اگر میں پاکستانی نہ ہوتا تو کسی کاروبار کرنے کی وجہ سے حیدر آباد دکن کے تاجروں کی طرح ہر چیز چھین کر مجھے زندہ جلا دیا جاتا، سیاست میں جاتا تو گجرات کے اقبال احسان ایم ایل اے کی طرح بیٹیوں سمیت برہنہ ذبح کر کے جلا دیا جاتا یا پھر کسی ٹی وی شو میں ایک گروہ آ کر مجھ پر پٹرول چھڑکتا اور آگ لگا دیتا. پاکستانی نہ ہوتا تو اپنے رب کی حلال کی گئی چیزوں کو جان کے خوف سے اپنے لیے حرام سمجھ لیتا. اگر کوئی عالم ہوتا تو مجبورا ہندوؤں کو اپنا بھائی بناتا اور میرے فتوے ہمیشہ مسلمانوں کے خلاف اور ہندوؤں کے حق میں ہوتے.
میں اگر پاکستانی نہ ہوتا تو کیا انسان بھی ہوتا؟ کیا چانکیہ سوچ مجھے ایک انسان کا درجہ دیتی؟ کیا مجھے سکون سے اپنے مذہب کے مطابق زندگی گزارنے دی جاتی؟ کیا میں اسلامی عقائد و فرائض ادا، اور اسلامی شعائر کا احترام کر سکتا؟ یا ہندوستان کے باقی مسلمانوں کی طرح مجھے بھی مجبورا سیکولر ہونے کا ناٹک کرنا پڑتا؟
میں پاکستانی ہوں، اس میں میرا کوئی کمال نہیں، میرے آباء کی قربانیاں ہیں، ان کی لازوال جدوجہد ہے جس کی وجہ سے آج میں پرسکون فضاؤں میں سانس لے رہا ہوں، جہاں مجھے ہندو سنگھٹنوں کا خوف نہیں. یہاں پہنچنے کےلیے میرے آبائو اجداد کو خون کا دریا عبور کرنا پڑا، ریاست پٹیالہ کی تحصیل سمانے سے لے کر لاہور تک ایک خونی سفر طے ہوا جس کی رواداد سن کر میں ہمیشہ کانپ اٹھتا ہوں. اپنے آباء کے لہو میں ڈوبی یہ داستان ہر اگست میں میرے دماغ پر چھا جاتی ہے اور مجھے یاد دلاتی ہے کہ بیٹا یہ پاکستان پلیٹ میں رکھ کر نہیں ملا تھا، اس کے لیے جوانوں کی جوانیاں، بہنوں کی عزتیں، بزرگوں کی بزرگیاں اور بچوں کی معصومیت لٹائی گئیں. سمانے کے زمیندار گھرانے در در خاک چاٹنے کو مجبور ہوئے، بڑی بڑی حویلیوں میں رہنے والوں نے کُٹیا میں رہنا سیکھا. یہ ہجرت نہیں خون کا سمندر تھا جس میں ڈوبے اپنے عزیز و اقارب آج بھی یاد آتے ہیں. ان قربانیوں کے طفیل میں چوتھے درجے کا نہیں، اول درجے کا شہری ہوں، پاکستانی ہونے کا تاج میرے سر پر سجا ہے. اور آج میں یعنی جدوجہد کرنے والوں کی تیسری نسل الحمداللہ فخر سے یہ بتا سکتا ہوں کہ
ہاں میں پاکستانی ہوں
اور اول درجے کا شہری ہوں
پاکستان نہ ہوتا تو کیا ہوتا؟ - عظمی عروج عباسی

تبصرہ لکھیے