ہوم << زندگی کا سبق - فرح رضوان

زندگی کا سبق - فرح رضوان

لچھے والا پھیری لگاتا ، تو محلے کے بے شمار بچے اس کے اردگرد جمع ہو جاتے، جن کو نہ بھی لینا ہو وہ لچھے والے کے ہنر سے محظوظ ہونے کے لیے وہاں ٹکے رہتے کہ کس طرح وہ چھوٹے سے مٹھائی کے ٹکڑے کو کھینچ کر جتنا لمبا کرنا چاہتا کرتا ،گھما کر، موڑ کر، دبا کر جو چاہتا شکل دے کر سب سے داد وصول کرتا. اسی طرح ہر خاندان میں کچھ افراد ایسے ہوتے ہیں جن سے رشتہ دور کا ہو یا قریب کا لیکن مل کر بہت مزہ آتا ہے. آپ مہینوں اپنے رشتہ داروں کے گھر نہ جا سکیں کوئی مسئلہ نہیں، فون نہ کر سکیں کوئی بات نہیں کیونکہ ان سے آپ کو سب کی خیر خیریت مل جائے گی.
ایسی ہی ایک شاہدہ آنٹی بھی تھیں. لیکن ! کچھ عرصے سے ان سے بات کرکے محسوس ہونے لگا کہ گویا دنیا اچانک سے پرسکون ہو گئی تھی اور اس میں بسنے والے لوگ عزت کے قابل. اس تبدیلی کی بظاہر کوئی وجہ دکھائی نہ دی تو شازیہ نےخود ہی ان سے اس کا سبب پوچھ ڈالا اور جواب میں انتہائی انوکھی بات سننے کو ملی، انہوں نے بتایا کہ ’’بیٹا !تمہارے انکل کو حکیم صاحب نے دیسی انڈے کھانے کے لیے کہا ہے، آج کل عام تو ہیں نہیں ان کا ملنا لیکن کسی کا پتہ چلا تھا تو میرا بیٹا وہاں سے لے آتا ہے، لیکن عجیب بات ہے کہ کتنی ہی احتیاط کر لے مگر وہ کبھی سارے انڈے سالم نہیں لا پاتا، شروع میں تو درجن بھر میں سے چھ بھی بمشکل سلامت نکلتے، اور جو ثابت ہوتے وہ ساتھ والے ٹوٹے ہوئے انڈوں کی وجہ سے عجیب ناقابل بیان حالت میں ہوتے جنہیں لازمی دھونا پڑتا، سمجھ نہیں آتا تھا کہ وہ انڈے اٹھاتے ہوئے غلطی کرتا ہے، رکھتے ہوئے یا راستے میں لاتے ہوئے، میں بارہا بیٹے کو سمجھاتی اس پر برستی اور سالم انڈوں پر سے ٹوٹے انڈوں کا ملبہ دھونے کی وجہ سے جتنی دیر میرے ہاتھوں سے بو آتی رہتی میں خوب بڑبڑاتی رہتی.یہاں تک کہ ایک روز میں خود ہی جاکر لے آئی.‘‘
اتنا کہہ کر آنٹی خاموش ہو گئیں، شازیہ نے ہنستے ہوئے پوچھا، اور آپ نے سارے ہی توڑ ڈالے ؟ وہ پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولیں، نہیں مجھ سے تو ایک انڈہ بھی نہیں ٹوٹا اور اس بات کو میں پورا دن جتاتی رہی، کہ احتیاط کیسے کرتے ہیں. اگلے دن چھٹی تھی، ہم سب ہی کچن میں موجود تھے اور میں جلدی جلدی سب کو ناشتہ بنا کر دے رہی تھی، امی کے لیے آملیٹ بنانے کے لیے انڈہ توڑا .... تو وہ گندہ نکلا ..... اور تم یقین نہیں کروگی بیٹا کہ اس میں کس قدر بھیانک بدبو تھی، اتنی کریہہ بو کہ اگلے چند لمحوں میں ہم سب کا وہاں ٹھہرنا، یہاں تک کہ سانس تک لینا دشوار ہوگیا. ہم سب کے سب بڑی بڑی ابکائیاں لیتے ہوئے وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے. لیکن ظاہر ہے کہ اس کو وہاں سے تلف کرنا ہی تھا اور مجھے ہی کرنا تھا، سو میں ہمت کر کے واپس کچن میں گئی تاکہ جس پیالے میں انڈہ توڑا تھا اسے اٹھا کر باہر لے جاؤں لیکن چند سیکنڈ میں اس بو سے اعصاب شل ہوتے دکھائی دیے تو پلٹ کر واپس آئی اور پھر ناک اور منہ پر خوب موٹا سا ڈھاٹا باندھ کر اس پیالے کو اٹھایا اور سیدھے اپنے چھوٹے سے باغیچے کا رخ کیا، لیکن یقین کرو کہ وہ تمام پرندے جو چاول کے چند دانے اور روٹی کے ذرا سے ٹکڑے ڈالتے ہی نہ صرف جمع ہوجاتے بلکہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں سب کے سب اس کی بو سے دور جا جا کر بیٹھ گۓ، بو اتنی شدید تھی کہ پھر مجھے فوری طور پر ننھا سا گڑھا کھود کر اس انڈے کو دفنانا پڑا.
دو دن گزر گئے لیکن گھر کے تمام افراد کا حال یہ تھا کہ ان کے ذہن میں وہ بو بس گئی تھی. شازیہ نے ان کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا کہ آنٹی جب ان کا یہ حال تھا تو آ پ کا کیا حال ہوا ہوگا؟ وہ کہنے لگیں کہ حال تو تم سمجھ ہی سکتی ہو، ساتھ ہی دو لفظ میری چڑ بن گئے تھے، ایک انڈہ اور دوسرا بدبو، اور سب نے مل کر میرا خوب ریکارڈ لگایا کہ جن انڈوں کے صحیح سالم لانے پر میں خود پر اتنا فخر اور باقی سب کو نصیحت کیے جارہی تھی وہ stink bomb ثابت ہوا. وہ کچھ دیر کو رکیں پھر جب بات شروع کی تو اچانک ہی ان کی آواز بھرّا گئی اور آنکھیں نم ہو گئیں. بولیں کہ اتفاق کی بات کہہ لو... یا میرے رب کی مجھ ناچیز کے لیے پلاننگ، کچھ ہی روز قبل میری دوست مینو کے سسر کا انتقال ہوا تھا، نئی جاب کی وجہ سے وہ اس بات کی متحمل نہیں ہوسکتی تھی کہ لوگ اپنی سہولت کے حساب سے بار بار ان کے گھر تعزیت کے لیے آتے رہیں، تو اس نے اپنے گھر ایک درس رکھ کر تمام لوگوں کو اس میں مدعو کر لیا. میں اس روز کسی وجہ سے بہت ہی لیٹ ہوگئی، جب پہنچی تو سب خاموشی اور انہماک سے درس سن رہے تھے، میں نے جہاں سے سننا شروع کیا ان الفاظ نے ڈائریکٹ میرے دماغ کو سٹرائیک کیا اور جو وہیں سے رستہ بناتے سیدھے میرے دل میں اتر گۓ، درس دینے والی خاتون کہہ رہی تھیں کہ
’’انسان جب مرتا ہے تو پہلے اس کی روح کی حاضری اللہ تعالیٰ کے دربار میں ہوتی ہے، فرشتے روح کو لیکر آسمانوں کی جانب سفر کرتے ہیں تو جو نیک روح ہوتی ہے اس کی خوشبو کی وجہ سے اسے وہاں موجود دوسرے فرشتے بھی ویلکم کرتے ہیں، خدا کی بارگاہ میں اس کی بڑی پزیرائی ہوتی ہے، اور واپسی پر قبر میں ایک کھڑکی جنت کی جانب کھول دی جاتی ہے، جبکہ ایسا شخص جوگھمنڈی ہو، مغرور ہو، تعصبی ہو، بداخلاق بد کردار