاش میرا وطن، میرا معاشرہ بھی ایک ٹرین کا کیبن بن جائے۔ اور ہم آپس میں دینی، سیاسی، معاشرتی اور دیگر وجوہ پر لڑنے کے بجائے صرف ہمسفر بن جائیں۔ حیدر آباد کے اسٹیشن پر لگنے والی بریک نے میری تمام خواہشات کو لال جھنڈی دکھائی۔ اور میں اپنے عارضی ہمسفروں کو اللہ حافظ کہتے ہوئے سوچ رہا تھا۔ کہ کب دودھیا روشنی پھیلے گی، کب کیبن بڑا ہوتا ہوتا پورے وطن اور کرہ ارض تک پھیل جائے گا۔ اور کب یہ سب ہمسفر ہمیشہ کے لیے ہمنوا بن جائیں گے۔
جو ہمسفر تو ہیں لیکن اُن سے ہمنوائی نہ ہے۔

Comments

Click here to post a comment