ہوم << سائبر کرائم ایکٹ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ محمد اشفاق

سائبر کرائم ایکٹ، ہم کیا کر سکتے ہیں؟ محمد اشفاق

محمد اشفاق سوشل میڈیا پہ احتجاج، اخبارات کے اداریوں میں اظہارِ تشویش، انسانی حقوق اور انٹرنیٹ پہ اظہارِ رائے کی آزادی کےلیے سرگرم تنظیموں کے تحفظات اور عام انٹرنیٹ صارفین کی بےچینی کے باوجود سائبر کرائم ایکٹ کو سینیٹ کے بعد اب قومی اسمبلی سے بھی منظوری مل چکی ہے- غنیمت یہ ہے کہ ایکٹ صدرِمملکت کی منظوری سے قبل ہی عدالت میں چیلنج ہوچکا ہے- پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی اور اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، انسانی حقوق کے اداروں اور صحافیوں کی تنظیموں کو چاہیے کہ اس کیس میں فریق بنیں اور عدالت کو درست فیصلے پر پہنچنے میں معاونت فراہم کریں.
سوال یہ ہے کہ انٹرنیٹ کے عام صارفین خود کو اور دوسروں کو اس متنازعہ قانون کی زد سے بچانے کے لیے کیا کر سکتے ہیں؟ اس امر پہ نامور وکلاء، صحافیوں، سوشل میڈیا ایکٹوسٹس کا تقریبا اتفاق ہے کہ اس قانون کی بہت سی شقوں میں اتنا ابہام موجود ہے کہ اس کا غلط استعمال بہت ہی آسان ہے. مزید تشویشناک امر یہ ہے کہ مبینہ سائبر کرائمز کی تفتیش جن اداروں نے کرنا ہے، انٹرنیٹ اور اس سے متعلقہ معاملات میں ان کی آگاہی اور مہارت بھی نہ ہونے کے برابر ہے. اسی طرح نچلی سطح کی عدلیہ میں بھی ایسے مقدمات کی سماعت کی صلاحیت و اہلیت پہ سوالات اٹھ رہے ہیں. پاکستان میں معمولی مخالفت پہ تہذیب و انسانیت کی سطح سے نیچے گر کر مخالفین کو جھوٹے مقدمات میں ملوث کرنا شہروں اور دیہاتوں میں بہت عام سی بات ہے. اپنے مخالفین پر مارپیٹ، اقدام قتل حتیٰ کہ آبروریزی جیسے جھوٹے مقدمات درج کرانا بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے. انٹرنیٹ پر چونکہ زیادہ تر نظریاتی، سیاسی و مذہبی مباحث عام ہیں لہذا یہ اندیشہ کہ کوئی بھی آپ کی پوسٹ یا تبصرے کو عداوت کی بناء پہ آپ کے خلاف استعمال کر سکتا ہے، قطعی بعید از قیاس نہیں.
اس صورتحال سے نبٹنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے؟
سب سے پہلے تو ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے کے لیے آپ کو صرف اسے استعمال کرنا آنا کافی ہے. اس کے لیے کوئی کوالیفکیشن، ڈپلومہ یا ہنر درکار نہیں ہوتا. آپ کے آفس کا چپڑاسی بھی سوشل میڈیا استعمال کر سکتا ہے، آپ بھی اور آپ کا باس بھی. انٹرنیٹ تک رسائی درکار ہے اور بس. اب چونکہ بیس کروڑ کے ملک میں کروڑوں لوگوں کو یہ رسائی حاصل ہے تو یقینی بات ہے کہ آپ کو بھانت بھانت کی آوازیں سننے کو ملیں گی.
یہ بھی جاننے اور سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر کوئی اسی مذہب، اسی نظریے پر عمل پیرا نہیں ہوسکتا جو آپ کا مذہب یا آپ کا عقیدہ ہے. بالکل اسی طرح سب لوگ ایک جیسی اخلاقی اقدار، ایک جیسی تعلیم و تربیت اور ایک جیسی عادات رکھنے والے بھی نہیں ہوسکتے، چنانچہ انٹرنیٹ پر آپ کو ملحد بھی ملیں گے، مومن بھی، مشرک بھی اور بتوں کے پجاری بھی. اور یہ سب کے سب آپ کی طرح خود کو درست سمجھتے ہوں گے. یہاں مدارس کے طلبہ و طالبات بھی ہوں گے اور جدید ترین تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے بچے بچیاں بھی. سب اپنے اپنے نصاب کے زیرِ اثر ہوں گے. یہاں اپنے شعبے میں اعلیٰ مہارت رکھنے والے پروفیشنلز بھی ہوں گے اور ماہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے اناڑی بھی. ہر مذہب، ہر مسلک، ہر طرح کا مزاج، ہر طرح کی فطرت رکھنے والے جب ایک ہی فورم پہ اکٹھے ہوتے ہیں اور سب کو وہاں اپنے دل کی بھڑاس نکالنے کا بھرپور موقع بھی میسر آتا ہے تو اختلافات کا پیدا ہونا بھی لازمی امر ہے. ایک دوسرے کی دل شکنی یا جذبات کو مشتعل کرنے کا احتمال بھی رہتا ہے اور طعن و تشنیع اور گالی گلوچ کی نوبت بھی آجاتی ہے. ہم جب خود کو حق پر سمجھ رہے ہوتے ہیں تو اس حق کو دوسروں پہ آشکار کرنے کو ہم ہر حد سے گزر جاتے ہیں. اس کے لیے جعلسازی، جھوٹے حوالے، توہین آمیز زبان سب کچھ روا سمجھا جاتا ہے. یہ سب بہت بار مجھے بھی بہت مایوس و دل شکستہ کر دیتا ہے، یقینا آپ کو بھی کرتا ہوگا.
