ہوم << انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق - محمد اشفاق

انٹر ڈسٹرکٹ سرکولر ریلوے پراجیکٹ، خیبرپختونخوا کے عوام سے ایک ظالمانہ مذاق - محمد اشفاق

محمد اشفاق خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھیجی گئی 3 اگست کی رپورٹ کے مطابق کے پی کے حکومت نے پشاور، نوشہرہ، چارسدہ اور مردان کے درمیان 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی سرکولر ٹرین پراجیکٹ کے لیے چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی کے ساتھ 1.6 ارب ڈالر مالیت کی مفاہمت کی ایک یادداشت پہ دستخط کیے ہیں. مزید تفصیلات بھی پریس ریلیز میں موجود ہیں مگر ٹھہریے ذرا یہیں رک جائیے.
کس کمپنی کے ساتھ، چائنا کمیونیکیشن کنسٹرکشن کمپنی یعنی CCCC کے ساتھ. برسبیلِ تذکرہ یہ وہی کمپنی ہے جسے ورلڈ بنک 2009ء میں فلپائن کے روڈز کنسٹرکشن کے ایک میگا پراجیکٹ میں (جسے ورلڈبنک فنانس کر رہا تھا) بےایمانی اور بدعنوانی کے الزامات کے تحت ڈی بار کر چکا ہے. اب 2017ء تک یہ کمپنی ورلڈبنک کے فنانس کیے گئے کسی پراجیکٹ میں شریک نہیں ہوسکتی. چائنیز حکومت کی کوششوں سے 2011ء میں اس فیصلے کا دوبارہ سے جائزہ لے کر بھی ورلڈبنک نے اسے درست قرار دیا.
اب جناب عمران خان صاحب اور ان کی ٹیم سے پہلا سوال یہ ہے کہ 1.6 ارب ڈالر کا میگا پراجیکٹ سائن کرنے سے پہلے کیا انھوں نے کمپنی کی ساکھ اور عمومی شہرت کے بارے میں ذرا سی تحقیق کی زحمت بھی نہیں کی؟ جو معلومات اس عاجز کو پانچ منٹ گوگل سرچ کر کے مل گئیں، وہ ان کی لائق فائق انتظامیہ کو کیوں نہ مل سکیں؟
اب کچھ اور آگے بڑھیے، پریس ریلیز میں مہیا کردہ اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کی فیزیبلٹی رپورٹ، مجوزہ روٹ اور دیگر تکنیکی معاملات پہ اب یہ کمپنی کام شروع کرے گی. پراجیکٹ کی فنانسنگ کا باقاعدہ معاہدہ اس کے بعد ہوگا.
دوسرا سوال یہ ہے کہ حضورِ والا جب فزیبلٹی رپورٹ بنی ہے نہ روٹ طے ہوا ہے تو تخمینہ لاگت کیسے نکل آیا؟ آپ نے پوچھا کہ ٹرین چلانی ہے، خرچہ کتنا ہوگا؟ انہوں نے کہا جناب وہی جو اورنج لائن پہ پنجاب کا ہو رہا ہے؟ اب یہاں لامحالہ اورنج لائن میٹرو کا ذکر ہوگا، تو عرض کرتا چلوں کہ اس کی فزیبلٹی جانے کب کی بن چکی تھی بلکہ پراجیکٹ کے آغاز سے دو سال قبل دوبارہ کروائی گئی تھی. اس لیے اس کی لاگت کا تخمینہ کرنا بہت آسان تھا، جبکہ یہاں محض تھُوک میں پکوڑے تلنے پہ اکتفا کیا گیا ہے.
ہمیں مژدہ یہ سنایا گیا ہے کہ اس سے چاروں مذکورہ بالا اضلاع کے شہریوں کو سفر کی بہتر سہولیات فراہم ہوں گی بلکہ اس کو صوابی تک بڑھانے کا آپشن بھی موجود ہے، نیز اسی کے تحت پشاور تا اسلام آباد بھی ایک تیزرفتار سروس چلائی جائے گی.