ہو، تقویٰ کبھی چھو کر نہ گزرا ہو اس کی زندگی میں، نام مسلمان کا ہو لیکن کام شیطان کے کرتا ہو تو ایسے شخص کی روح جب فرشتے لے کر جا رہے ہوتے ہیں تو اس تمام راستے پر موجود دیگر فرشتے اس کی بو کی وجہ سے اس سے شدید کراہیت و نفرت کا اظہار کرتے ہیں، ذلت اس کا مقدر ٹہرتی ہے، اسے زمین پر دے مارا جاتا ہے اور اس کی قبر میں ایک کھڑکی دوزخ کی طرف کھول دی جاتی ہے.‘‘
اس کے بعد شازیہ کو سنائی نہیں دیا کہ وہ کیا بتاتی رہیں کیونکہ اس کا ذہن catch word ’شدید بدبو‘ پر اٹک کر اسی کے گرد گھومنا شروع ہو گیا تھا. کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ گویا ہوئیں.
’’کیا شان ہے میرے رب کی کہ لہسن پیاز جیسی بو پھیلانے والی سبزیوں پر لگا باریک سا چھلکا ان کی بو کو ہر سو پھیلنے سے روکے رکھتا ہے، اور وہ انڈا جو میں نے گھر لانے کے دوسرے دن توڑا تھا، وہ محض ایک دن پہلے تو ہرگز خراب نہ ہوا ہوگا لیکن ایک باریک سے چھلکے کی وجہ سے وہ کتنا اجلا اور ستھرا اور بھلا دکھائی دے رہا تھا، کیا ستّاری ہے میرے کریم پروردگار کی کہ وہ ہمارے بھی تمام عیبوں پر پردہ ڈالے رکھتا ہے، اور ہمارا حال وہی ہوتا ہے جو میرا تھا کہ بظاہر صحیح سالم انڈے لانے پر میں کتنا اترا رہی تھی، فخر جتا رہی تھی، مطمئن تھی، ایسے ہی تو ہم اپنے نیک اعمال پر مطمئن رہتے ہیں جبکہ وہ قبول ہوئے یا نہیں ہم نہیں جانتے، درست ادا ہوئے یا نہیں ہم نہیں جانتے، کسی کی غیبت کرنے، اس کا حق مارنے، اپنے نفس اپنی زبان کے شر کی وجہ سے ہمارے اکائونٹ میں رہے یا نہیں ہم نہیں جانتے. نیکیاں دکھاوے کے لیے کیں تو رائیگاں، اپنی نعمتوں، رزق یا نیکیوں پر تکبر کیا تو سراسر بربادی کا سودا کیا جبکہ دوسری جانب جن کی ذرا ذرا سی غلطیوں کو ہم گناہ کبیرہ بنا ڈالتے ہیں، وہ اگر اپنی کوتاہیوں پر سچی توبہ کر لیتے ہوں تو ان کا مقام نہ جانے کیا ہوتا ہوگا.
[pullquote] فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَآءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَآءُ ۗ وَٱللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ.....‘‘
[/pullquote] آنٹی بے تکان بولے جارہیں تھیں اور شازیہ سوچ رہی تھی کہ کبھی کبھی کسی، درسگاہ، کتاب یا کسی استاد سے ہم وہ سبق نہیں سیکھ پاتے جو زندگی کے چھوٹے چھوٹے اتفاقات اور حادثات و واقعات ہمیں سکھا دیتے ہیں، بس غور کرنے کی عادت، تدبر کرنے والا رویہ اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے باقی ذرائع اور اسباب تو اللہ تعالیٰ ہی مہیا فرماتا ہے، نیکی کرنے اور گناہ سے بچنے کی تمام توفیق بھی اسی کے کرم سے ہے.