ہوم << غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات - سید ظفر احمد

غامدی صاحب کے جوابی بیانیے پر کچھ گزارشات - سید ظفر احمد

(معروف اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب نے قومی بیانیے کے حوالے سے روزنامہ جنگ میں اپنے کالموں سے ایک بحث کا آغاز کیا تھا، جو سوشل میڈیا کی حد تک کسی نہ کسی انداز میں جاری ہے. سید ظفر احمد نے اس کا تفصیلی جواب لکھا تھا مگر بوجوہ کہیں اشاعت کے لیے نہیں بھیج سکے۔ اب انہوں نے یہ تحریر دلیل کے لیے بھیجی ہے۔ ایک اہم موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسے پبلش کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے کسی بھی دوسرے نقطہ نظر کے لیے دلیل کا پلیٹ فارم حاضر ہے)
روزنامہ جنگ کی اشاعت بروز جمعرات 22 جنوری 2015ء میں ممتاز مفکر محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا مضمون بعنوان ’’اسلام اور ریاست: ایک جوابی بیانیہ‘‘ شائع ہوا ہے، جس میں انہوں نے اس موضوع پر اپنے فکر کا خلاصہ بیان کردیا ہے جو وہ اس سے پہلے اپنی کئی کتب و مضامین میں شایع کرچکے ہیں۔ اس اعتبار سے اس میں کوئی نئی بات تو نہیں، جو پہلے سے وہ نہ کہتے رہے ہوں البتہ ایک روزانہ اخبار کے لا تعداد قارئین کے لیے یہ واقعی ایک نیا بیانیہ ہے جو اخباری صفحات پر پیش کیا گیا ہے۔ روزانہ اخبار علمی بحثوں کے متحمل نہیں ہوسکتے، اس کے لیے علمی جرنلز، ٹرانزیکشن، کانفرنسیں یا کتابوں کا فورم ہی صحیح مقام ہے۔ اب اگر اس مضمون کا علمی تعاقب نہ کیا گیا تو بہت سے لوگ کنفیوز یا گمراہ ہوجائیں گے کہ ایک طرف تو وہ بیانیہ ہے جس کی پشت پر صدیوں کی مسلسل علمی روایت ہے اور دوسری طرف یہ نئی آواز ہے جو صدیوں کی علمی روایت جو ایک تسلسل سے چلی آرہی ہے کا رد کرتی ہے اور دلائل سے نہیں بلکہ دعاوی سے۔ محترم غامدی صاحب بس ایک دعویٰ کردیتے ہیں اور وہی دلیل ہوتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن میرے خیال میں مجھے موضوع سے ہٹنا نہیں چاہیے اور ایک مختصر مضمون کی محدودات کو بھی ذہن میں رکھنا چاہیے۔
محترم غامدی صاحب اپنے مضمون کا آغاز ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’اس وقت جو صورت حال بعض انتہا پسند تنظیموں نے اپنے اقدامات سے اسلام اور مسلمانوں کے لیے پوری دنیا میں پیدا کردی ہے، یہ اسی فکر کانتیجہ ہے جو ہمارے مذہبی مدرسوں میں پڑھا اور پڑھایا جاتا ہے، اور جس کی تبلیغ اسلامی تحریکیں اور مذہبی سیاسی جماعتیں شب و روز کرتی ہیں‘‘۔ یہ بہت بڑا دعویٰ ہے جو کسی دلیل یا حوالے کے بغیر کر دیا گیا ہے۔ پہلی بات یہ کہ ہمارے مذہبی مدرسوں میں جو فکر پڑھایا جاتاہے اس کی تبلیغ مذہبی سیاسی جماعتیں کررہی ہوں تو کر رہی ہوں، لیکن اسلامی تحریکیں قطعاً نہیں کرتیں۔ اسلامی تحریکوں سے غامدی صاحب کی اصلاً مراد جماعت اسلامی ہی ہوسکتی ہے، باقی تنظیمیں جن کو اسلامی تحریک کے ضمن میں رکھا جاسکتا ہے جیسے تنظیم اسلامی یا تحریک اسلامی تو وہ نا قابلِ ذکر ہیں۔
بہرحال محترم غامدی صاحب کا یہ مشاہدہ افسوسناک حد تک گمراہ کن ہے۔ وہ خودجماعت اسلامی کے رفیق کار رہے ہیں اور مولانا مودودی جیسے نابغہ کے ساتھ وقت بھی گزارا ہے، مولانا امین احسن صاحب اصلاحی کے شاگردِ رشید ہیں جو خود سالہا سال تک فکرِ جماعت اسلامی کے علمبردار رہے، وہ کیسے جانتے بوجھتے یہ دعویٰ کرسکتے ہیں کہ دینی مدارس، مذہبی جماعتوں، اور جماعت اسلامی کا فکر ایک ہی ہے اور اسی فکر کو لےکر انتہا پسند تنظیمیں فساد پھیلا رہی ہیں۔ جہاں تک دینی مدارس اور ان کی سر پرست مذہبی سیاسی جماعتوں کا تعلق ہے، ان کا فکر بس یہ ہے کہ ان کا فقہی مکتبِ فکر دوسرے مکاتب ہائے فکر سے افضل ہے۔ ان کے علمائے دین درحقیقت علمائے فقہ ہیں، اس میں بھی ان کا تخصص خلافیات ہیں یعنی وہ امور جن سے ان کے فقہی مکتبِ فکر کی افضلیت ثابت ہوتی ہو اور دوسرے مکاتبِ فکر مردود یا مرجوح قرار پاتے ہوں۔ بقول لکھنئو کےمولانا وحید الدین صاحب یہ مدارس فقہی پہلوان پیدا کرنے کے ادارے ہیں۔ دینِ حنیف یا قرآنِ عظیم کی ارفع تعلیمات سے کم ہی ان کو تعلق ہوتا ہے، اب کچھ عرصے سے ان حضرات نے جماعت اسلامی کے بیانیے سے استفادہ کرتے ہوئے انہی اصطلاحات میں بات کرنا شروع کردی ہے جو جماعت کے لٹریچر نے متعارف کرائی ہیں، ورنہ حقیقتاً ان حضرات کا فہم اسلام بس اس قدر تھا کہ ملک میں کوئی شیخ الاسلام قسم کا منصب قائم ہوجائے، اللہ اللہ خیرصلا۔ اب یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ غامدی صاحب نے ان دینی مدارس اور مذہبی سیاسی جماعتوں جن سے صاف ظاہر ہے، جمعیت علمائے اسلام یا جمعیت علمائے پاکستان جیسی جماعتیں ہیں، کے ساتھ جماعت اسلامی کو کیوں بریکٹ کیا ہے اور وہ بھی جانتے بوجھتے۔ یہ بات کہ بقول خورشید ندیم صاحب جماعت اسلامی ان کے دینی مدارس کے معاملے میں عبداللہ دیوانے کا کردار ادا کر رہی ہے، کافی نہیں ہے کہ خورشید صاحب کے استاذ محترم اتنا بڑا الزام لگادیں۔
غامدی صاحب تو جانتے ہیں، لیکن ہمارے قارئینِ کرام شاید اُس فکر یا آج کل کی اصطلاح میں اُس بیانیے سے پوری طرح واقف نہ ہوں جو جماعت اسلامی کے فکروعمل کی بنیاد ہے، اس لیے اس کو وضاحت سے بیان کرتا ہوں پھر محترم غامدی صاحب سے سوال کیا جا سکتا ہے کہ کیوں کر اسے موجودہ انتہاپسندانہ فساد کی بنیاد قراردیا گیا ہے؟ جماعت اسلامی پاکستان کے دستور میں جماعت کا بنیادی عقیدہ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ بتایا گیا ہے۔ یعنی یہ کہ صرف اللہ ہی ایک الٰہ ہے، اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ پھر اس عقیدہ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی ہے:
" اس عقیدے کے پہلے جزو یعنی اللہ کے واحد الٰہ ہونے اور کسی دوسرے کے الٰہ نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور آسمان اور جو کچھ آسمان و زمین میں ہے، سب کا خالق، پروردگار، مالک اور تکوینی و تشریعی حاکم صرف اللہ ہے، ان میں سے کسی حیثیت میں بھی کوئی اس کا شریک نہیں ہے۔
اس حقیقت کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ :
۱۔ انسان اللہ کے سوا کسی کو ولی و کار ساز، حاجت روا اور مشکل کشا، فریاد رس اور حامی و ناصر نہ سمجھے، کیونکہ کسی دوسرے کے پاس کوئی اقتدار ہی نہیں ہے۔
۲۔اللہ کے سوا کسی کو نفع و نقصان پہنچانے والا نہ سمجھے، کسی سے تقویٰ اور خوف نہ کرے، کسی پر توکل نہ کرے، کسی سے امیدیں وابستہ نہ کرے کیونکہ تمام اختیارات کامالک وہی اکیلا ہے۔
۳۔ اللہ کے سوا کسی سے دعا نہ مانگے، کسی کی پناہ نہ ڈھونڈے، کسی کو مدد کے لیے نہ پکارے ، کسی کو خدائی انتظامات میں ایسا دخیل اور زور آور بھی نہ سمجھے کہ اس کی سفارش قضائے الٰہی کوٹال سکتی ہو، کیونکہ خدا کی سلطنت میں سب بےاختیار رعیت ہیں، خواہ فرشتے ہوں یا انبیاء یا اولیاء۔
۴۔ اللہ کے سوا کسی کے آگے سر نہ جھکائے، کسی کی پرستش نہ کرے، کسی کو نذر نہ دے اور کسی کے ساتھ وہ معاملہ نہ کرے جو مشرکین اپنے معبودوں کے ساتھ کرتے رہے ہیں، کیونکہ تنہا ایک اللہ ہی عبادت کا مستحق ہے۔
۵۔ اللہ کے سوا کسی کو بادشاہ، مالک الملک اور مقتدرِ اعلیٰ تسلیم نہ کرے، کسی کو بااختیارِ خود حکم دینے اور منع کرنے کا مجاز نہ سمجھے، کسی کو مستقل بالذات شارع اور قانون ساز نہ مانے اور ان تمام اطاعتوں کو تسلیم کرنے سے انکار کردے جو اللہ کی اطاعت کے تحت اور اس کے قانون کی پابندی میں نہ ہوں، کیونکہ اپنے ملک کاایک ہی جائز مالک اور اپنی خلق کا ایک ہی جائز حاکم اللہ ہے۔ اس کے سوا کسی کو مالکیت اور حاکمیت کا حق نہیں پہنچتا۔ نیزاس عقیدے کو قبول کرنے سے یہ بھی لازم آتا ہے کہ:
۶۔ انسان اپنی آزادی و خود مختاری سے دست بردار ہوجائے، اپنی خواہشاتِ نفس کی بندگی چھوڑ دے اور اللہ کا بندہ بن کر رہے جس کو اس نے الٰہ تسلیم کیا ہے۔
۷۔ اپنے آپ کو کسی چیز کا مالکِ مختار نہ سمجھے، بلکہ ہر چیز حتی کہ اپنی جان، اپنے اعضاء اور اپنی ذہنی و جسمانی قوتوں کو بھی اللہ کی ملک اور اس کی طرف سے امانت سمجھے۔
۸۔ اپنے آپ کو اللہ کے سامنے ذمہ دار اور جواب دہ سمجھے اور اپنی قوتوں کے استعمال اور اپنے برتاؤ اور تصرفات میں ہمیشہ اس حقیقت کو ملحوظ رکھے کہ اسے قیامت کے روز اللہ کو ان سب چیزوں کا حساب دینا ہے۔
۹۔ اپنی پسند کا معیار اللہ کی پسند کو اور اپنی ناپسندیدگی کا معیار اللہ کی ناپسندیدگی کو بنائے۔
