ہوم << سانحہ کوئٹہ کے بعد...؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

سانحہ کوئٹہ کے بعد...؟ ڈاکٹر عاصم اللہ بخش

عاصم اللہ بخش دہشت گردی کی پیچیدہ دنیا میں جہاں نفسیاتی عوامل انتہائی اہمیت کے حامل ہوں اور انسانی جانوں کے بہیمانہ خاتمہ کے ساتھ ساتھ انسانی ذہنوں کو مغلوب کرنا اصل مقصد ہو وہاں بیانیہ کے ساتھ ساتھ بیانات کے متعلق حساس رہنا بہت اہم ہے۔ یہاں تک کہ زبان حال کے متعلق بھی محتاط رہنا بہت ضروری ہے کہ حرکات و سکنات بھی دیکھنے والوں کو غلط سگنل دے سکتی ہیں۔ پھونک پھونک کر قدم رکھنا ہوگا۔
کل آرمی چیف نے فرمایا کہ دہشت گردوں کو خیبر پختونخوا میں شکست فاش ہوئی اور اب انہوں نے بلوچستان کا رخ کرلیا ہے۔
بظاہر سادہ سے اس بیان میں گھمبیر نتائج کے امکانات مضمر ہیں۔
اول، یہ سوال کہ کیا ضرب عضب جیسی بڑے عسکری آپریشن کے تناظر میں ضروری Contingency Planning کی گئی؟
جب بھی کوئی ملٹری آپریشن پلان کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ توجہ اسی شعبہ پر دی جاتی ہے کیونکہ بالعموم تجربہ یہ ہے کہ یہ فتح اور شکست کے مابین فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔ اگر اس سے صرف نظر ہو جائے تو بظاہر فتح مندی کی صورتحال بالکل 180 درجہ زاویہ پر برعکس بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جنگ کے دوران سرپرائز دینا ہوتا ہے ، سرپرائز لینے کا کوئی آپشن نہیں۔ تو کیا یہ طے نہیں تھا کہ جب پریشر آئے گا تو عسکریت پسند یا تو افغانستان کو بھاگیں گے یا اندرون ملک۔ اور بلوچستان کی جانب نکل جانا تو نسبتاً بہت آسان ہے۔ اس کی توقع نہیں تھی یا پیش بندی میں کہیں سقم رہ گیا۔
دوسرا نکتہ اس سے بھی اہم ہے۔
خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کو شکست فاش کا کہنے سے دہشت گردی میں ملوث قوتوں کے لیے نفسیاتی جنگ میں برتری کا ایک بڑا موقع پیدا ہوگیا ہے جیسا کہ ایک دوسرے مضمون میں ذکر ہؤا کہ یہ مجرد دہشت گردی نہیں، یہ معاندانہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کی پاکستان کے خلاف "Psy-Ops offensive" ہے۔ بالفرض اگر وہ خیبر پختونخوا میں کوئی بڑی کاروائی کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو پاکستانی افواج اور قوم پر اس کا کیا اثر پڑے گا، ضرب عضب جیسے کامیاب آپریشن کی ساکھ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے اور پھر اندرونی اور بیرونی ناقدین اس بات کو کیسے سینگوں پر لیے لیے پھریں گے۔ نہایت اہم بات اب یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں سیکورٹی کو بلند ترین سطح پر رکھا جائے، اس ضمن میں کسی تساہل، کسی کوتاہی کی کوئی گنجائش نہیں۔
اس تناظر میں نہایت اہم ہے کہ باقاعدہ عرق ریزی سے طے کیا جائے کہ ایسے کسی بھی سانحہ کے ہنگام کیا کہنا ہے۔ درست ہے کہ ایسے اوقات میں عوام حوصلہ کے لیے اپنے رہنماؤں اور سینئیر حکام کی جانب دیکھتے ہیں لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ ان بیانات کو صرف عوام نہیں سن رہے ہوتے، وہ بھی ان کے سامع ہوتے ہیں جو ان مسائل کے پیچھے ہیں۔ اس حوالہ سے کم سے کم احتیاط یہ ہوگی کہ کسی بھی ایسی بات سے گریز کیا جائے جو دعوی لگ سکتی ہو۔
جہاں زبان قال اہم ہے وہیں زبان حال کی اہمیت بھی دوچند ہے۔ پینک یا افراتفری کسی مسئلہ کا حل نہیں۔ ایسے اقدام نہ کیے جائیں جو بظاہر اچانک یا ہنگامی محسوس ہوں۔ گویا یہ حادثہ نہ ہوتا تو وہ بھی نہ ہوتے۔ پھر ایسے اقدامات پر عملدرآمد میں غیر ضروری عجلت بھی نہ دکھائی جائے کہ کس معصوم کے ساتھ زیادتی کا احتمال پیدا ہو۔ یاد رہے، مقامی آبادی کی حمایت اصل فیصلہ کن عنصر ہے. کسی قسم کی زیادتی یا اس کا تاثر عوامی ہمدردی کا پلڑا مخالف کے حق میں جھکا سکتا ہے۔
یہاں اس بات کا تذکرہ برمحل ہوگا کہ پاکستان کے تناظر میں اگر دہشت گردی کے خلاف حقیقی کامیابی حاصل کرنا ہے تو اس کے لیے دو بنیادی اقدام اٹھانا ہوں گے، اس کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں.
