اب کے کوئٹہ لہولہان ہو گیا ہے۔ کوئٹہ پاکستان ہی نہیں، وہ زیادہ پاکستان ہے۔ جسم کا جو حصہ زیادہ زخم خوردہ ہو، اسے زیادہ اہمیت حاصل ہو جاتی ہے۔ ابھی ابھی میں نے انگوٹھے کے ناخن کے زخم کی اذیت سے شفا پائی ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ ادھر کوئی بچہ میری جانب لپکتا، ادھر میں پاؤں سمیٹ لیتا۔ لپکتا کیا کوئی ہلتا بھی تو میرا لاشعور از خود میرے پاؤں کو محتاط اور متحرک کر دیتا۔ کوئٹہ ہو یا کے پی کے اور سندھ، کسی وجہ سے وہ پنجاب کے بارے میں اسی شعوری اور لاشعوری احتیاط میں ہیں۔ یہ سٹریٹیجک اعتبار اور سیاسی حیثیت سے بھی زیادہ حساس صوبے ہیں۔ کچھ دشمن نے اور کچھ نادان سیاسی دوستوں نے یہاں کے زخموں کی دانستہ مسیحائی کی کوشش نہیں کی۔ دشمن کا تو خیر سے دشمنی کا میدان اور ہماری اذیت کا مقام ہی یہ صوبے ہوگئے، مگر نادان دوستوں نے بھی وقتی سیاسی مفاد کے لیے انھیں گردن دبوچنے کا پریشر پوائنٹ سمجھ کے ہر آن برتا ہے۔ یہ چیزیں معروف اور معلوم ہیں۔ میں صرف اپنے درد کی شدت کے اظہار کے لیے دہرا رہا ہوں۔ میں بتانا چاہتا ہوں کہ میرے جسدِ وطن کے نسبتا اس حساس حصے پر چوٹ لگنے سے میرے دل، میرے دماغ اور میرے دورانِ خون پر کچھ زیادہ ہی اثر ہوا ہے۔گو میں کوئٹہ ابھی تک نہیں گیا، وہاں لہو میں ڈوبنے والوں میں کوئی میرا شناسا بھی نہ تھا مگر یہ جو پاکستان پر، انسان پر اور میرے ہم ایمان پر وارہوا ہے تو میرا جگر ہی کٹ اور میرا بدن ہی بٹ گیا ہے۔ میرا درد اس لیے بھی سوا ہے کہ یہ کہاں اور کس سنگدلی سے وار کیا گیا۔زخم پر نمک چھڑکنے کا محاورہ ماند ہوگیا، یہ انسانی شکار کے ہانکے کی بدترین مثال ہے۔ پہلے بارود کی بوچھاڑ سے زخمیوں کا ہانکا کیا گیا اور پھر شفاخانے میں پڑے زخمیوں کے زخموں پر خود کش بارود چھڑکا گیا۔ ابھی ابھی دلیل پر برادرم آصف محمود کا نوحہ اور اس سے پہلے ڈاکٹر عاصم اللہ بخش کا تجزیہ پڑھا ہے۔ میں برادرِ اکبر آصف محمود کے الم اور جناب عاصم اللہ بخش کی دانش، ہر دو پر صاد اور ہر دو کی تائید کرتا ہوں۔ ان کی ہاں میں ہاں اور ان کے درد میں اپنا درد ملاتاہوں۔
زیادہ نہیں، مجھے یہاں بس زخم دل کی نمائش اور بلوچ بھائیوں کے لیے اپنے حرفِ دعا کے ساتھ ساتھ بس ایک دو باتیں عرض ہی کرنی ہیں۔ مکرم عامر خاکوانی صاحب کے الفاظ میں ایک تو یہ بات دہرانی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ دراز دورانیے کی ایک خونی اننگز ہے۔ سو اللہ نہ کرے، ممکن ہے ابھی ہمیں کچھ اور بھی جھیلنا پڑے، گو ہم کم پہلے بھی نہیں جھیل رہے۔ محض دھماکوں کے بعد چیتھڑے ہو کے بکھر چکی لاشیں اٹھانے کی صورت میں ہی نہیں، اپنی زندگی کے رنگ محدود کرلینے اور اپنے تحفظ کی ردا کو تنگ کر لینے کی صورت میں بھی۔ امن کے گلے پر آئے خوف کے ہاتھ اور اس کے نتیجے میں معیشت کی اکھڑتی سانس کے نتیجے میں بھی۔ آج بچوں کا سکول میں چھٹیوں کے بعد پہلا دن تھا۔ میں انھیں سکول چھوڑنے گیا تو وہاں سکول کو مڑتی سڑک کے بالکل آغا زمیں لوہے کے ایک بیرئیر کا مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ سکول کے سامنے پہلا بیرئیر تب لگا تھا جب آرمی پبلک سکول کے در و دیوار ہمارے مستقبل کے خون سے نہا گئے تھے۔ در و دیوار تک آ نے والے اس معصوم خون کے یہ چھینٹے ان کی پاک اور پوتر وردیوں سے چھن کے آئے تھے۔ تو حقیقت یہ ہے کہ ہم دہشت گردی کے خلاف اس جنگ کی قیمت انسانی قیاسی حدود سے کہیں زیادہ ادا کرچکے ہیں اور ابھی ہمیں مقتل سے چھٹی نہیں ملی۔