۱۰۔ اللہ کی رضا اور اس کے قرب کو اپنی تمام سعی و جہد کا مقصود اور اپنی پوری زندگی کا محور ٹھہرائے۔
۱۱۔ اپنے لیے اخلاق میں، برتاؤمیں، معاشرت اور تمدن میں، معیشت اور سیاست میں، غرض زندگی کے ہر معاملے میں صرف اللہ کی ہدایت تسلیم کرے اور ہر اس طریقے اور ضابطے کو رد کردے جو اللہ کی شریعت کے خلاف ہو۔
۱۲۔اس عقیدے کے دوسرے جز یعنی محمدﷺ کے رسول اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ سلطانِ کائنات کی طرف سے روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کو جس آخری نبی کے ذریعہ سے مستند ہدایت نامہ اور ضابطہِ قانون بھیجا گیا اور جس کواس ضابطہ کے مطابق کام کرکے ایک مکمل نمونہ قائم کردینے پر مامور کیا گیا، وہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
اس امر واقعی کو جاننے اور تسلیم کرنے سے لازم آتا ہے کہ:
۱۔ انسان ہر اس تعلیم اور ہر اس ہدایت کو بے چون و چرا قبول کرے جو محمد ﷺسے ثابت ہو۔
۲۔ اس کو کسی حکم کی تعمیل پرآمادہ کرنے کے لیے اور کسی طریقہ کی پیروی سے روک دینے کے لیے صرف اتنی بات کافی ہو کہ اس چیز کا حکم یا اس چیز کی ممانعت رسولِ خدا ﷺ سے ثابت ہے۔ اس کے سوا کسی دوسری دلیل پر اس کی اطاعت موقوف نہ ہو۔
۳۔ رسول خدا ﷺ کے سوا کسی کی مستقل بالذات پیشوائی اور رہنمائی تسلیم نہ کرے۔ دوسرے انسانوں کی پیروی کتاب اللہ اور سنت رسول کے تحت ہو، نہ کہ ان سے آزاد۔
۴۔ اپنی زندگی کے ہر معاملے میں خدا کی کتاب اور اس کے رسول ﷺکی سنت کو حجت اور سند اور مرجع قرار دے، جوخیال یا عقیدہ یا طریقہ کتاب و سنت کے مطابق ہو، اسے اختیار کرے۔
۵۔ تمام عصبیتیں اپنے دل سے نکال دے خواہ وہ شخصی ہوں یا خاندانی، یا قبائلی ونسلی، یا قومی و وطنی، فرقی و گروہی۔ کسی کی محبت یا عقیدت میں ایسا گرفتار نہ ہو کہ رسولِ خدا ﷺ کے لائے ہوئے حق کی محبت و عقیدت پر وہ غالب آجائے یا اس کی مدِمقابل بن جائے۔
۶۔ رسولِ خدا ﷺ کے سوا کسی انسان کو معیارحق نہ بنائے، کسی کو تنقید سے بالاتر نہ سمجھے، کسی کی ذہنی غلامی میں مبتلا نہ ہو، ہر ایک کو خدا کے بنائے ہوئے اسی معیار کامل پر جانچے اور پرکھے اور جو اس معیار کے لحاظ سے جس درجہ میں ہو، اُس کو اُسی درجے میں رکھے۔
۷۔ محمد ﷺ کے بعد پیداہونے والے کسی دوسرے انسان کا یہ منصب تسلیم نہ کرے کہ اس کوماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفروایمان کا فیصلہ ہو۔
اب غامدی صاحب کے لیے لازم ہے کہ وہ بتائیں کہ اس بیانیے کا کون سا جز غلط ہے، خلافِ قرآن و سنت ہے، اور اس فساد کی بنا ہے جو انتہاپسند قوتوں نے برپا کیا ہوا ہے۔ اگر وہ ایسا نہ کرسکیں تو ان کو اپنے الفاظ واپس لینے چاہییں۔ اگر کوئی بھی انصاف پسند شخص اس بیانیے کو کھلے ذہن کے ساتھ پڑھے تو وہ جان لے گا کہ یہی وہ مثالیہ [Paradigm] ہے جس کو اختیار کرکے دنیا اور آخرت میں فلاح حاصل کی جاسکتی ہے۔ اس عقیدہ کی بنیاد پر جو نصب العین آپ سے آپ برآمد ہوتا ہے، وہ دستور ِ جماعت میں ان الفاظ میں ادا کیا گیا ہے: ’’جماعت اسلامی پاکستان کا نصب العین اور اس کی تمام سعی وجہد کا مقصود عملاً اقامتِ دین (حکومتِ الٰہیہ یا اسلامی نظام زندگی کا قیام) اورحقیقتاً رضائے الٰہی اور فلاحِ اخروی کا حصول ہوگا۔‘‘ پھر دستور اس کی تشریح یوں کرتا ہے: ’’الدین، حکومت الٰہیہ اور اسلامی نظامِ زندگی۔ تینوں اس جماعت کی اصطلاح میں ہم معنی الفاظ ہیں۔ قرآن مجید نے اپنے جس مفہوم کو بیان کرنے کے لیے ’اقامت دین‘ کے الفاظ استعمال کیے ہیں، اسی مفہوم کو یہ جماعت اپنی زبان میں ’حکومتِ الٰہیہ‘ یا ’اسلامی نظام زندگی‘ کے قیام سے ادا کرتی ہے۔ ان تینوں کا مطلب اس کے نزدیک ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ انسانی زندگی کے جس دائرے میں انسان کو اختیار حاصل ہے اس میں وہ برضا و رغبت اسی طرح اللہ کی تشریعی حکومت تسلیم کرے جس طرح دائرہ جبر میں کائنات کا ذرہ ذرہ چارو ناچار اس کی تکوینی حکومت تسلیم کررہا ہے۔ اللہ کی اس تشریعی حکومت کے آگے سرجھکانے سے جو طریقِ زندگی رونما ہوتا ہے وہی’الدین‘ ہے، وہی ’حکومت الٰہیہ‘ ہے اور وہی ’اسلامی نظام زندگی‘ہے۔‘‘
