ترکی میں 15 جولائی کو ہونے والی ناکام بغاوت کے بعد اس کی اندرونی اور خارجہ سیاست میں انقلاب دیکھنے میں آیا ہے۔ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی گذشتہ دو حکومتوں کے ساتھ امریکہ اور یورپی یونین کے تعلقات کے تناظر میں دیکھا جائے تو ناکام فوجی بغاوت کے بعد طیب اردوغان کا اپنے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے روس کا انتخاب اس تبدیلی کی واضح علامت ہے۔ اس تبدیلی کو مغربی رہنما کافی پریشانی سے دیکھ رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کے حوالے سے یورپی یونین اور ترکی کا معاہدہ مشکلات کا شکار ہے اور امریکہ پر خود ساختہ جلا وطنی اپنائے ہوئے مبلغ فتح اللہ گولن کی حوالگی کے لیے دباؤ ہے۔ ترکی کا الزام ہے کہ وہ فوجی بغاوت کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن منگل کا یہ دورہ مغرب کی جانب سے بحران کے دوران ناکافی حمایت اور روس کی جانب سے فوری حمایت کے ردِ عمل میں کیا جانے والا جلد باز فیصلہ نہیں ہے۔ اس کی تاریخ قدرے پرانی ہے۔ چند سال قبل احمد داؤد اوغلو نے جو اس وقت وزیرِ خارجہ تھے اور بعدازاں وزیرِ اعظم بنے انھوں نے یہ نعرہ بلند کیا تھا کہ ’ہمسائیوں کے ساتھ کوئی مسائل نہیں ہوں گے۔‘ ترکی نے عرب سپرنگ کے بعد تبدیلیوں کی پالیسی اپنائی تھی۔ گذشتہ سال کے اواخر تک ترک قیادت کے تمام ہمسائیوں اور پارٹنرز کے ساتھ مسائل پیدا ہو چکے تھے اور اس کے دوستوں کا حلقہ سکڑتا جا رہا تھا اور اس کی وجہ شام میں جاری کشیدگی اور عراق کے لیے ترک پالیسی کی ناکامی تھی۔
چونکہ شام میں ترکی کے سکیورٹی مفادات اور سرحد کے دونوں طرف کرد عسکریت پسندوں سے تعلقات زبوں حالی کا شکار تھے اس لیے انقرہ کے لیے یہ سٹریٹیجک ضرورت بن گیا تھا کہ وہ حقیقت کے سامنے گھٹنے ٹیکتے ہوئے باوقار طریقے سے پیچھے ہٹ جائے۔
یہ بات ترکی کی روس کے لیے پالیسی پر بھی لاگو ہوتی ہے۔ دونوں کے تعلقات اقتصادی آزادی کی بنیاد پر قائم کیے گئے۔ ترکی کو روس سے پٹرولیم مصنوعات، جوہری توانائی اور ٹیکنالوجی جیسی چیزیں درکار تھیں۔ اس میں روسی مارکیٹوں تک رسائی اور روسی سیاحوں کی آمد بھی شامل تھی۔ جواباً روس کو ترکی کی توانائی کی مارکیٹ اور توانائی کی سپلائی کے لیے اس کی سرزمین چاہیے تھی۔ اس کے علاوہ بحیرۂ قلزم کے علاقے میں سلامتی دونوں کی مشترکہ دلچسپی کا امر تھا۔ اس بات میں کوئی اچنبھا نہیں تھا جب مئی کے وسط میں ترکی نے اپنی پالیسی میں تبدیلی کے اشارے دیے۔ داؤد اوغلو کے جانے کے بعد بن علی یلدرم وزیرِ اعظم بن کر آئے تو اعلان کیا کہ ’اب وقت آ گیا ہے کہ ترکی کے دشمنوں کی تعداد کم کی جائے اور دوستوں کی تعداد بڑھائی جائے۔‘ یہ بات روس اور اسرائیل کے لیے واضح اشارہ تھی۔ طیب اردوغان کی جانب سے معذرت کو اگرچہ پوتن کی ٹیم نے سیاسی طور پر کافی قرار دیا تھا تاہم روسی وزیرِ خارجہ سرگے لاوروف نے اصرار کیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کی بحالی صرف شام میں جاری بحران کی دلدل سے نکلنے میں تعاون پر منحصر ہے۔
اردوغان ایک وسیع ایجنڈا اور بڑا وفد لے لر سینٹ پیٹرزبرگ گئے ہیں۔ توقع ہے کہ دونوں ممالک گیس لائن منصوبے، جوہری بجلی گھر کی تعمیر اور توانائی کے دیگر ذرائع کے حوالے سے بات کریں گے۔ دونوں ممالک کے مابین سیاحت، اشیاء خورد و نوش اور تعمیرات کی بحالی پر بھی بات کی جائے گی۔ خیال ہے کہ شام کے حوالےسے بھی کچھ معاملات واضح کیے جائیں گے۔ لیکن ناکام فوجی بغاوت کے ہفتوں بعد ہی کیے جانے والے اس علامتی دورے کی اہمیت سے وہ لوگ قطعی غافل نہیں ہیں جو امریکہ اور یورپی یونین میں موجود ترکی پالیسی میں مستقل تبدیلی کے اشارے تلاش کر رہے ہیں۔ آخر کار ترکی ایک اہم نیٹو طاقت ہے اور 15 جولائی کو ہونے والے واقعات کے بعد یہ مزید حساس صورتحال کا شکار ہے اور مغرب کو طیب اردوغان کے سخت گیر رویے سے شکایت بھی ہے۔
شاید طیب اردوغان اور صدر پوتن خوش ہیں کہ فی الوقت مغرب کو حیرت زدہ رہنے دیا جائے اور اس کے پسینے چھوٹتے رہیں۔
(بشکریہ بی بی سی)
تبصرہ لکھیے