ایک معمولی سا صحافی ہوں. شاید تھوڑا بے ایمان اور تھوڑا جھوٹا۔ آپ لفافہ صحافی بھی بلا سکتے ہیں. کسی بھی شرم سے عاری صحافی کو زیب تو نہیں دیتا کہ وہ یہ سوال کرے کہ کوئٹہ کے سول اسپتال میں دھماکا کیوں ہوا؟ اگر خودکش تھا تو حملہ آور عین اس وقت اندر کیسے آیا جب ایک وکیل رہنما کی لاش لانے والے وکلا کوگیٹ سے باہر ہی سیکورٹی رسک کی وجہ سے روکا گیا؟ اسپتال کی حفاظت پر مامور سیکورٹی کہاں تھی؟ جب وکیل رہنما کی لاش لائی جا رہی تھی تو ظاہر ہے اسپتال کے شعبہ حادثات میں کم از کم ایمرجنسی تو ہونی چاہیے تھی؟ پھر میڈیا کے ذریعے سنا کہ بم تو پلانٹڈ تھا پھر سوال ذہن میں آیا کہ جب بم پہلے سے رکھا گیاتھا تو پھٹنے تک کسی کو کانوں کان خبر کیسے نہیں ہوئی؟ حد تو یہ کہ قریبی سی سی ٹی وی خراب نکلا۔ میں چونکہ کوئٹہ ہی کا رہائشی ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ شہر کے اندر جوق در جوق بنی ایف سی کی چوکیوں سے آپ کوئی چاقو تک نہیں گزار سکتے۔ شکل سے شریف لگتے ہوں تو بھی ڈیوٹی پر مامور اہلکار تھوڑی سی تذلیل کر دیتے ہیں۔ 14 اگست کےحوالے سے شہر میں سیکورٹی ہائی الرٹ تھی، دو دن پہلے ہی تو چالیس مشکوک افراد پکڑے گئے تھے. ابھی رمضان کے دو دنوں میں 8 سیکورٹی اہلکار ماے گئے تھے. ان سب واقعات کے باوجود سیکورٹی اتنی ناقص کیوں نکلی؟ ظاہر ہے میں یہ سوال سیکورٹی اداروں سے نہیں کر سکتا۔ اس سے ملکی سالمیت کو خطرہ ہو سکتا ہے، اہلکاروں اور افسران کا مورال کم ہو سکتا ہے، ایسے سوالات پوچھنے پر شر پسند بھی قرار دیا جا سکتا ہوں اور ملکی مفاد کے خلاف بولنے کا ٹیگ بھی لگ سکتا ہے چنانچہ ملک کے وسیع تر مفاد میں میرا چپ رہنا اچھا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ بےساکھیوں سے چلنے والی صوبائی حکومت سے پوچھا جائے، مگر وہاں تو وزیراعلیٰ ثنااللہ زہری نے دھماکے کی نوعیت جانے بغیر یہ بیان داغ دیا کہ اس حملے میں را ملوث ہے۔ تو؟؟ چلیں مان لیا کہ را ملوث ہے کہ ان کا بنیادی کام ہی پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دینا ہے مگر یہ بتائیے کہ آپ کی حکومت نے را کے نیٹ ورک کو توڑنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے؟ کیا آپ کی حکومت کی ناکامی نہیں کہ ایک غیرملکی ایجنسی آکر آپ کے شہریوں کے چیتھڑے اڑا دیتی ہے مگر سیاست کو نوابی اور سرداری سمجھنے والے سیاست دان شہریوں کی مسخ شدہ لاشوں پر کھڑے ہو کر بےتکی باتیں کرتے ہیں۔
فلاسفرز اور مدبرین سے سنتے ہیں کہ ہماری عوام عجیب ہے کہ خود فوجیوں کو حکومت پر قبضہ کرنے کی دعوت دیتی ہے. شہری فوجیوں کو اقتدار سنبھالنے کی دعوت کیوں نہ
دیں جب عید پہ ملک میں کوئی سیاسی رہنما نہیں ہوتا تو آپ کا فوجی سربراہ کبھی ملکی مہاجرین کے ساتھ عید کرتا ہے تو کبھی فوجی اہلکاروں کے ساتھ۔ کوئٹہ دھماکے کے بعد بھی سب سے پہلے پہنچنے والے یہی آرمی چیف ہی تو تھے۔ وزیراعظم تو شاید اس وقت سری پائے کی دعوت اڑانے میں مصروف تھے۔ دھماکے میں ایسے کئی لوگ شہید ہوئے جنہیں میں ذاتی طور پر جانتا تھا، سوچا کہ زندگی چھینے جانےکے بعد کم از کم ہمارے غم خوار عوامی رہنما تو دل شکستہ شہریوں کے درمیان آئیں گے اور دلاسہ دیں گے مگر میں نے اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ طیب اردوان بننے کا خواب دیکھنے والا عمران خان دھماکے کے ایک گھنٹے بعد تک مریم نواز کے خلاف ٹویٹ کرنے میں لگا رہا، جبکہ ترکی کا اردوان زندگی کو خطرہ ہونے کے باوجود استنبول آتا ہے اور شہیدوں کے جنازوں کو کندھا دیتا ہے۔ سوچا کہ پشتونوں کے حقوق کے ٹھیکیدار اور لر اور بر جیسےکرنے والے محمود خان اچکزئی تو متاثرہ شہریوں کے پاس ضرور آئیں گے کہ وہی ہمارا مینڈیٹ لے کر اسمبلی کی آرام دہ کرسی پر جلوہ افروز ہے۔ کسی نے بتایا کہ ان کامذمتی بیان آ گیا ہے مگر شہریوں کو بیان کی نہیں اپنے رہنما کی ضرورت تھی۔ مگر پھر مجھ جیسے موٹے دماغ رکھنے والے صحافی کو قوم پرستوں نے سمجھایا کہ لیڈر ہی سب کچھ ہوتا ہے، حقوق کے حصول میں شہریوں کی جان آتی جاتی ہے مگر لیڈر کو زندہ رہنا چاہیے، اسی لیے اسمبلی میں مشر، کشر اچکزئی لمیٹڈ کی جو لائن لگی ہے، اس کا تقاضا ہے کہ وہ پر آسائش گھروں میں دبکے رہیں۔ مذہبی جماعتوں کا بھی کوئی اچھا تاثر نہیں رہا۔
سانحہ کوئٹہ کا زخم کچھ دنوں تک بھر جائے گا، پھر دوسرے بڑے حملوں کی طرح اس کی بھی فائل بند ہو جائے گی اور معمول کی زندگی رواں ہو گی. پھر کوئی سانحہ ہوگا، پھر گھسے پٹے مذمتی بیانات، دہشت گردوں کے خلاف آپریشن میں تیزی اور شہیدوں کے ورثا کو ذلیل کرنے کے بعد امدادی چیکس۔ جگہ اور کردار بدلتے رہیں گے مگر ڈرامہ جاری رہے گا ۔
امام اعظم کاکڑ۔۔۔ایک اچھی کوشش ہے آپ کی،،اسے جاری رکھیں،،
بلوچستان کے دکهی عوام کے جذبات کا آئینہ ہے، Content میں ردهم رکهیں.