ہوم << میں نے پاکستان بنتے دیکھا - محمد عتیق الرحمٰن

میں نے پاکستان بنتے دیکھا - محمد عتیق الرحمٰن

عتیق الرحمن قیام پاکستان بیسویں صدی کے بڑے واقعات میں سے ایک ہے۔ اس نے دنیا کو باور کروایا کہ اسلام کے متوالے اپنا علیحدہ تشخص برقرار کھنا چاہتے ہیں اور اس کی خاطر قربانیاں دینے کو بھی تیار ہیں۔ دوقومی نظریہ کی بنیاد پر بننے والے اس ملک کی انگریزوں، ہندوئوں اور سکھوں نے مخالفت کی۔ انہیں منظور ہی نہ تھا کہ مسلمان پھر سے برصغیر میں سراٹھاسکیں۔ ہندو انگریز کے بعد حکومت کے خواب دیکھ رہے تھے بلکہ اس کی تعبیر میں بھی سرگرداں تھے۔ مسلمانوں نے ان کے اس خواب کو دیکھتےاور ان کی چانکیہ سوچ کو سامنے رکھتے ہوئے علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا، سکھوں نے بھی کے ساتھ مل کر مخالفت کی بلکہ مسلمانوں پر مظالم توڑے لیکن قیام پاکستان کے بعد جب ہندو انتہاپسندی کی افتاد ان پر پڑی تو تاریخ نے ثابت کیا کہ مسلمانوں کا فیصلہ درست اور بروقت تھا۔
قیام پاکستان سے پہلے کی جدوجہد میں مسلمانان برصغیر کی لاتعداد قربانیاں ہیں جو اب تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں اور شاید ان پر گرد بھی پڑچکی ہے۔ قیام پاکستان کے وقت جو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ بیتی اور جو کچھ ان کے ساتھ ہندوئوں اور سکھوں نے کیا، آج بھی وہ مہاجرین یادکرتے ہیں تو ان کی راتوں کی نیندیں اُڑ جاتی ہیں۔ اپنے گھر سے پورا خاندان لے کر نکلنے والا مسلمان پاکستانی زمین پر خون کا دریا عبور کر کے اکیلا پہنچا تو اس پر کیا بیتی تھی، یہ بس وہی جانتاہے۔ یہ سب ہوا، مسلمانان برصغیر نے خون کا دریا عبور کیا اور پاکستانی سرزمین پر پہنچ کرثابت کیا کہ ہم اسلام کی خاطر ایک ایسے ملک میں جمع ہو رہے ہیں جو کل کو اسلامی دنیا کا سردار بن کر ابھر ے گا۔
بھارتی علاقوں سے کئی خاندان ہجرت کر کے پاکستان کو نکلے تھے جن میں سے کئی کو پاکستان نصیب ہوا، کئی کو شہادت نصیب ہوئی، کئی کو ہندوئوں اورسکھوں نے غلام بنالیا، کئی مسلمان مائوں بہنوں کی عصمتیں لوٹ لی گئیں، کچھ لٹی پٹی پاکستان پہنچ گئیں، کچھ نے عزت و ناموس بچانے کے لیے اپنے آپ کوختم کرلیا اور کچھ کو اب تک ہندوئوں اور سکھوں سے آزادی نصیب نہیں ہوسکی ہے۔ ایسا ہی ایک سفرنامہ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ صاحب کا ہے جسے انہو ں نے ’’میں نے پاکستان بنتے دیکھا‘‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں مرتب کیا ہے۔ یوم آزادی کے حوالے سے ان کے سفر نامے کا کچھ حصہ میں قارئین کے سامنے رکھ رہاہوں۔
