ہوم << آزادی پاکستان کا سفر - میاں عتیق الرحمن

آزادی پاکستان کا سفر - میاں عتیق الرحمن

میاں عتیق الرحمن انگریز سرکار نے 1857ء تک سندھ ، دکن ، وسط ہند، دہلی اور تمام مشرقی علاقوں پر عملًا تسلط قائم کر لیا تھا، ان علاقوں کے مسلم نواب اور ہندو راجے سب انگریز کی بالادستی مجبوراً قبول کر چکے تھے۔ مگر یہ جبر وہاں کے عوام قبول کرنے پر آمادہ و تیار نہیں تھے۔ یہ بات انگریز بھی جانتے تھے کہ ہندوستان کے عوام پر بغیر اعلان کے حکمرانی کی جا سکتی ہے مگر اعلانیہ انگریز حکومت کے قیام کے اعلان کے ساتھ ہی اتنی بغاوتیں سر اٹھائیں گی کہ پھر ہندوستان میں ٹکنا مشکل ہو جائے گا۔ انگریز افسروں کی بڑھتی ڈھٹائیوں نے فوج کے مقامی سپاہیوں کو سب سے پہلے بغاوت پر مجبور کیا اور10 مئی 1857ء کو میرٹھ کی برطانوی چھائونی سے مقامی سپاہیوں کی بغاوت سے اس کا آغاز ہوا، ان فوجیوں میں اکثریت برہمن ہندئووں کی تھی۔ انہوں نے انگریز افسروں کو موت کے گھاٹ اْتارا اور ’’چلودلی‘‘ کے نعرے لگاتے دہلی روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو اپنا اور سارے ہندوستان کا شہنشاہ قرار دیدیا۔ اس اقدام پر مسلمان متزلزل اور شک میں مبتلاتھے۔ا پنے اندر بہت سی خرابیاں رائج ہونے کے باوجود اسلام پر عمل کرنے کو ترجیح دیتے اور اسی کی طرف رجوع کرتے تھے، علمائے کرام کو بڑا مقام حاصل تھا اور مستند علمائے کرام کا ایک فتوی پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو حرکت کے لیے کافی ہو جاتا تھا. حالات کا ادراک کرتے ہوئے شاہ اسماعیل شہیدؒکی جماعت مجاہدین سے وابستگی رکھنے والے مولانا فضل حق خیرآبادی اور علامہ نواب صدیق حسن خان قنوجیؒ کے استاد مفتی صدرالدین آزردہ دہلوی نے دہلی کی جامع مسجد میں مسلمان علماء کو یکجا کرکے انگریز کے خلاف فتوی جاری کر وایا جس نے پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو یکجا کر دیا۔ اس کی وجہ سے انگریز راج کو انتہائی خدشات لاحق ہو گئے، مگر انہوں نے کچھ ابن الوقتوں کو ساتھ ملا کر ظلم و ستم کی دردناک داستانیں رقم کرتے ہوئے دہلی کو تاراج کیا اور 1858ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی ختم کرکے تاج برطانیہ کے ماتحت کرنے کا فرمان جاری کر دیا۔ آنے والے چند ہی مہینوں میں بغاوت کرنے والے برہمنوں کے ہم مذہبوں نے انگریزوں کی ایسی وفاداری اختیار کی کہ وہ انہیں بھول کرصرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا شروع ہوگئے۔ مولانا فضل حق خیرآبادی کو فتوی دینے کی پاداش میں پھانسی دے دی گئی۔ اس کے بعد انگریز کامیابی سے ہندوستان پر قابض ہوگئے اور یہ قریب 90 سال تک جاری رہا.
انگریزوں کے خلاف سب سے پہلے آزادی کا اجتماعی شعور شاہ ولی اللہ دہلوی ؒ کے گھرانے میں پیدا ہوا۔ شاہ عبد العزیز ؒنے ہندوستان کو دارلحرب قرار دیا اور اسی فتوے نے بعد میں انگریز کے خلاف جنگ آزادی کی بنیاد رکھی تھی۔ جنگ آزادی میں اہم عملی کردار جماعت مجاہدین نے ادا کیا تھا اور اسے سید احمد اور شاہ اسماعیل شہیدین بالا کوٹ نے 1826ء سے شروع کیا تھا۔1831ء میں ان کی شہادت کے بعد مجاہدین کو دوبارہ صف بندی میں 4 سال کا عرصہ لگا، اس دوران شیخ ولی محمد پھلتی اور مولانا نصیر الدین منگلوری امیر جماعت رہے۔ پھر ان کے بعد مولانا نصیر الدین دہلوی 1840ء ، حاجی سید عبد الرحیم جون 1841ء، مولانا عنایت علی1846ء ، مولانا ولایت علی1852ء، پھر مولانا عنایت علی 1858ء، مولانا عبد اللہ بن ولایت علی1902ء، مولانا عبد الکریم1915ء، نعمت اللہ1921ء اور رحمت اللہ 1947ء تک امیر رہے۔ یوں1826ء سے جماعت مجاہدین کا یہ سلسلہ قیام پاکستان 1947ء پر منتج ہوا۔
1947ء میں پاکستان کے قیام میں کروڑوں لوگوں کی جہد مسلسل، لاکھوں لوگوں کی جانوں کے نذرانے، معذوری اور بے شمار لوگوں کا ٹپکتا خون کھپا ہے، جو گواہی دے رہا ہے کہ مسلمانوں کو پاکستان کے لیے اپنے خون کا دریا بنانا پڑا اور پھر اسے عبور بھی کرنا پڑا تھا۔ ایک بار تحریک پاکستان کے ایک جلسہ میں ہندو بلوائیوں نے طنزیہ نشتر چلایا کہ ’’پاکستان کا مطلب کیا‘‘ تو یہ نشتر مسلمانوں کی تحریک کے لیے روح رواں بن گیا۔ اس طنزیہ نشتر کا فورا جواب آیا کہ ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ بس یہ کہنا تھا کہ کہ کنفیوز قوم اور سیاستدانوں نے اپنی تحریک کو اس رخ پر موڑ دیا، رخ موڑنا تھا کہ قوم یکجا ہوگئی اور خواب حقیقت ہونے لگے۔ اس رخ کی مناسبت سے قوم نے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کا مستحق بنا لیا تو اللہ تعالیٰ نے بھی اپنی رحمتوں، عنایتوں اور برکتوں کا سمندر انڈیل دیا۔ رحمتوں اور برکتوں سے بھرپور مہینے اور مہینے کی سب سے با برکت رات کو یہ ملک عطا کر دیا گیا۔ یوں پاکستان27 رمضان المبارک 1366ھ بمطابق 14 اگست 1947ء کو تہجد سے ذرا پہلے معرض وجود میں آیا۔
27 ویں رمضان المبارک کی رات لاہور، پشاور اور ڈھاکہ کے ریڈیو سٹیشنوں سے 11بجے آل انڈیا ریڈیو سروس نے اپنا آخری پروگرام نشر کیا اور رات بارہ بجے سے کچھ پہلے پاکستان کی شناختی دھن لگائی گئی۔ پھر لاہور سے جناب ظہور آذر کی آواز میں انگریزی زبان میں اعلان کیا گیا کہ آدھی رات کے وقت آزاد اور خود مختار پاکستان وجود میں آ جائے گا۔ پھر پورے بارہ بجے پہلے انگریزی میں اور پھراردو میں کہا گیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس ہے۔ انگریزی میں ظہور آذر اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے اعلان کیا۔ مولاناقاری ازہر القاسمی نے قرآن پاک کی سورۃ فتح کی تلاوت کی پھر ترجمہ نشر ہوا۔ بعد میں خواجہ خورشید انور کا مرتب کردہ ایک سازینہ بجایا گیا۔ پھر سنتو خان اور ان کے ساتھیوں نے علامہ اقبال کی نظم ساقی نامہ کے کچھ اشعار پیش کیے اور ٹرانسمیشن کا اختتام شاعر حفیظ ہوشیارپوری کی تقریر پر ہوا۔ پشاور ریڈیو سے بھی آدھی رات کے وقت آفتاب احمد بسمل نے اردو میں اور عبداللہ جان مغموم نے پشتو میں پاکستان کے قیام کا اعلان کیا اور قرآن مجید کی تلاوت کا شرف قاری فدا محمد کے حصے میں آیا جبکہ نشریات کا اختتام جناب احمد ندیم قاسمی کے اس نغمے پر ہوا کہ ’’پاکستان بنانے والوں کو پاکستان مبارک ہو‘‘. ڈھاکہ ریڈیو سٹیشن سے بھی اسی طرح کا اعلان انگریزی میں جناب کلیم نے کیا اور بنگالی زبان میں اس کا ترجمہ بھی نشر کیا گیا۔ اگلی صبح کراچی میں علامہ شبیر احمد عثمانی اور ڈھاکہ میں مولانا ظفر احمد عثمانی نے پاکستان کا قومی پرچم لہرایا۔
پاکستان میں جھنڈا لہرائے جانے کے بعد فرانس کے شہر مائیسن (Miosson) میں لہرایا گیا۔ وہاں9 سے17 اگست تک کے لیے چھٹی انٹرنیشنل اسکائوٹ میٹنگ جاری تھی، برصغیر سے بھی اس میں شرکت کے لیے سکائوٹ دستہ گیا ہوا تھا۔ پاکستان کے قیام کے اعلان کے بعد رات کو دو فرانسیسی گرل گائیڈ نے پاکستانی پرچم کی سلائی کی اور صبح لہرا دیا۔ پرچم کے لیے ہرے رنگ کا کپڑا شملہ کے ایک ہندو سکائوٹ مدن موہن نے اپنی پگڑی سے اور سفید رنگ ملتان کے ایک سکائوٹ عباس علی گردیزی نے اپنی قمیص پھاڑ کر فراہم کیا تھا۔ پاکستان کا پہلا ترانہ جو ملک سے باہر گایا گیا تھا‘ وہ میجر سید ضمیر جعفری کا لکھا ہوا تھا اس کا عنوان ’’خیرمقدم‘‘ تھا جس کے بول کچھ اس طرح تھے:
جو ستارے کھو چکے تھے اپنی کرنیں اپنی ضَو
وہ ستارے ضو فگن انجم فشاں ہونے لگے
ایشیا خوش ہو کہ اے مظلوم انسانوں کی خاک
تیرے فرزندوں کے پرچم پْرفشاں ہونے لگے
اس ترانے کی دھن کیپٹن مسعود احمد ماشو نے ترتیب دی تھی جو اْن دنوں سنگاپور میں اخبار ’’جوان‘‘ کے ایڈیٹر تھے۔
قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے دہلی، لندن، واشنگٹن، کابل، قاہرہ اور رنگون (برما) میں سفارتخانے قائم کیے گئے۔ دہلی میں زاہد حسین، لندن میں حبیب ابراہیم رحمت اللہ، رنگون (برما) میں سردار اورنگزیب خان کو ہائی کمشنر اور واشنگٹن میں ایم اے اصفہانی اور کابل میں آئی آئی چندریگر کو سفیر مقرر کیا گیا۔ یہ لوگ زیادہ تر بیوپاری تھے، ان میں ایک دو سیاستدان بھی تھے۔ سب سے اہم کام پاکستان کو اسلامی ممالک میں متعارف کرانا تھا، ان ممالک میں آہستہ آہستہ سفارتخانے کھولے گئے۔ دبئی میں قیام پاکستان کے وقت ہندوستانی کرنسی چلتی تھی۔ شاید اسی لیے وہاں اکثر لوگ آج بھی درہم کو روپیہ کہتے ہیں اور زیادہ تر انڈیا کے لوگ بطور ورکرکام کر رہے ہیں۔ 1965ء کی جنگ کے بعد وہاں لوگوں میں معروف ہوا کہ پاکستان اور ہندوستان الگ الگ اور ایک دوسرے کے دشمن ملک ہیں۔ قاہرہ اور ایران میں تو شروع میں کوئی سفیر مقرر نہیں کیا جا سکا تھا۔ کچھ عرصہ بعد عبدالستار سیٹھ کو قاہرہ میں اور راجا غضنفر علی خان کو ایران میں سفیر بنا کر بھیجا گیا۔ مالی وسائل کی کمی کی وجہ سے سفارتخانوں کے لیے مناسب جگہیں بھی میسر نہ تھیں۔ امریکا میں پاکستانی سفارتخانہ ایک ہوٹل کے کمروں میں تھا۔ دہلی میں صرف 3 افراد پر مشتمل عملہ او صرف ایک ٹائپ رائٹر تھا اور کوئی گاڑی بھی نہیں تھی۔ یہی حال باقی ممالک میں سفارتخانوں کا تھا۔
قیام پاکستان کے بعد ہمارے پاس کوئلہ تھا نہ لوہا، بینک تھا نہ انشورنس کمپنیاں، فوجی ہیڈکوارٹرز اور نہ ہی انتظامی ہیڈکوارٹرز۔ تقسیم برصغیر کے چند روز پہلے کراچی میں کام شروع ہوا تھا۔ پرانی بیرکوں میں بیٹھ کر ملازمین کام کرتے تھے۔ فائلوں کے ساتھ جو سرکاری ملازمین بذریعہ ٹرین سوار ہو کر براستہ راجپوتانہ کراچی جاتے، ان میں سے اکثر کے سر کٹے ہوئے اور فائلیں خون آلود ہوتیں۔ پاکستان کے حصے کے جو 75 کروڑ روپے تھے وہ بھی بھارتی حکومت نے دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ایسے میں بہاولپور، حیدرآباد دکن، کراچی، احمد آباد، بمبئی، مدراس اور وہاڑی کے مسلمان سیٹھوں، نوابوں اور زمینداروں نے تقریباً 70 کروڑ روپے اکٹھے کرکے پاکستان کو دیے۔ جب بھارت نے قیام پاکستان کے فورا بعد یہ دیکھ لیا کہ پاکستان ہمارا محتاج نہیں رہا تو گاندھی جی کو خیال گزرا کہ اس موقع پر مکاری سے کام چلایا جائے تو انھوں نے پاکستان کو رقم نہ دینے پر حکومت کو مرن برت رکھنے کی دھمکی دے ڈالیجو صرف دھمکی تک ہی محدود رہی۔
پاکستان کے حصے میں آنے والی مسلمان فوج کا ایک بریگیڈ بھی ان علاقوں میں نہیں تھا جن علاقوں میں پاکستان بننا تھا۔ جو چند یونٹ ان علاقوں میں تھے، ان کی ذمہ داریاں بہت زیادہ تھیں۔ یونٹوں میں افراد کی تعداد بھی پوری نہ تھی۔ 3جون 1947ء کو اعلان پاکستان کے ساتھ ہی مسلمان یونٹوں سے ہندو، سکھ اور گورکھوں نے مختلف حیلوں بہانوں سے بھارت جانا شروع کر دیا تھا۔ بعض بھارتی فوجی یونٹ جو موجودہ خیبرپختونخوا میں تھے، انہیں بحفاظت بھارت پہنچانا بھی پاکستانی افواج کے ذمے تھا۔ عام شہریوں کی پاکستان سے بھارت روانگی اور حفاظت بھی افواج پاکستان کے کندھوں پر تھی۔
بھارت میں مہاراجہ پٹیالہ کی قیادت میں سکھ پنجاب میں از سر نو اپنی حکومت بنانے کی کوشش کرنے لگے اور ہندو پاکستان پر قبضہ کے خواب دیکھنے لگے تھے۔ ہندووں نے سکھوں کو استعمال کرکے مسلمانوں کو قتل کرنے والی غنڈہ تحریکیں چلوا دیں۔ ذاتی غنڈے رکھ کر راشٹریہ سیوگ سنگھ اور اکالی دل منظم کی گئی۔ مندروں اور گورودواروں کو ہر قسم کے جدید اسلحے، بم، گرینیڈ، رائفلوں، تلواروں، بھالوں اور کلہاڑیوں سے بھر دیا گیا تھا۔ نوجوان سکھوں اور 70 ہزار سابق سکھ فوجی رضاکاروں کو مسلح کرکے مسلمانوں پر چھوڑا گیا۔ مشرقی پنجاب میں ماسٹر تارا سنگھ اور گیانی کرتار سنگھ نے مسلمانوں کو مارنے کی ذمہ داری سنبھالی ہوئی تھی۔ 18اگست 1947ء کو مسلمانوں نے عیدالفطر کی نماز کھلے میدانوں میں پڑھی تو سکھ ان پر ٹوٹ پڑے۔ امن و امان قائم رکھنے کے سلسلے میں جو مشترکہ طور پر پنجاب بائونڈری فورس تشکیل دی گئی تھی، سکھ ریاستیں ان کے دائرہ اختیار سے باہر تھیں اور وہی سکھ ریاستیں سکھ جوانوں اور رضاکاروں کے مسلح جتھے بھیج رہی تھیں۔ پہلے سے تیار سازش کے تحت پولیس سے اسلحہ جمع کر لیا گیا تھا کیونکہ پولیس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ مسلمان لڑکیوں ، عورتوں اور بچیوں کو امرتسر سے واہگہ تک لانے والی بسوں کا ڈرائیور سکھوں کو بنایا جاتا تھا جو سکھ بلوائیوں سے ملے ہوئے ہوتے تھے۔ وہ طے شدہ پروگرام کے مطابق ان گاڑیوں کو اس جگہ پر آ کر روک دیتے تھے جہاں سکھ جتھے انتظار میں ہوتے تھے، پھر وہ بچوں اور عمر رسیدہ خواتین کو قتل کر دیتے اور نوجوان لڑکیوں کو اٹھا کر لے جاتے. قیام پاکستان کے لیے ہماری مائوں اور بہنوں کی کتنی عصمتیں لٹیں اور کتنے ہی کنویں ناموس کی حفاظت کے لیے دوشیزائوں کی لاشوں سے بھرے پڑے ملے، ان کا شمار کرنا ممکن نہیں ہے۔ کشیدہ حالات میں یہ خبریں بھی گردش کر رہی تھیں کہ شاید قائداعظم بھی کراچی پہنچنے سے پہلے قتل کر دیے جائیں۔
قیام پاکستان کے وقت پاکستان کے حصے میں آنے والی فوج کو 13میجر جرنلز، 40 بریگیڈیئرز، 53 کرنلز کی ضرورت تھی جبکہ صرف ایک میجر جنرل، 2 بریگیڈیئر 6 کرنل دیے گئے تھے۔ میجر اور کپتانوں میں بھی 1950شارٹ سروس یا ایمرجنسی کمشن آفیسر تھے۔ اسی وجہ سے حکومت برطانیہ کی مدد سے رضاکار برطانوی افسروں میں سے 355 افسر چنے گئے تھے۔
سب سے بڑا مسئلہ لاکھوں مہاجرین کی آباد کاری کا تھا جنہیں بھارتی علاقوں سے بحفاظت نکال کر پاکستان لانا اور پاکستان سے جو ہندو سکھ جا رہے تھے انہیں بھارت پہنچانا تھا۔ پھر موجودہ خیبرپختونخوا یعنی پاکستان کی مغربی سرحد پر نگاہ رکھنا اور سب سے اہم بات پاکستان کے نام پر وجود میں آنے والی دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کی متعین کردہ سرحدوں کی حفاظت کرنا انتہائی مشکل مسئلہ تھا مگر افواج پاکستان نے کمال ہمت اور جرات سے ہر قسم کی ذمہ داری نبھائی۔ امرتسر اور واہگہ کے درمیان مہاجرین کے پیدل قافلوں کی حفاظت کے لیے کافی عرصے سے 5/13فرنٹیئر فورس رائفلز کی دو کمپنیوں کے جوان مسلسل ڈیوٹی کی وجہ سے انتہائی تھک کر بیمار ہوگئے تھے مگر پھر بھی وہ اپنی ڈیوٹی ادا کرنے میں تامل نہیں کر رہے تھے۔ اور حکومت کی طرف سے ملنے والے اپنے راشن کو بڑی فراخ دلی سے مہاجرین میں بانٹ دیتے تھے۔ مہاجرین بھی ہیضہ، ملیریا جیسے امراض کا شکار ہو چکے تھے۔ جو جس جگہ پر جس انداز اور اختیارات کے ساتھ تھا وہ اپنے آپ کو قربان کرنے کے لیے تیار بیٹھا تھا۔