ڈاکٹر عاصم اللہ بخش صاحب کے کالم کے بعد میں مجھے اتنا ہی عرض کرنا ہے کہ ہم یہ جنگ ادھورے ہتھیاروں سے لڑ رہے ہیں۔ میں سعودی عرب کی مثال دینا چاہوں گا۔ آپ کو معلوم ہے پوری دنیاکی طرح بالعموم اور اسلامی دنیا کی طرح بالخصوص سعودیہ بھی دہشت گردی کی زد پر ہے۔ جس طرح پاکستان اپنی ایٹمی، عسکری اور جغرافیائی حیثیت سے عالمی نقشے میں اہمیت رکھتا ہے بعینہ مسلمانوں کا روحانی و جسمانی قبلہ ہونے کی وجہ سے سعودیہ بھی کھٹکتاہے دل یزداں میں کانٹے کی طرح۔ ان کا طریقہ مگر ہم سے کچھ مختلف تھا۔ انھوں نے انٹیلی جینس اور ملٹری سول اداروں کے ساتھ ساتھ جس ادارے کو سب سے زیادہ متحرک کیا، ہم نے اسی کو فراموش کر رکھا ہے ۔یہ ادارہ ہے دینی سر چشمے اور علماء۔ سعودی حکومت نے ہر سکول میں دہشت گردی کے خلاف بیداری شعور کے لیے ورکشاپس کا انعقاد کیا۔ انھوں نے ارہاب کے نام سے اپنے سکولوں میں ایک مضمون تک شاملِ نصاب کر دیا ہے۔ جہاں تک میری معلومات ہیں ایک پوری یونیورسٹی اس پر کام کر رہی ہے۔ کم ازکم آئمہ حرمین کے خطبات میں ہر جمعے ضرور دیکھتاہوں۔ ہر خطبے میں کسی نہ کسی حوالے سے وہ اپنے اداروں کی قربانیوں کا بالالتزام تذکرہ کرتے ہیں، خواہ محض دعا ہی کی صورت کریں۔ دہشت گردی کے خلاف آئمہ حرمین کے خطبات اکٹھے کیے جائیں تو شاید ایک کتاب بن جائے۔ بالخصوص امام کعبہ شیخ السدیس کے ابوالکلامی، زورِ بیان اور زورِ زباں کے حامل شاہکار خطبات۔ ان خطبات کے براہ راست مخاطب وہاں نوجوان ہوتے ہیں۔ وضاحت اور دلیل سے وہ اس موضوع پر بات کرتے ہیں۔ یہ اس جنگ کے خلاف سعودی عرب کا گویا فرنٹ لائن کا محاذ ہے۔ ا س طرح سے یہ محاذ ذہن کو مخاطب کرتا ہے اور ان کی فورس کی گنیں دشمنوں کے جسموں سے خطاب کرتی ہیں۔
ہمارے ہاں اس مذہبی محرک اور فورس کو استعمال کرنے کی ضرورت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ اس جنگ کے پیچھے دشمن جو بھی ہے، اس کے پاس ہمارے خلاف ایک قوی دلیل خود مذہب ہی ہے۔ خواہ اس کی شکل شدت پسندی کی ہو یا تکفیر کی۔ اس سے آگاہ ہونے کے باوجود ہم اپنے علماء سے ابھی پوری طرح اس سلسلے میں تعاون نہیں مانگ سکے۔ ہم ان کو اس جنگ میں ان کی شمولیت اور اہمیت بھی نہیں بتاپائے۔ یہ کام بھی حکومت کے کرنے کا ہے۔ ہم سے ایک اور غلطی بھی ہوئی، علماء کی بھرپور عدم شرکت کے خلاف ہماری انتہا نے انھیں شامل و شریک کرنے کے بجائے نظری فریق بنا دیا۔ اس کا فائدہ دشمن کو پہنچا۔ نیکٹا کی غیرفعالی کی طرح میں اس کا ذمے دار بھی حکومت اور مجاز اتھارٹیوں کو سمجھتاہوں۔ ہمارے ہاں دہشت گردی کے خلاف پچھلی پکڑ دھکڑ اور نوعیت کی تھی جیسے جسم کے فاسد حصے کا علاج کیاجائے مگر درست حصے کی طاقت کو استعمال کیے بغیر۔ معاشرے اور اس جنگ کا اہم ترین ستون، یہ طبقہ علماء ہم نے اس جنگ میں کتنا شریک کیا ہے، اس کا اندازہ آپ عبدالستار ایدھی یا قندیل بلوچ کے قتل جیسے مواقع پر آنے والے تبصروں سے کر سکتے ہیں۔ ہمیں اب احساس کر لینا چاہیے کہ علما کی نظری اور فکری طاقت ہماری قوت کا ناقابل اندازہ ذخیرہ ہے۔ آئیے ہر سطح پر، سب کے ساتھ ہم علما کو بھی یہ بتائیں کہ ہمارا اب جو بھی سٹیٹس ہے، وہ وطنِ عزیز پاکستان ہی کے ساتھ ہے۔ اللہ نے اس دھرتی کو ہمارے نام اور کام کا وسیلہ بنایا ہے۔ سو لازم ہے کہ اس پاک سرزمیں کی طرف بڑھتے گھناؤنے ہاتھوں کے خلاف ہم سبھی طبقے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ دیں۔ مجھے لگتاہے کہ پاکستان کو اس دلدل سے نکلنے کے لیے بس اب آخری جرات اور جھٹکے کی ضرورت ہے۔ تجارتی راہداری، کشمیر کی بیداری اور ہماری، جیسی بھی ہے، سیاسی ہمواری کے تناظر میں یہ مگر بڑا کڑا لمحہ بھی ہے۔ یہ آخری امتحان کا وقت ہے ۔ آئیے ہم اپنے عمل سے پوچھیں، کیا ہمیں اس کا واقعی ادراک ہے؟ اور کیا ہم اس احساس کے استقبال کے لیے واقعی تیار ہیں؟
تبصرہ لکھیے