پٹیالہ کے تاریخی مقام بٹھنڈہ کے محلہ کھٹیکاں میں یکم دسمبر 1940ء کو پیدا ہونے والے متین الرحمن کی عمر قیام پاکستان کے وقت سات سال تھی۔ ان کے والد میونسپلٹی میں سینٹری انسپکٹر تھے۔ محلہ کھٹیکاں میں چندگھر سکھوں کے، دوچار ہندوئوں کے اور باقی مسلمانوں کے تھے، اسی وجہ سے اس کو مسلمانوں کا محلہ سمجھا جاتا تھا۔ اگست 1947ء کا مہینہ گرم تو تھا لیکن گرمی کی شدت میں کمی آگئی تھی۔ بچوں کو عید کا بےصبری سے انتظار تھا لیکن اس بار عید کا موسم ذرا عجیب سا تھا، جیسے جیسے عید کا دن قریب آ رہاتھا گلی میں نعروں کا مقابلہ بڑھ رہاتھا۔ جے ہند، پاکستان زندہ باد، ست سری اکال اور اللہ اکبر جیسے نعرے متین الرحمٰن نے ان ہی دنوں سنے اور سیکھے۔ فسادت کے بعد قرب وجوار کے مسلمان بھی ان کے محلے میں آگئے۔ ان کے محلے کامحاصرہ کیا گیا جس کی وجہ سے انہیں محاصرہ توڑ کر قافلے کی صورت میں نکلنا پڑا۔ 47ء کی عید الفطر کے ڈیڑھ ہفتے بعد ایک رات دوسرے پہر فساد زدہ شہر کی غیرمحفوظ گلیوں سے ان کا قافلہ اسٹیشن تک پہنچا۔ قافلے کے شہری حدود سے نکلنے اور ویرانے میں پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی کسی حادثے یا واقعے کے سبب بھگڈر مچی اور قافلہ دوحصوں میں بٹ گیا۔ ایک میں والدین، تیسرے چھوٹے بھائی اور بہن اور دوسرے حصے میں متین الرحمن اور ان کا بھائی معین تھے جس نے قریبی گائوں کی جانب سفر شروع کر دیا۔ اب دوسرے قافلے کی کوئی ترتیب اور حفاظتی اقدامات نہ تھے۔ مردوں کی تعداد کم ہونے کے ساتھ ساتھ نہتی بھی تھی۔رات کی تاریکی بڑھ رہی تھی۔ غیر ہموار سا میدانی راستہ، جگہ جگہ جھاڑیاں کٹی ہوئی تھیں اور کٹے ہوئے سرکنڈوں کے گٹھے تھے۔ سرکنڈوں کے درمیان سے گزرنا دشوار تھا، ہاتھوں اور چہروں پر خراشیں آ رہی تھیں۔ اچانک ایک موٹر کی آواز سے قافلے میں پھر بھگڈر مچ گئی، لوگ افراتفری میں جھاڑیوں کے اندر کود کر چھپنے لگے۔ سلطان چاچا (محلے دار) نے لڑکوں (متین، معین اور چچا کا بیٹا امین اللہ) کو زمین پر لٹا کر سرکنڈوں کے گٹھے بکھیردیے۔ جب موٹر کی آواز غائب ہوئی، لڑکوں کو نکالاگیا تو سرکنڈوں کی چھال کی پھانسوں سے جسم کے کھلے حصوں پر خراشیں آچکی تھیں اور کہیں کہیں سے خون رس رہا تھا۔
سحر کے قریب کا واقعہ بیان کرتے ہوئے متین الرحمن لکھتے ہیں کہ اب ہمارا سفر نہر کے کنارے کسی سڑک پر ہو رہا تھا کہ اچانک پیچھے سے ایک دلدوز چیخ ابھری۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو چچی (محلےدار کی بیوی) چار پانچ سکھوں کے نرغے میں تھی۔ چچی نے نہر میں چھلانگ لگا دی تھی اور ایک سکھ بالوں سے پکڑ کر باہر کھینچ رہاتھا۔ چچا تیزی سے واپس بھاگے اور ایک سکھ کا گنڈاسہ چھین کر بالوں سے کھینچنے والے سکھ پر حملہ کردیا۔ باقی سکھوں نے چچا پر حملہ کر دیا۔ قافلے کے کچھ مرد چچا کی مدد کے لیے آگے بڑھے اور دوبدو لڑائی ہوئی، قافلے میں بھگڈر کی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ صبح کا اجالا پھیلنے پر قافلے کا سفر ازسرنو شروع ہوا لیکن اس میں مجھے چچا دکھائی دیے نہ چچی۔ سورج چڑھ آیا تو غالباََ وہ گائوں دکھائی دیا جو منزل تھی۔گائوں میں داخل ہونے والی گلی کے قریب پہنچے تو ’’جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘ والی کیفیت سے دوچارہوئے۔گلی سے ننگی پنڈلیوں تک پیلے رنگ کے چغوں میں ملبوس اکالی سکھوں کا جتھا برآمد ہوا جن کے ہاتھوں میں خون آلود تلواریں اور بگلوسوں میں ننگی کرپانیں لٹک رہی تھیں۔ کپڑوں اور ہاتھوں پر خون کے دھبے لیے وہ ست سری اکال اور دوسرے نعرے لگا رہے تھے۔ ڈرے سہمے بچے کھچے قافلے کو گھیرے میں لے کر گائوں سے کچھ دور ہٹایاگیا۔ اکالیوں میں ایک سکھ ڈھول پیٹ رہاتھا، کبھی کبھی سنکھ بجایا جاتا۔ قافلہ پریشان سا مضطرب سوچ رہاتھا کہ سکھ اب انتظار کس کا کر رہے ہیں۔ تھوڑی ہی دیر بعد گائوں سے دھواں اٹھنا شروع ہوا اور پھر اس سے شعلے لپکنے لگے۔ فضا میں ناگوار سی بو پھیلنا شروع ہوئی جو لاشوں کے جلنے کی بو تھی۔ پاکستان کی آزادی کی قیمت ادا کرنے والے ان گمنام جانثاروں کے خون اورگوشت کے بھننے کی بو جو محض مسلمان ہونے اور پاکستان کے تصور سے ہمدردی کے جرم میں جل رہے تھے۔ فضا دہشت ناک ترین اور مجنونانہ انداز میں پیٹے جانے والے ڈھول کی لرزہ خیز آواز، دھوئیں، آگ، جلتی لاشوں کی بو، برستی راکھ، بھوک سے بلکتے بچوں کی آوازیں اور اکالیوں کے نعروں سے معمور تھی۔ سنکھ کی کریہ آواز میں اضافہ ہوا اور ایک سکھ نے نوعمرماں کی گود میں شیرخوار بچے کے پیٹ میں تلوار کی نوک جھونکی اور بچے کو نوک شمشیر پر فضا میں بلند کر دیا۔ ننھی سی جان سے خون کا فوارہ ابلا، ممتا تلوار کی نوک پر لٹکے بچے کو چھیننے کے لیے جھپٹی تو دوسری تلوار نے اس کا سر تن سے جدا کر دیا۔ اس کے بعد خوفناک رقص شروع ہوا۔ ہرطرف تلواریں اور ان سے کٹتے ہوئے جسم دکھائی دے رہے تھے اور ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔
متین الرحمن مزید لکھتے ہیں کہ ہم دونوں بھائی دوسروں کے خون میں نہاچکے تھے لیکن مجھ میں ایک دو منٹ سے زیادہ اس کیفیت کو دیکھنے کی ہمت نہ تھی۔ مجھ پر کوئی گرا اور پھر مجھے کوئی ہوش نہ رہا۔ جب ہوش آیا تو ایک لاش کے نیچے میرا سر دبا ہوا تھا۔ بڑی مشکل سے اپنا سر اور ریت میں دبا ہوا اپناچہرہ نکالا، گرم ریت سے منہ، ناک اور آنکھوں میں اذیت ناک جلن ہو رہی تھی۔ طبیعت کچھ سنبھلی تو معین کی تلاش شروع کی جو کہ قریب ہی لاش کے نیچے نیم بےہوشی میں دبا ہواتھا۔ منظر دیکھا تو ہر طرف لاشیں ہی لاشیں تھیں، کچھ زخمی تھے لیکن چلنے پھرنے سے معذور اور بری طرح زخمی تھے۔ ہمیں دیکھ کر زخمیوں نے پانی مانگا۔ قریبی کھیت کو پانی دینے والا نالہ تھا جس میں قمیض ڈبوڈبو ان زخمیوں کے منہ میں نچوڑتے رہے۔ کئی زخمیوں نے پانی پی کر ہمارے سامنے آخری ہچکی لی۔ متین الرحمن لکھتے ہیں کہ ’’آخری ہچکی لے کر زندگی کا سفر ختم کر دینے کا غم انگیز منظر ذہن کو کیسا مائوف کر دینے والا ہوتا ہے ،اس تاثر کو میں آج تک فراموش نہیں کرسکا ۔‘‘ اس کے بعد متین الرحمن اور ان کے بھائی زندہ دفن ہونے سے بچے اور اک کھیت میں کچھ عرصہ اذیت ناک طریقے سے چھپ کرگذارا، سکھوں کے ہاتھوں زخم کھائے، پھر ایک سکھ کی پناہ میں آئے اور پھر اسی سکھ کے غلام بننے سے بچے اور آخر کار ٹرین کے ذریعے لاہور پہنچے جہاں انہیں انار کلی میں مشہور جوتوں کی دکان چاولہ بوٹ ہائوس کے مالک نیک دل شخصیت شیخ افتخار الدین نے اپنی تحویل میں لے لیا۔ جس کے کچھ عرصہ بعد یہ اپنے والدین سے مل گئے۔
یہ کہانی صرف ایک متین الرحمن کی نہیں بلکہ 1947ء میں جو پاکستان آئے ان سب کی ہے۔ میرے ایک دوست کی والدہ نے بتایا تھا کہ ان کا خاندان ہجرت کرکے جب پاکستان پہنچا تو 15 افراد کے خاندان میں سے صرف 2 لوگ زندہ تھے۔ قیام پاکستان کے وقت جو ظلم و ستم مسلمانوں پر ہوا آج بھی وہ لوگ محسوس کر کے آہیں بھرتے ہیں جن کے سامنے مائوں بہنوں کی عصمتوں کاجنازہ نکلا، مائوں کے سامنے بچوں کو انیوں پر پرویا گیا، بیویوں کے سامنے سہاگ کاٹے گئے اور بیٹوں کے سامنے باپ کا سرتن سے جدا کیا گیا۔ یہ سب کس لیے تھا؟ اتنی قربانیاں، آگ وخون کا دریا، زمین و جائیداد کی قربانی، اپنی جائے پیدائش کی قربانی کس لیے تھی؟ کیا یہ صرف ایک ملک کے لیے تھا؟ نہیں یہ قربانیاں اور عصمتوں کی قربانیاں دین اسلام کے لیے تھیں۔ 14 اگست 1947ء سے لے کر اگست2016ء تک کا سفر ماضی بن چکا لیکن پاکستانی قوم کو اپنے ماضی کو یاد رکھتے ہوئے اپنی آنے والی نسلوں کا مستقبل اسلام کے مطابق محفوظ اور روشن بنانا ہے۔
بھارت و کشمیر میں آج بھی مسلمانوں کا ہندوئوں نے جینا حرام کیا ہوا ہے۔ کشمیر میں عیدالفطر کے بعد سے لے کر اب تک مسلسل ظلم وستم ، پیلٹ گن کا استعمال اور مسلسل کرفیو سے قحط کی کیفیت پیدا ہو چکی ہے۔ کشمیریوں کو پیلٹ گن کے ذریعے ہمیشہ کے لیے اندھا بنایا جا رہا ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کی جا رہی ہے۔ آئے دن بھارت میں مسلمانوں پر ظلم وستم کی داستانیں رقم ہوتی ہیں۔ اقوام متحدہ، امریکہ، یورپ اور انسانی حقوق کے ادارے خاموش تماشائی ہیں۔پاکستان بن گیا اور ہم ہندو کے ظلم و جبر سے محفوظ ہوگئے تو کیا ہمارا فرض پورا ہوگیا؟ کشمیر و بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے زخموں کا مداوا کون کرے گا؟ جن کو آج بھی مسلمان اور پاکستان کے طعنے دیے جاتے ہیں۔ ان مسلمانوں کے دکھوں کا مداوا کرنا ہمارا مذہبی واخلاقی فرض ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے حقوق کی حفاظت کے لیے عالمی اداروں کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگست کے مہینے میں آئیے اس کے متعلق سوچیں اور کچھ عملی اقدامات کی طرف توجہ دیں۔

Comments

Click here to post a comment