تیسرا سوال یہاں یہ بنتا ہے کہ پشاور تا اسلام آباد موجودہ ٹریکس پہ تو ٹرین کی زیادہ سے زیادہ رفتار پچاسی سے ایک سو پانچ کلومیٹر ہوتی ہے، نیز وہ ٹریک پاکستان ریلوے کی ملکیت ہے جو آپ کے اس منصوبے میں شریک ہی نہیں، تو اب آپ کیا پشاور تا اسلام آباد 220 کلومیٹر کی رفتار سے ٹرین چلانے کے لیے نیا ٹریک بچھائیں گے؟ لگ بھگ ڈیڑھ سو کلومیٹر پہ لگ بھگ چالیس فٹ چوڑائی کے حساب سے دو کروڑ سکوائر فٹ سے زیادہ اراضی درکار ہوگی، اس کی قیمت کا تخمینہ قارئین خود لگاتے رہیں.
اب معاملہ یہ ہے کہ آپ پشاور صدر سے بائسیکل پہ سوار ہو کر نوشہرہ کو نکلیں تو بھی ایک گھنٹے میں اپنی منزل پہ پہنچ سکتے ہیں. پشاور سے آپ ایک گھنٹے سے بھی کم میں چارسدہ پہنچ سکتے ہیں اگر براستہ نوشہرہ نہ جائیں تو، اور اگر نوشہرہ سے چارسدہ جائیں تو بھی اٹھائیس کلومیٹر کا فاصلہ اتنے ہی وقت میں طے ہوگا. چارسدہ سے مردان بھی محض چالیس کلومیٹر کی دوری پہ واقع ہے. ان سب راستوں پہ ہزاروں پبلک و پرائیویٹ گاڑیاں ہمہ وقت رواں دواں رہتی ہیں، سڑک بہترین ہے اور وقتا فوقتا مرمت ہوتی رہتی ہے. اگر آپ نے پشاور سے براہ راست مردان جانا ہو تو موٹروے کی بدولت یہ فاصلہ بھی محض ساٹھ منٹ کا رہ گیا ہے. اس سے زیادہ وقت آپ کو کارخانو مارکیٹ سے بالاحصار چوک تک پہنچنے میں لگ جاتا ہے. کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کیا واقعی اس روٹ پہ 1.6 ارب ڈالر سے ٹرین چلانے کی ضرورت ہے؟ یہ چوتھا سوال ہے.
پانچواں سوال یہ ہے کہ میٹرو اور اورنج لائن پہ ہم جیسوں کا سب سے بڑا اعتراض جس میں تحریکِ انصاف والے ہمارے ہمنوا تھے، یہی تھا کہ اتنی خطیر رقم اگر تعلیم اور صحت پہ خرچ کی جاتی تو پنجاب کی کایا پلٹ سکتی تھی، تو کیا خیبرپختونخوا میں سو فی صد شرح خواندگی اور سو فی صد آبادی کو طبی سہولیات کی فراہمی کا ہدف حاصل کر لیا گیا ہے جو آپ اربوں ڈالر سے بلٹ ٹرین چلانے چلے ہیں؟
اب کچھ دوست کہیں گے کہ جناب اورنج لائن تو صرف ایک شہر میں چلائی گئی ہے جبکہ ہماری سرکولر ریلوے چار اضلاع کو ملائے گی، تو عرض یہ ہے کہ پشاور اور مردان کے اندر ٹریفک کا مسئلہ جتنا گھمبیر ہے، ان دونوں شہروں کے درمیان اس کا عشرعشیر بھی نہیں. آپ ایک جنگلا بس پشاور میں چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں تو دوسری مردان چلا لیتے. یہ چاروں اضلاع تو پہلے بھی ایسے باہم ملے ہوئے ہیں کہ ایسے کسی منصوبےکی ضرورت ہی نہیں تھی. پشاور سے نوشہرہ، نوشہرہ سے چارسدہ اور چارسدہ سے مردان کل فاصلہ 107 کلومیٹر بنتا ہے. آپ کو پشاور سے مردان ڈائریکٹ روٹ بھی دستیاب ہے، پشاور سے چارسدہ بھی، اور پشاور سے نوشہرہ بھی، گویا ٹرین چلے یا نا چلے عوام کو قطعی کوئی فرق نہیں پڑتا.