’’اقامت دین سے مقصود دین کے کسی خاص حصے کی اقامت نہیں بلکہ پورے دین کی اقامت ہے خواہ اس کا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی زندگی سے، نماز، روزہ اور حج زکوٰة سے ہو یا معیشت و معاشرت اور تمدن و سیاست سے۔ اسلام کا کوئی حصہ بھی غیر ضروری نہیں ہے۔ پورے کا پورا اسلام ضروری ہے۔ ایک مومن کا کام یہ ہے کہ اس پورے اسلام کو کسی تجزیہ و تقسیم کے بغیر قائم کرنے کی جدوجہد کرے۔ اس کے جس حصے کا تعلق افراد کی اپنی ذات سے ہے، ہر مومن کو اسے بطور خود اپنی زندگی میں قائم کرنا چاہیے اور جس حصے کا قیام اجتماعی جدوجہد کے بغیر نہیں ہوسکتا، اہل ایمان کو مل کر اس کے لیے جماعتی نظم اور سعی کا اہتمام کرنا چاہیے۔‘‘
’’اگرچہ مومن کااصل مقصد رضائے الٰہی کا حصول اور آخرت کی فلاح ہے، مگر اس مقصد کا حصول اس کے بغیر ممکن نہیں ہے کہ دنیا میں خدا کے دین کو قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس لیے مومن کا عملی نصب العین اقامت دین اور حقیقی نصب العین وہ رضائے الٰہی ہے جو اقامتِ دین کی سعی کے نتیجے میں حاصل ہوگی۔‘‘
جماعت کا مستقل طریقِ کار دفعہ 5 کے تحت یہ طے کردیا گیا ہے:
۱۔ وہ کسی امر کا فیصلہ کرنے یا کوئی قدم اٹھانے سے پہلے یہ دیکھے گی کہ خدا اور رسول کی ہدایت کیا ہے۔ دوسری ساری باتوں کو ثانوی حیثیت سے صرف اس حد تک پیشِ نظر رکھے گی جہاں تک اسلام میں اس کی گنجائش ہوگی۔
۲۔ اپنے مقصد اور نصب العین کے حصول کے لیے جماعت کبھی ایسے ذرائع اور طریقوں کو استعمال نہیں کرے گی جو صداقت اور دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو۔
۳۔ جماعت اپنے پیشِ نظر اصلاح اور انقلاب کے لیے جمہوری اور آئینی طریقوں سے کام کرے گی۔ یعنی یہ کہ تبلیغ و تلقین اور اشاعت افکار کے ذریعہ سے ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کی جائے اور رائے عامہ کو ان تغیرات کے لیے ہموار کیاجائے جو جماعت کے پیش نظر ہیں۔
۴- جماعت اپنے نصب العین کے حصول کی جدوجہد خفیہ تحریکوں کے طرز پر نہیں کرے گی بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کرے گی۔
اس ماڈل کو دیکھ کر ہر وہ شخص جس کو انصاف پسندی سے کچھ بھی مس حاصل ہے، نہیں کہہ سکتا کہ یہ انتہا پسندانہ تنظیموں کے فساد کا ذمہ دار ہوسکتا ہے۔ اللہ کا خوف کیجیے غامدی صاحب آپ کیا کہہ گئے ہیں۔
پھر محترم نے دس (10) نکات میں اپنا جوابی بیانیہ پیش کیا ہے۔ اُن کا مختصر تجزیہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
نکتہ نمبر1 میں فرماتے ہیں: ’’یہ خیال بالکل بے بنیاد ہے کہ ریاست کا بھی کوئی مذہب ہوتا ہے اور اس کو بھی کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے سے مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ یہ خیال جن لوگوں نے پیش کیا اور اسے منوانے میں کامیابی حاصل کی ہے، انہوں نے اس زمانے کی قومی ریاستوں میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی اور ان میں بسنے والے غیرمسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ ایک محفوظ اقلیت کی ہے ۔‘‘ اس نکتے کی وضاحت میں ان کا ایک مزید مضمون 21 فروری کے جنگ میں ’’ریاست اور حکومت‘‘ کے عنوان سے شایع ہوا ہے، جس میں انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی ریاست بھی دور حاضر کی قومی ریاستوں کی طرح ایک ریاست ہے لیکن چوں کہ باشندگان کی اکثریت مسلمان ہے اس لیے اکثریت کی حکومت کے اصول کی رو سے حکمرانوں کا حق ہے کہ دین نے جو اجتماعی نوعیت کے احکام دیے ہیں ان پر خود بھی عمل کریں اور اس کے ماننے والوں کے تمام معاملات کا فیصلہ بھی شریعت کے مطابق کریں۔ اس وضاحت کے بعد وہ پھر بھی یہی کہے چلے جاتے ہیں کہ ریاست کو آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت نہیں ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا۔ آخر کیوں آئین اکثریت کی امنگوں کا پرتو نہ ہو؟ سمجھ میں نہیں آتا کہ غامدی صاحب کنفیوژن پھیلا رہے ہیں یا ہماری سمجھ کا قصور ہے۔ یہ کہنا بڑی جسارت ہے کہ قرارداد مقاصد کے ذریعے قومی ریاست میں مستقل تفرقے کی بنیاد رکھ دی گئی ہےاور ریاست میں بسنے والے غیرمسلموں کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ درحقیقت دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ اس دعوے کا ثبوت غامدی صاحب نے نہیں دیا۔ وہ البتہ اپنی تحریروں میں یہی کہتے رہے ہیں کہ اہل ذمہ دوسرے درجے کے شہری ہوتے ہیں۔
اگرچہ یہ بات بالکل صحیح ہے کہ اسلام کی دعوت اصلاً فرد کے لیے ہے لیکن فرد تو ایک سماجی مخلوق ہے، دوسرے انسانوں کےساتھ کئی قسم کے تعلقات میں بندھا ہوتا ہے، جس سے پہلے خاندان اور پھر سما ج بنتا ہے جو بالآخر ریاست پر منتج ہوتا ہے۔ چنانچہ سماج اگر اس کا مددگار اور پشتیبان نہ ہو تو فرد کیسے اپنی اخلاقی، روحانی، اور عقلی بالیدگی کرسکےگا تاکہ اپنے خالق کےامتحان میں کامیاب ہوسکے۔ سماج کی صورت گری اور ارتقاء میں ریاست کے کردار کا انکار کیا ہی نہیں جاسکتا۔ آج کل تو ریاست کے وظائف بہت ہمہ گیر ہوچکے ہیں لیکن اس زمانے میں بھی جب ریاست کا کردار امن و امان قائم کرنا اور بیرونی حملہ آوروں سے دفاع تک محدود تھا، ریاست کا اثر افراد پر اس قدر تھا کہ الناس علیٰ دین ملوکہم اور جیسا راجا ویسی پرجا جیسی کہاوتیں اس کو بخوبی بیان کرتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اگر ایک ریاست کے شہریوں کی اکثریت مسلمان ہے اور ایک ایسا نظم اجتماعی چاہتی ہے جو ان کی اخلاقی، روحانی، اور عقلی ترقی میں ان کا مددگار اور معاون ہو تاکہ وہ اپنے خالق کی رضا اور خوشنودی سے سرفراز ہوسکیں تو ایک صالح معاشرہ قائم کرنے کی خواہش یا کوشش کو کس طرح غلط قرار دیا جاسکتا ہے؟ صرف اس لیے کہ شاید چند اقلیتی حضرات اسے پسند نہ فرمائیں جبکہ ان کی اکثریت اغلباً اسے پسند ہی کرے گی جیسا کہ انہوں نے تاریخی طور پر اسلام کے عدل اجتماعی ہی کے زیر سایہ رہنے کو پسند کیا ہے۔ کیا آپ نے یہ بھی نہیں سوچا کہ ہمارے خالق کا پسندیدہ طریق زندگی بھلا کسی بھی فرد کے ساتھ ناانصافی کرسکتا ہے؟
یہاں اس مغالطہ کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ریاست کی تعریف اس طرح کرتا ہے:
State, political organization of society, or the body politic, or, more narrowly, the
institutions of government. The state is a form of human association distinguished from other social groups by its purpose, the establishment of order and security; its methods, the laws and their enforcement; its territory, the area of jurisdiction or geographic boundaries; and finally by its sovereignty.
ترجمہ: ’’ریاست معاشرے کی سیاسی ہیئت یا حکومتی ادارہ جات کو کہتے ہیں۔ ریاست انسانوں کے انسانوں سے ان تعلقات کا نام ہے جواس کے مقاصد، امن و امان کو قائم کرنے، قوانین اور ان کے نفاذ، عملداری کے حدود یا جغرافیائی حدود، سرحدات، اور بالآخر اس کی حاکمیت سے متعلق ہیں اور اس بناء پر ریاست کا ادارہ دوسرے سماجی گروہوں سے مختلف ہو جاتا ہے۔‘‘ اس تعریف کی بنا پر ریاست کو وہاں کے رہنے والوں، حکومت، اور عمرانی معاہدے سے الگ کرکے مجرداً دیکھنا صحیح نہیں ہے۔ دیکھیے، اوپر کی تعریف میں ریاست کے مقصد کا سب سے پہلے ذکر ہوا ہے، یہی وجہ تھی کہ جب آزاد ریاست پاکستان وجود میں آگئی تو اس کے مقصد وجود کو واضح کرنا ضروری تھا جو اگرچہ قائداعظم نے تحریک کے دوران اپنی تقاریر سے اچھی طرح واضح کردیا تھا تاہم اس کو ایک رسمی شکل دینا ضروری تھا۔ مولانا مودودی کے وژن کی داد دینا پڑتی ہے کہ بالکل ابتدا ہی میں انہوں نے اس کی ضرورت کو محسوس کر لیا تھا اور ان کی اور دوسرے علماء کی مساعی سے بالآخر قرارداد مقاصد منظور ہوئی اور تب سے پاکستان کے تمام دساتیر کے ماتھے کا جھومر رہی ہے۔ افسوس ہے کہ محترم غامدی صاحب کے بقول اہل پاکستان نے ریاست کو اسلامی قرار دے کر اور قرارداد مقاصد اختیار کرکے اس ملک کی حاکمیت کا جو سوال طے کردیا ہے، تو یہ کام بالکل غلط ہوا ہے۔
نکتہ نمبر 2 میں غامدی صاحب کہتے ہیں کہ اس خیال کی کوئی بنیاد نہیں کہ جن ملکوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے، وہ اپنی ایک ریاست ہائے متحدہ قائم کرلیں۔ یہ بات زیرنظر جوابی بیانیے میں بالکل غیر ضروری اور غیر متعلق ہے کیونکہ اسلامی ریاستوں کی دولت مشترکہ وغیرہ تو بہت دور کی باتیں ہیں فی الحال تو اسلامی تحاریک اپنے اپنے ملکوں میں اسلامی ریاست قائم کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہیں اور ان کی منزل ان کی قومی سطح پر ہی بہت دور ہے کجا کہ وہ آگے کا سوچیں اور اس پر بلاوجہ کی بحث کا بازارگرم ہو۔ جب کبھی کہیں اسلامی ریاست قائم ہوگئی تو پتا نہیں کتنا عرصہ وہ اندرونی سازشیوں اور دشمنوں کے گماشتوں سے نمٹنے میں لگی رہے، اور شاید یہ دولت مشترکہ وغیرہ کی نوبت ہی نہ آسکے، واللہ اعلم۔