1۔ تمام انٹیلی جنس اداروں کا ہمہ گیر تعاون تاکہ Actionable Intelligence ترتیب پا سکے
اور
2۔ تمام ملک میں، بلا استثناء صوبہ و علاقہ ، پروفیشنل، تربیت یافتہ اور ڈسپلنڈ پولیس فورس کا قیام۔ پولیس وہ نکتہ ہے جس کے ارد گرد امن و امان کا سارا تانا بانا قائم ہوتا ہے۔ یہ انٹیلی جنس کا ذریعہ بھی ہے اور فوری ایکشن کا بھی۔ اس کی غیرموجودگی میں امن کا ہر منصوبہ محض ایک سراب ہے۔
ایک اور بات، جو ان حالات میں ایک بڑا گیم چینجر ثابت ہوگی، یہ کہ ہر سطح پر بحیثیت ایک اٹل پالیسی اپنا لیا جائے کہ ہم پراکسی وارز میں الجھنے سے ہر قیمت پر گریز کریں گے، اور اپنے لوگوں کو تو کبھی بھی اس کا ذریعہ نہیں بنائیں گے۔ فوری طور پر تمام مسلح گروپس کا خاتمہ کیا جائے اور انہیں اپنی زندگیاں ایک نئے سرے سے شروع کرنے کے مواقع دیے جائیں۔ اس سے عوام میں کنفیوژن ختم ہوگا اور وہ اپنی افواج کے شانہ بشانہ ایک نئے عزم کے ساتھ کھڑے رہ کر حتمی فتح کے لیے جدوجہد کر سکیں گے۔
قوم کی سطح پر ہم سب کے لیے بھی سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ ایک طویل جدوجہد ہے۔ یہ اب ایک عالمی معاملہ ہے اور اب اس لعنت کا شکار وہ بھی ہونے لگے ہیں جو خود کو مکمل طور سے محفوظ تصور کیے ہوئے تھے۔ ہمارے جیسی دوسری اقوام جو اس سے نبرد آزما ہیں اور ہمارے بعد ان حالات کا شکار ہوئیں، ان کی حالت بھی دیکھ لیجیے اور اپنی بھی۔ پھر یہ کہ خود اپنے ماضی کی نسبت آج کے حالات دیکھ لیجیے، بھلے وہ کراچی ہو، فاٹا، خیبرپختونخوا یا بلوچستان۔ لیکن اب بھی یہ ایک آنکھ مچولی ہے جس میں کبھی دشمن کا داؤ چل بھی جاتا ہے۔ نیز، دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی اور طویل وقفہ دشمن کی رحمدلی یا کرم نوازی کی دین نہیں، اس کے لیے پاکستان کے اداروں کی محنت اور ان اداروں میں کام کرنے والوں کے خون کے طفیل ہم آج یہاں کھڑے ہیں کہ وقفہ امن اب بریکنگ نیوز نہیں ہے بلکہ لگ بھگ ایک معمول ہے۔
آنے والا وقت اس سے کہیں بہتر ہوگا، بس صرف یہ کہ سب ہی کو اپنے اپنے دائروں سے نکل کر قومی دائرہ میں آنا ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment