جب سے معلوم ہوا تھا کہ آقا ﷺ کے ہاں سے بلاوا آیا ہے، اذن باریابی عنایت ہوا ہے، شب و روز اسی ادھیڑ بن میں گزرے کہ آقا ﷺ کے ہاں حاضری ہوگی تو کیا پیش کرنا ہے؟ کیا مانگنا ہے؟ اپنے حق میں کیا سفاش کروانی ہے؟ اب جب آپ ﷺ کی بستی میں آئے پورا دن گزر چکا تھا. حاضری کی خواہش تھی کہ باربار سر اٹھاتی، قدم اٹھتے مگر ذرا سا فاصلہ طے ہوتے ہی دل خوف سے لرز اٹھتا کہ کس منہ سے سامنا ہوگا؟ کیا اعمال ایسے ہیں؟ زندگی کے توشے میں ایسا کیا ہے جو آپ ﷺ کے حضور پیش کیا جائے گا؟ بڑھتے قدم رکتے اور پھر واپس پلٹ جاتے۔ رب کے حضور ہاتھ اٹھتے کہ اے میرے مالک! میری تو ہمت نہیں، تو ہی کوئی راستہ بنا دے۔ وہ دربار ایسا کہ پکارو تو جواب ملتا ہے، مانگو تو قبول ہوتا ہے۔ گروپ کی خواتین پریشانی کے عالم میں آپہنچیں کہ روضہ رسول ﷺ پر حاضری کیسے دینی ہے؟ کہ اکثریت پہلی بار آئی تھی، راستے کا علم تھا نہ طریق کار اور وقت کا۔ ہمت ہوئی کہ انفرادی نہ سہی اجتماعی حاضری شاید قبول ہو جائے، کسی کے دامن میں کچھ ایسا ہو کہ سب پر نظر کرم ہو جائے۔
آقاﷺ کے دربار پہنچے، دروازہ کھلنے کے منتظر تھے، ایک طرف سب کو حاضری کے آداب بتائے کہ کیسے پیش ہونا ہے؟ اگر بعض خوتین فرط محبت اور پہلے حاضری کے شوق میں بھاگیں کہ اپنا حال اپنا عالم ہے، مگر ہم سب نے ادب کے ساتھ جانا ہے کہ وہاں حاضری کا وقت سب کو ملتا ہے، تحمل کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھنی اور پڑھوانی ہے کہ رش کی وجہ سے کوئی کسی کی نماز یا سجدے میں مخل نہ ہو، ایک طرف ان کو سمجھایا جا رہا تھا اور دوسری جانب دل تھا کہ خوف سے ہلکان ہوئے جاتا تھا کہ حاضری ہونے کو ہے، خالی ہاتھ خالی دامن۔
دروازہ کھل چکا تھا۔ سب ہاتھ تھامے اندر داخل ہوئے، ہر ایک کی خواہش کہ روضہ ہے سامنے جاکر سلام پیش کیا جائے مگر قدموں نے اندر جاتے ہی جیسے اٹھنے سے انکار کردیا۔ ریاض الجنۃ میں پھر یہی سوال سامنے آ کھڑا ہوا کہ کیا اعمال ایسے ہیں کہ پیش ہوا جائے؟ ندامت اور آنسوئوں کی روانی نے وہیں جیسے جما دیا۔ وہیں کونے میں نفل کی نیت اور سجدے میں سر رکھ دیا. خواتین آرہی ہیں، جگہ ساری بھرنے کو ہے، ساتھ آنے والی دیکھتی ہیں کہ پیچھے کیوں؟ جالیوں کی جانب کیوں نہیں جاتی؟ کیا بتائوں کہ آگے جانے والوں جیسے اعمال ہی نہیں جھولی میں تو کیسے جائوں؟ کم مائیگی کا احساس پیچھے رکھے ہوئے ہے۔ آگے جانے والے تو اور ہی ہوتے ہیں۔ پیارا رب ہی ہے جو یہاں تک پھر ایک بار لے آیا، مجھ گناہگار پر بڑا کرم کیا، اور وہ اپنےگناہگار بندوں سے کیسے محبت کرتا کیسے ان کی سنتا ہے، میرے سوا کون ہے جو جانے؟
نگاہیں اب بھی سوال کر رہی ہیں، اشارہ کیا کہ یہ بائیں ہاتھ پر ہے روضہ رسول ﷺ، سلام پیش کیجیے۔ ایک ستون نے جیسے چھپنے کی جگہ دے دی ہو، آنسو اور سسکیاں ہیں اور بس ٹوٹے پھوٹے لفظ۔ زباں ہے کہ یا رسوال اللہ سے آگے کچھ کہنے کی جرات نہیں کر پا رہی، لوگ روضے کی جالیوں کو جی بھر کے دیکھ رہے ہیں اور ان پر رشک آرہا ہے، کیسے خوش نصیب تھے کہ دیکھے جاتے تھے، نگاہیں مچلتی رہیں کہ جالیوں کو اس قدر نزدیک سے دیکھیں، دیکھنے کو مگر حوصلہ چاہیے۔ اک لمحے کو نگاہیں اٹھنے کی کوشش کرتیں تو جیسے آنحضور ﷺ سامنے ہوں، پھر سے وجود سمیت زمین میں گڑ جاتیں اور سسکیوں میں شدت آجاتی۔
نگاہیں زمین میں گاڑے ستون کے پیچھے چھپے نجانے کتنے ہی لمحے گزر چکے تھے، عاشقوں کا ہجوم ہے، آ رہا ہے جا رہا ہے۔ کسی کی محبت ہے تو کسی کو عشق ہے، اور محبوب ﷺ سب کا بس وہی ایک ہے، وہی جو رب کا بھی محبوب ہے، طلب میں ہر آنکھ اشک بار ہے، سب کو معلوم ہے، جو یہاں سمیٹ لیا، روز محشر وہی کام آنا ہے۔
دل ہے کہ مچل مچل رہا ہے
خواہش بس یہی کہ کیسے ان لمحات کو کہیں قید کرلیا جائے
وقت سے کہہ دیا جائے کہ اب نہ چلنا بس
اب ٹھہر جا کہ تمنا پالی میں نے
اے فرشتہ اجل!
سانسیں روک لے میری
اب بس کہ کچھ اور کی تمنا نہیں
یہاں ساتھ چھوڑ دیں تو گلہ نہیں
قبر کی مٹی کو یہ ہوائیں چھوا کریں
کانوں میں مرنے کے بعد بھی
یہاں کی آوازیں گونجا کریں
اے فرشتہ اجل ۔۔۔۔!!
تبصرہ لکھیے