نکتہ نمبر 3 میں مسلمانوں کے باہمی تعلقات کی تعبیر کے لیے قومیت اور اخوت کی اصطلاحات کے ذریعے بلاوجہ کا خلط مبحث پیدا کیا گیا ہے۔ جن باتوں کی بنیاد پر یہ نکتہ پیش کیا گیا ہے، اس کے بعد پلوں کے نیچے بہت سا پانی بہہ چکاہے۔ اب تو اسلامی تحاریک کے لوگ خوب بڑھ چڑھ کر مغربی ممالک میں ہجرت کر رہے ہیں اور وہاں دعوت، تنظیم اور تربیت کے کاموں میں وقت لگا کر اپنا دینی فرض ادا کر رہے ہیں۔ گویا اب یہ نکتہ متنازعہ نہیں رہا ہے۔ ویسے یہ جاننا خالی از فائدہ نہ ہوگا کہ اگرچہ مولانا مودودی نے امت مسلمہ کا مشن ایک عالگیر اسلامی ریاست قائم کرنا بتایا ہے، جس کے لیے دراصل یہ خدائی فوجداروں کی جماعت ہے تاہم جب عملی حقائق کا سامنا ہوا تو انہوں نے بھی تکثیریت (pluralism) کا نظریہ قبول کر لیا۔ سورۃ الانفال کی آیات 72-73 کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’یہ آیت اسلامی حکومت کی خارجی سیاست پر بھی اثر ڈالتی ہے۔ اس کی رو سے دولت اسلامیہ کی ذمہ داری ان مسلمانوں تک محدود ہے جو اس کی حدود کے اندر رہتے ہیں۔ باہر کے مسلمانوں کے لیے کسی ذمہ داری کا بار اس کے سر نہیں ہے۔ یہی وہ بات ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں فرمائی ہے کہ انا بری من کل مسلم بین ظھرانی المشرکین۔'میں کسی ایسے مسلمان کی حمایت و حفاظت کا ذمہ دار نہیں ہوں جو مشرکین کے درمیان رہتا ہو'۔ اس طرح اسلامی قانون نے اُس جھگڑے کی جڑ کاٹ دی ہے جو بالعموم بین الاقوامی پیچیدگیوں کا سبب بنتا ہے کیونکہ جب کوئی حکومت اپنے حدود سے باہر رہنے والی بعض اقلیتوں کا ذمہ اپنے سر لے لیتی ہے تو اس کی وجہ سے ایسی الجھنیں پڑ جاتی ہیں جن کو بار بار کی لڑائیاں بھی نہیں سلجھا سکتیں۔‘‘ اس سلسلے میں مولانا اور ظفر احمد صاحب عثمانی کے درمیان ایک دلچسپ مراسلت بھی ہوئی جس میں مولانا مودودی نے اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کی۔ یہ مناقشہ رسائل و مسائل حصہ اول میں دیکھا جاسکتا ہے۔ اگرچہ یہ نقطہ نظر مولانا کی ان اصولی تعبیرات سے مختلف ہے جو انہوں نے جہاد و قتال کی نصوص کے ضمن میں تفہیم القرآن میں دوسرے مقامات پر پیش کی ہیں تاہم عمل کے دائرے میں یہ ایک غیر معمولی قدر و قیمت کا اجتہاد ہے۔
نکتہ 4 میں کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے کسی گروہ کو کافر نہیں قرار دیا جاسکتا چاہے وہ کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو کیونکہ یہ حق صرف اللہ تبارک و تعالی کا ہے۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو غامدی صاحب پارلیمان کے حق قانون سازی پر بجا طور پر زور دیتے ہیں جیسا کہ نکتہ 8 کے ذیل میں انہوں نے بیان کیا ہے، دوسری طرف اگر وہی پارلیمان قانون سازی کرکے احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دے تو انھیں اس پر اعتراض ہے۔ سمجھ میں نہیں آتا، باہم متناقض اور متباین باتوں کو ایک ساتھ کیسے شدومد کے ساتھ پیش کیا جا سکتا ہے۔
نکتہ 5 میں فرماتے ہیں کہ شرک، کفر اور ارتداد یقیناً سنگین جرائم ہیں، لیکن ان کی سزا کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو نہیں دے سکتا۔ یہ خدا کا حق ہے۔ قیامت میں بھی ان کی سزا وہی دے گا اور دنیا میں بھی، اگر کبھی چاہے تو وہی دیتا ہے۔ یہ نکتہ دراصل ایک طویل بحث کا خلاصہ ہے جو انہوں نے اپنی دوسری تحریروں میں کی ہے۔ یعنی اصل بات کچھ یوں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اقدامی یعنی offensive جہاد کیے یعنی جو اپنے دفاع میں نہ تھے بلکہ کفار اور مشرکین پر پیش قدمی کی گئی تھی تو بقول غامدی صاحب جب رسول اپنے مخاطبین پر اتمام حجت کردیتا ہے، پھر ان میں سے جو مان کر نہیں دیتے ان کے لیے پھر خدا عذاب کا فیصلہ کر دیتا ہےاور ان کا زندہ رہنے کا حق سلب ہوجاتا ہے۔ پچھلی قوموں پر یہ عذاب زلزلے، آندھی اور طوفان وغیرہ کی صورت میں آئے، لیکن رسول پاک ﷺ کے وہ مخاطبین جو اتمام حجت کے بعد اپنے کفر یا شرک پر قائم رہے یا ارتداد کیا تو کیونکہ رسول ہونے کی وجہ سے وہ اس زمین پر اللہ کی عدالت تھے تو انہوں نے اُن مشرکوں، کافروں اور مرتدوں کا خاتمہ تلوار کے ذریعے کیا۔ گویا اللہ کا عذاب رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کی تلواروں کے ذریعے آیا۔ چنانچہ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کے اقدامی جہاد بلکہ مرتد کے قتل کی سزا، سب اسی قبیل سے ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے بعد اب اس کا دروازہ بند ہے کیونکہ اب کوئی اور نبی نہیں آنے والا اور غیر نبی کو خدائی عذاب دینے کی اجازت نہیں۔ رسول اللہ ﷺ کے بعد اب جہاد صرف مظلوم کی مدد کے لیے ہوسکتا ہے یا علیٰ ہذا القیاس دفاعی جہاد کہ وہ تو دنیا کے ہرقانون کی رو سے جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو اقدامی جہاد خلفائے راشدین اور صحابہ نے کیے تھے، غامدی صاحب انھیں رسول ﷺ کے کام کا ہی تسلسل مانتے ہیں، جیسا کہ ان کے ایک شاگرد نے بصراحت لکھا ہے۔ کس مقام پر جا کر یہ تسلسل ختم ہوتا ہے اور اس پر پابندی لگتی ہے، کبھی غامدی صاحب یا ان کے شاگردوں نے واضح نہیں کیا۔ اگر غامدی صاحب ہی کی بات مان لی جائے تو رسالت محمدی علی صاحبہا الصلاۃ و سلام تو قیامت تک کے لیے تمام انسانوں کے لیے ہے، سورۃ الجمعہ میں آپ ﷺ کی دو بعثتیں بیان کی گئی ہیں، ایک آپ ﷺ کے ہم عصروں کے لیے اور دوسری ان لوگوں کے لیے جو بعد کو آئیں گے۔ چنانچہ آج اگر ایک ریاست منہاج نبوت کے طرز پر قائم ہوجائے تواس کا یہ حق آپ کیسے سلب کرسکتے ہیں کہ وہ اقدامی جہاد نہیں کرسکتی؟ البتہ نظری طور پر یہ حق ہونے کے باوجود عملی وجوہات کی بنا پر یہ ناممکن ہوسکتا ہے کیونکہ آج کی ریاستیں بہت سے معاہدوں جیسے یو این چارٹر وغیرہ کی وجہ سے کسی دوسرے ملک پر فوجی اقدام نہیں کرسکتیں الّا یہ کہ وہ کوئی سپر پاور ہو کہ وہ کسی قانون کی پابند نہیں ہوتی۔
نکتہ نمبر 6 اور 7 جہاد سے متعلق ہیں۔ لاریب جو کچھ آنجناب نے لکھا ہے عین حق ہے کہ مسلمانوں کو جہاد کا حکم ان کی انفرادی حیثیت میں نہیں، بلکہ بحیثیت جماعت دیا گیا ہے اور یہ کہ جہاد میں اسلامی اخلاقیات کا پورا پورا خیال رکھا جانا چاہیے۔ ان دونوں امور میں اسلامی تحریکیں ہوں کہ مذہبی جماعتیں کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا۔ مولانا مودودی نے تو 1948ء میں کہہ دیا تھا کہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لینا اس وقت جائز ہوگا جب حکومت پاکستان اس کا اعلان کرے اور اب 2015ء میں سراج الحق صاحب یہی بات کہہ چکے ہیں، گویا جماعت اسلامی کا تسلسل کے ساتھ یہی موقف ہے۔ جماعت چاہے تو اس کو اُس بیانیہ کا جز بنالے جو اوپر دستور سے اخذ کرکے درج کیا گیا ہے، اگرچہ یہ وہاں بھی موجود ہے لیکن زیادہ مئوکد طریقے سے لکھ دینے سے ہی فائدہ ہوگا۔ یہ جاننا فائدے سے خالی نہ ہوگا کہ جماعۃ الدعوہ حافظ سعید صاحب سے سہیل وڑائچ صاحب نے سوال کیا تھا کہ مولانا مودودی تو پرائیویٹ جہاد کے خلاف تھے اور صرف ریاست ہی کی قیادت میں اس کو درست تسلیم کرتے تھے، پھر آپ کیسے اس راہ پر چل نکلے ہیں تو حافظ صاحب نے مولانا مودودی کی رائے کو درست تسلیم کیا تھا البتہ اپنے پرائیوِٹ جہاد کی ایک توجیہ پیش کی تھی جس کا ذکر یہاں غیر ضروری ہے۔
نکتہ 8 میں آں محترم نے قرآنی حکم وامرھم شوری بینھم کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمانوں کی حکومت ان کے مشورے سے قائم ہوگی۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئےگا۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں گے۔ جو کچھ مشورے سے بنےگا، وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکےگا۔ حق یہ ہے کہ جو کچھ جناب نے فرمایا ہے بعینہ اس بیانیہ میں موجود ہے جو مولانا مودودی نے پیش کیا تھا بلکہ آپ نے وہیں سے اخذ کیا ہے اور اس کا اعتراف بھی کیا ہے. پھر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ دہشت گردی کے فساد کی ذمہ داری بھی اسلامی تحریکوں پر ڈا لے دے رہے ہیں!