پاکستان آزاد ہوا تو کوئی سندھی تھا نہ کوئی پنجابی اور نہ ہی کوئی بلوچ اور پٹھان، سب مسلمان تھے اور ایک اللہ کو ماننے والے اور اسی کے پیروکار تھے۔ 1940ء کو منٹو پارک لاہور کی قرارداد اسی کا ترجمان تھی اور مقاصد کے تعین میں اسلامی مملکت کا قیام اہم تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے ان اہم اور تاریخی لمحات میں ڈھائی گھنٹے تقریر کی، اور اس تقریر میں انھوں نے فرمایا کہ مسلمان کسی بھی تعریف کی رو سے ایک الگ قوم ہیں اور ہندو اور مسلمان دو مختلف مذہبی فلسفوں اورسماجی عادات سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ لوگ نہ تو اآپس میں شادی کر سکتے ہیں اور نہ ہی یہ لوگ اکٹھے کھانا کھا سکتے ہیں اور یقیناً یہ لوگ مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے ہیں جو بنیادی طور پر مختلف خیالات اور تصورات پر محیط ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس قرارداد کی حمایت کرتے ہوئے بیگم مولانا محمد علی جوہر نے سب سے پہلے قرارداد پاکستان کا لفظ استعمال کیا اور ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی آل انڈیا مسلم لیگ نے 1941ء سے 23 مارچ کے دن ہندوستان بھر میں یوم پاکستان منانا شروع کر دیا تھا اگرچہ قرارداد میں اس وقت تک پاکستان کا لفظ شامل نہیں ہوا تھا۔ لفظ پاکستان کے خالق چوہدری رحمت علی تھے۔ 1943ء میں قائداعظم نے اپنی ایک تقریر میں قرارداد لاہور کے لیے پاکستان کا لفظ قبول کرتے ہوئے اسے قرارداد پاکستان قرار دیا اور قائداعظم اور مسلم لیگ کے ارکان اسمبلی کے کنونشن 1946ء نے بہتر اور واضح شکل دی۔ اس قرارداد میں جو مطالبہ پیش کیا گیا تھا، اس کی بنیاد پر مسلم لیگ نے 1946ء کے انتخابات میں بھرپور کامیابی حاصل کی اور 14 اگست 1947ء میں پاکستان کا قیام عمل میں آیا۔
کلمے کی بنیاد پر لاکھوں مسلمانوں نے جس مملکت کے لیے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے، اس کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اسلام کے لیے نہیں بلکہ سیکولر یا لبرل ازم کے لیے بنائی گئی تھی تو اس سے بڑی بد دیانتی اور ہٹ دھرمی کیا ہو سکتی ہے؟ لاکھوں لوگوں اور آزادی کے شہیدوں کی روحوں کو دکھ پہنچانے اور ان کی قربانیوں کو ضائع کرنے اور قائداعظم کی فراست اور ان کے رفقاء کی محنت اور تحریک کو قولاً اور فعلا فضول اور لغو کہنے کے سوا اس دعوے سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر بنا اور یہاں تمام مسائل کا حل اسلام کا نفاذ ہی ہے۔ اگر اسلامی نظام نافذ نہیں کیا جائے گا تو ہماری ناکامی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ اللہ تعالیٰ ایسے عناصر کو ہدایت اور سمجھ نصیب فرمائے۔

Comments

Click here to post a comment