کہاں کے عوام کو فرق پڑتا ہے، اب یہ بھی سنتے چلیے. ہری پور سے بالاکوٹ کا فاصلہ 102 کلومیٹر، اپروچ صرف ایک روٹ سے ممکن، سیاحتی علاقہ، شاہراہ قراقرم کا حصہ اور انتہائی گنجان آباد ہونے کے سبب واحد ہائی وے پر بے تحاشا رش، ہری پور سے ایبٹ آباد کے انتالیس منٹ رش آورز میں گھنٹوں پہ محیط ہوجاتے ہیں، اسی طرح ایبٹ آباد سے مانسہرہ رش کے اوقات میں جانا کتنی بڑی دردسری ہے یہ بھی وہاں جو ایک بار بھی گیا ہو اسے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے. سیاحت کے سیزن میں وہاں کے حالات ہم اسی عید پہ ایک بار پھر دیکھ آئے ہیں
آپ کہیں گے کہ سیاست کے سینے میں دل کہاں. یہ بھی بجا فرمایا حضور، مگر آئیے کوشش کرتے ہیں یہ دیکھنے کی کہ بطور ایک سیاسی منصوبے کے بھی اس کے خان صاحب اور ان کی جماعت کو کیا فوائد حاصل ہو سکتے تھے.
ایک یہ کہ ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ آبادی کے ہزارہ ڈویژن میں کے پی کے حکومت کے خلاف کئی تحفظات پائے جاتے ہیں، علیحدہ صوبے کےلیے صوبائی اسمبلی کی قرارداد بھی موجود ہے. یہاں ووٹ بھی نون لیگ اچھے خاصے کھینچ کے لے جاتی ہے اور تین سال میں ایسا لگ رہا تھا کہ اگلے الیکشن میں ہزارہ ڈویژن خان صاحب کی جماعت کے ہاتھوں سے مکمل نکل سکتا ہے. خان صاحب کی جانب سے اس ایک منصوبے کا اعلان ہوا کا رخ ان کے حق میں بدل سکتا تھا. یہ وہ منصوبہ ہوتا جو نون لیگ ہزارہ کے عوام کو دینے میں ناکام رہی. جبکہ یہ ان کا دیرینہ مطالبہ تھا کہ انھیں ایک متبادل راستہ بھی دیا جائے.
دوم یہ کہ ہری پور سے بالاکوٹ تک چلنے والی ٹرین سے سیاحت کو بے پناہ فروغ حاصل ہوتا اور منصوبے کی لاگت بہت کم وقت میں وصول ہو جاتی.
تیسرا یہ کہ جنگلوں، ندیوں، آبشاروں اور دریاؤں سے گزرتی یہ ٹرین بجائے خود بہت بڑی ٹورسٹ اٹریکشن ثابت ہوتی اور دنیا کے خوبصورت ترین ریلوے ٹریکس میں اس کا شمار ہوتا. یہاں جو اصحاب یہ سوچ رہے ہیں کہ اس علاقے میں ریلوے ٹریک بچھانا ناممکن یا بہت زیادہ دشوار ہے یا منصوبے کی لاگت کئی گنا بڑھ جاتی، ان سے عرض ہے کہ حضور! عمر گزری ہے انھی پہاڑوں کی سیاحی میں. آپ خٹک صاحب کے مشیرِ خصوصی برائے ٹرانسپورٹ جنہوں نے اس یادداشت پہ دستخط فرمائے ہیں، کو میرے ساتھ بھیج دیجیے، یہ عاجز ہری پور سے مانسہرہ تک انھیں خود ایسے روٹ کی نشان دہی کروا سکتا ہے جہاں ٹریک بچھانا ایسا ہی ہے جیسا پوٹھوہار ریجن میں.