اس تمام عمل میں ہم سب، میں اور آپ، مدارس کے طلبہ بھی اور غیرملکی تعلیمی اداروں کے زیرتعلیم بھی، دیوبندی بھی اور بریلوی بھی، مسلم بھی اور ملحد بھی، شیعہ بھی اور سنی بھی، خواتین بھی اور حضرات بھی .... ایک دوسرے کو بہتر طور پہ سمجھ بھی رہے ہیں اور ایک دوسرے کو پہلے سے زیادہ برداشت بھی کر رہے ہیں. دینی مدارس کے طلبہ سے بات ہو تو پتہ چلتا ہے کہ اب وہ اتنے بھی تنگ نظر نہیں جتنا انہیں سمجھا جاتا رہا ہے. یہی طلبہ جب مخلوط تعلیمی اداروں کے طلبہ و طالبات سے مکالمہ کرتے ہیں تو انہیں احساس ہوتا ہے کہ وہ اتنے بھی بے حیا نہیں جتنا وہ انہیں سمجھتے تھے. بےشمار ملحد ہیں جو آئے تو دین کو گالیاں دینے تھے مگر جنہیں دین کو بہتر سمجھنے کا اور توبہ کرنے کا موقع فیس بک پہ آ کر ملا. بے شمار مسلکی تعصبات کا شکار لوگوں کو یہاں آ کر احساس ہوا کہ شاید ہم بھی سو فی صد درست نہیں اور شاید مخالف فرقہ بھی سو فی صد غلط نہیں. یقین جانیے کہ یہاں بہت بڑے شر میں بہت بڑی خیر بھی پنہاں ہے. اس خیرِ کثیر سے سب کو مستفید ہونے کا موقع ملتا رہے، اس کے لیے ہم سب کو عہد کرنا ہوگا کہ ہم خود اپنے موقف کو کبھی جھوٹ، مبالغہ آرائی، طعن و تشنیع یا دشنام طرازی سے تقویت دینے کی کوشش نہیں کریں گے. کبھی کسی شخصیت، نظریے یا عقیدے کی توہین نہیں کریں گے، ہمیں تنقید کا حق حاصل ہے توہین کا نہیں. اگر کوئی دوسرا ایسی کوشش کرتا پایا گیا تو اسے نظرانداز کر دیں گے، اس کے سکرین شاٹس نہیں محفوظ کریں گے، پکار پکار کر لوگوں کو اس کی جانب متوجہ نہیں کریں گے، لوگوں کے مذہبی جذبات کو اشتعال دلانے کی کوشش نہیں کریں گے. جن سیاسی شخصیات سے ہمارا اختلاف ہے، ان پر مثبت تنقید ضرور کریں گے مگر ان کی تصاویر فوٹو شاپ کر کے، ان کے جھوٹے بیانات تخلیق کر کے، ان کے متعلق افواہیں پھیلا کر اپنی تعلیم و تربیت پر کسی کو شک کا موقع نہیں دیں گے. اگر دوسرے ہمارے لیڈر کے بارے میں ایسا کریں گے تو انہیں یہ سوچ کر نظرانداز کر دیں گے کہ انہیں ابھی مزید علمی، اخلاقی اور سیاسی تربیت کی ضرورت ہے.
ہمارے دوستوں یا جاننے والوں میں سے کوئی اگر اس قانون کی زد میں آتا ہے اور ہمیں لگتا ہے کہ متذکرہ معاملے میں اس کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے تو ہم اس کا بھرپور دفاع کریں گے. اس کے حق میں لکھیں گے، دوسروں کو اس کی حمایت پر آمادہ کریں گے، اگر ہمارے بس میں ہوا تو تفتیشی اداروں کے سامنے پیش ہو کر اس کا دفاع کریں گے، عدالت میں اس کے حق میں گواہی دیں گے. اگر کسی بلاگر، کسی سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، کسی عام صارف کو مذہبی و سیاسی منافرت کا نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ اس کی رائے انتہائی معقول اور مدلل تھی تو ہم اس کی رائے کو باوجود اختلاف کے اپنی رائے بنا لیں گے، اسے اپنے اپنے اکاؤنٹ سے شئیر کریں گے، اون کریں گے. یاد رکھیے کہ کسی ایک شخص پر جھوٹا الزام لگا کر اس پہ مقدمہ چلانا بہت آسان، لیکن دس ہزار لوگوں کے ساتھ ایسا کرنا بہت مشکل ہے.
ضرورت اس امر کی ہے کہ سوشل میڈیا پر فعال تمام طبقات، تنظیمیں اور نمایاں افراد چند بنیادی نکات پر اتفاق کر کے ان کی ترویج و اشاعت کی بھرپور کوشش کریں. آپس کی جنگیں چلتی رہیں گی لیکن انہیں آپس ہی میں رکھنا ہے. اس پر اگر سب متفق ہو جائیں تو اس قانون کی متنازعہ شقیں اپنے منفی مقاصد کے لیے استعمال کرنا کسی حکومت یا حکومتی ادارے کے لیے آسان نہیں رہے گا. انٹرنیٹ نے کروڑوں مختلف الخیال لوگوں کو ایک ہی لڑی میں پرو رکھا ہے اور یہی اس کا حسن ہے. جب تک ہم ایک لڑی بن کے رہیں گے، ریاست جتنے بھی خوفناک قوانین بناتی رہے، ہمارا اظہار رائے کا حق ہم سے نہیں چھین پائے گی. جہاں ہم نے اس قانون کا اپنے مخالف پہ استعمال ہوتا دیکھ کر تالیاں بجائیں، وہیں سے ہمارا اپنا کاؤنٹ ڈاؤن بھی شروع ہو جائے گا.

Comments

Click here to post a comment