نکتہ 9 میں فرماتے ہیں: ’’مسلمانوں کی حکومت اگر کسی جگہ قائم ہو تو اس سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کیا جانا ایک مغالطہ انگیز تعبیر ہے، اس لیے کہ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ اسلام میں حکومت کو یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شریعت کے تمام احکام ریاست کی طاقت سے لوگوں پر نافذ کر دے۔ پھر لکھتے ہیں کہ اسلامی شریعت میں دو طرح کے احکام ہیں، ایک جو فرد کو بحیثیت فرد دیے گئے ہیں، اور دوسرے جو مسلمانوں کے معاشرے کو دیے گئے ہیں، پہلی قسم کے احکام خدا اور بندے کے درمیان ہیں اور بندہ اس میں کسی حکومت کے سامنے نہیں بلکہ اپنے پروردگار ہی کے سامنے جواب دہ ہے۔ لہٰذا دنیا کی کوئی حکومت اسے مثال کے طور پر، روزہ رکھنے یا حج عمرہ کے لیے جانے یا ختنہ کرانے یا مونچھیں پست رکھنے اور وہ اگر عورت ہے تو سینہ ڈھانپنے، زیب وزینت کی نمائش نہ کرنے یا اسکارف اوڑھ کر باہر نکلنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتی۔ اس طرح کے معاملات میں تعلیم و تربیت اور تلقین و نصیحت سے آگے اس کے کوئی اختیارات نہیں ہیں (اس دعوے کی کوئی دلیل محترم نے نہیں دی ہے)۔ رہے دوسری قسم کے احکام تو وہ درحقیقت دیے ہی حکومت کو گئے ہیں۔ علماء ارباب حل و عقد سے ان پر عمل کا مطالبہ کریں تو یقیناً حق بجانب ہوں گے اور اپنے منصب کے لحاظ سے ان کو کرنا بھی چاہیے۔ مگر یہ شریعت پر عمل کی دعوت ہے، نفاذ شریعت کی تعبیر اس کے لیے بھی موزوں قرار نہیں دی جا سکتی۔‘‘ یہ باہم متضاد باتیں غامدی صاحب کیسے بیک وقت نباہتے ہیں، ایک سانس میں کہتے ہیں کہ حکومت سے نفاذ شریعت کا مطالبہ کرنا غلط ہے، دوسری سانس میں فرما رہے ہیں جو احکام مسلمانوں کے معاشرے کو دیے گئے وہ دراصل حکومت کے کرنے کا کام ہے (یعنی نافذ کرنا چاہیے!) لیکن اس کو نفاذ شریعت کہنے کے بجائے شریعت پر عمل کہنا چاہیے! یا للعجب، کوئی بتلائے کہ ہم بتلائیں کیا؟ اس سے پہلے نکتہ اول میں فرما چکے تھے کہ ریاست کا کوئی مذہب وغیرہ نہیں ہوتا اور یہ نری حماقت ہے کہ کسی قرارداد مقاصد کے ذریعے اس کو مسلمان کرنے اور آئینی طور پر اس کا پابند بنانے کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بنایا جائے گا اور اس نکتہ نمبر 9 میں اور اس کے 6 عدد ذیلی نکات میں اسلامی حکومت کے کرنے کے کام بتائے جارہے ہیں۔ یہ تضادات کس طرح غامدی صاحب کی تالیف قلب کرتے ہیں؟ اگرچہ اس نکتے کے چھ عدد ذیلی نکات میں صحیح باتیں بھی ہیں جن سے کوئی ہوشمند انکار نہ کرے گا، لیکن کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن پر کلام کیا جاسکتا ہے۔ بعض باتیں بلا دلیل لکھ دی گئی ہیں، مثال کے طور پر حکومت زکوٰۃ کے علاوہ کوئی ٹیکس نہیں لگا سکتی یا مثلاً قتل اور فساد فی الارض کے سوا موت کی سزا کسی جرم میں بھی نہیں دی جائے گی، وغیر ہ، لیکن فی الحال ان پر گفتگو کرنے کا یہ موقع نہیں ہے۔
آخری نکتہ نمبر 10 میں ارشاد فرماتے ہیں کہ نظم اجتماعی سے متعلق یہ شریعت کے احکام ہیں اور اس تنبیہ و تہدید کے ساتھ دیے گئے ہیں کہ جو لوگ خدا کی کتاب کو مان کر اس میں خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے، قیامت کے دن وہ اس کے حضور میں ظالم، فاسق اور کافر قرار پائیں گے، تاہم مسلمانوں کے ارباب حل و عقد اگر اس کے باوجود اس معاملے میں کوتاہی کے مرتکب ہوتے یا سرکشی اختیار کر لیتے ہیں تو علماء و مصلحین کی ذمہ داری اس کے سوا کچھ نہیں ہے کہ وہ انہیں دنیا اور آخرت میں اس کے نتائج سے خبردار کریں۔ وہ اپنی قوم اور اس کے ارباب حل و عقد کے لیے داروغہ نہیں بنائے گئے کہ اپنے پیروکاروں کے جتھے منظم کر یں اور بندوق کے زور پر انہیں شریعت کا پابند بنانے کی کوشش کریں۔ سوال یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں میں سے کون یہ تشدد کر رہا ہے جس کے لیے اس جوابی بیانیے کی ضرورت پڑی ہے؟
جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں ان گزارشات کو یہیں ختم کرتا ہوں، بہت سی باتیں جو دوسرے اہل علم جنگ اخبار کے صفحات پر لکھ چکے تھے، ان کی تکرار سے میں نے گریز کیا ہے ۔ صرف غامدی صاحب کے تضادات کو نمایاں کیا ہے اور مثبت طریقے سے اسلامی تحریک کا بیانیہ پیش کیا ہے، جو صدیوں کے اسلامی فکر و عمل پر مبنی ہے جس کا مبداء قرآن و سنت رسولﷺ اور منتہا سلف سے خلف تک صلحائےامت کا طرز فکر و عمل ہے، جو اب بھی جاری ہے اور جس پر عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ انفرادی آوازیں جو اٹھتی رہی ہیں اور رہیں گی، وہ ژولیدہ فکری، مغرب سے مرعوبیت، اور حسد کا شاخسانہ ہیں، لیکن وقت کی کسوٹی پر یہ تفردات آہستہ آہستہ ختم ہوتے جاتے ہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • محترم غامدی کے لئے۔ وہ واں نہیں وہاں سے نکالے ہوئے تو ہیں۔ کعبے کو ان بتوں سے نسبت ھے دور کی۔ محترم غامدی صاحب کو اگر اس وقت جماعت نہ نکالتی بلکہ حکمت کے ساتھ