چوتھا, آخری اور سب سے بڑا فائدہ پتہ ہے کیا تھا؟ چھوٹے میاں صاحب نے کمال چالاکی و مہارت سے اورنج لائن کو زبردستی سی پیک منصوبے میں شامل کروا دیا جبکہ اس کی وہاں کوئی جگہ ہی نہیں بنتی تھی، جبکہ شاہراہ ریشم پہ، یعنی کہ سی پیک کے مرکزی روٹ پہ واقع اس منصوبے پہ تو چینی خود اش اش کر اٹھتے، کیونکہ سی پیک منصوبے پہ ایک بڑا اور وزنی اعتراض یہ بھی ہے کہ ریلوے ٹریکس روڈز کی نسبت زیادہ سستے اور کارآمد ثابت ہوتے ہیں، ایسے میں یہ منصوبہ اگر ایک دو ارب ڈالر مزید بڑھا کر کے پی کے حکومت چلاس تک لے جاتی تو چینی اسے فنانس کر کے نہ صرف دعائیں دیتے عمران خان کو، بلکہ ریکارڈ وقت میں اسے مکمل کروا کر بھی دکھاتے. اس ایک منصوبے سے خیبرپختونخوا کی کایا پلٹ جاتی. ملکی سطح پہ بھی خان صاحب کی دوراندیشی، وژن اور تدبر کی دھاک بیٹھ جاتی، ایک ہاتھ سے پھسلتا ہوا ڈویژن ان کی جھولی میں آ گرتا اور چونکہ ہزارہ میں سب سے زیادہ سیاح پنجاب سے آتے ہیں تو اہلِ پنجاب اس منصوبے پہ رشک کرتے اور اگلے الیکشن میں یقینا خان صاحب سے بہتر سلوک کرتے، مگر ظاہر ہے کہ جو خوبیاں ان میں سرے سے ناپید ہیں، ان کی دھاک بھلا کیونکر بیٹھے.
آخری تجزیے میں یہ بیکار، پھسپھسا اور احمقانہ فیصلہ صرف الیکشنز اور اس سوچ کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے کہ عوام محض نمائشی اقدامات پہ ووٹ دیتے ہیں. گزشتہ الیکشن کے بعد جس صوبے کے عوام کو پنجاب کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار اور بالغ نظر قرار دیا گیا تھا، گویا اب انھی کو بیوقوف سمجھنے کی غلطی کی جا رہی ہے.
گویا تحریکِ انصاف نے مسلم لیگ نون کی حکمت عملی کو اپنا لیا.
گویا شہباز شریف اور عمران خان کے وژن میں بال برابر فرق بھی نہ رہا.
گویا اب بھوکے ننگے عوام کو دو بڑے صوبوں میں ٹرین کے جھولے دے کر بہلایا جاتا رہے گا.
چھٹا، آخری اور بہت گھسا پٹا سوال خان صاحب سے یہ کہ جناب وہ تبدیلی کیا ہوئی جس کا آپ وعدہ کیا کرتے تھے؟
ہر گزرتے دن کے ساتھ بدقسمتی سے یہ ثابت ہوتا جا رہا ہے کہ خان صاحب سر سے پاؤں تک ایک روایتی سیاستدان ہی ہیں اور مزید بدقسمتی یہ کہ دستیاب قیادت میں وژن کے لحاظ سے بدترین بھی

Comments

Click here to post a comment

  • برمحل اور بروقت . لیکن اس میں سے بھی فسطائیت کی بو ارہی ہے....ہاں میگا سٹی , سپورٹس سٹی کی طرح اس کا بھی صرف نام رہ جائیگا....اور ۵ سال پورے ہو جائیگے.