ہوم << کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟ مجیب الحق حقی

کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟ مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی کوئی بھی معقول سوال اُٹھانا کسی بھی طرح غلط قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس پر چراغ پا ہونا جذباتیت اور کمزوری کی نشانی ہے۔ ہر معقول سوال کا جواب حقائق کی روشنی میں دیا جانا ضروری ہے تاکہ لاعلم لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا نہ ہوں۔
کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟
اس سوال پر پچھلے دنوں بحث کی ایک جذباتی فضا قائم ہوئی جو مختلف رخوں پر چل پڑی جس کی وجہ سے اصل سوال پیچھے رہ گیا۔ اب کیونکہ یہ سوال پاکستان کی ریاست کے تناظر میں ہے تو اس کا جواب اسی حوالے سے تلاش کیا جائے گا۔ مگر اس سے پہلے کچھ بنیادی باتوں کی وضاحت ضروری ہے۔
ریاست ایک خودمختار سیاسی اکائی کا نام ہے۔ زمین کے ایک خطّے پر موجودکسی سیاسی اکائی میں رہائش پذیر باشندے یہ طے کرتے ہیں کہ ان کے طرز ِزندگی کے معاشرتی، معاشی اور قانونی پیرائے کیا ہوں گےاور اسی کی وضاحت کے لیے ایک آئین بنایا جاتا ہے۔ یہ ایک بنیادی دستاویز ہوتی ہے جو ملکی معاملات کے عمومی رخ کا تعیّن کرتی ہے۔ عوام آئین کے ذریعے اس ملک کا نام اورنظریہ متعیّن کرتے ہیں۔ مختلف اداروں جیسے عدلیہ، انتظامیہ، پارلیمنٹ وغیرہ کی تخلیق ہوتی ہے۔ آئین میں تمام اداروں کے دائرہ کار کی وضاحت کی جاتی ہے جن کا کام ملکی امور کو چلانا ہوتا ہے۔ یعنی آئین ایسا محور ہے جس کے چاروں طرف ریاستی ادارے گردش کرتے ہیں، دوسرے لفظوں میں ریاست مختلف اداروں کے مجموعے کا نام ہے جو کسی مخصوص زمینی خطّے کے معاشرتی نظم و ضبط اور انتظام کے ذمّہ دار ہوتے ہیں۔
ریاست اور اس کے مقتدر اداروں کے دائرہ عمل کے پیرائے کے تعیّن میں سب سے اہم عامل عوام کا چنیدہ مقتدر ِاعلیٰ ہے یعنی عوام کا یہ طے کردینا کہ ملک میں قوانین کا اجراء اور اطلاق کس کی صوابدید پر ہوگا۔ دنیا میں عمومی طور پر جمہوریت ہی رائج ہے جس میں عوام ہی اقتدار ِاعلیٰ کے حامل قرار پاتے ہیں۔ اگر عوام نے آئین میں یہ طے کرلیا ہے کہ اقتدار ِاعلیٰ کے مالک عوام ہوں گے تو اس صورت میں ریاست کا ایک متعیّن کردار ہوگا جو اُس آئین کےمقابلے میں بالکل مختلف ہوگا جس میں اقتدار ِاعلیٰ عوام کے بجائے کسی ایک انسان کو دیا جائے جیسے کہ بادشاہت یا کوئی مخصوص گروہ ۔یہ بھی طے ہوسکتا ہے کہ ریاست کا کوئی مذہب ہوگا یا نہیں۔
اس ضمن میں پاکستان کا آئین جمہوریت کی ایک بالکل مختلف شکل لیے ہوئے ہے۔ یہ کسی فرد یا عوام کا اقتداراعلیٰ تسلیم نہیں کرتا بلکہ یہ خالق کائنات یعنی اللہ کو اقتداراعلیٰ کا حامل قرار دیتا ہے۔ قرارداد ِمقاصد پاکستان کے آئین کا حصّہ ہے جو اس کے مقتدر ِاعلیٰ کی نشان دہی اور پاکستان کی بحیثیت ایک مسلم ریاست تصدیق کرتی ہے اور وضاحت کرتی ہے کہ مملکت میں قانون سازی اللہ کے احکامات کے بموجب ہی ہوگی۔ یہاں پارلیمنٹ اس بات کی مکلّف تو ہے کہ مناسب قانون سازی کرے مگر قرآن اور سنّت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔ یاد رہے کہ پاکستان کی آئین ساز پارلیمنٹ نے خود اپنے اوپر یہ قدغن برضا و رغبت لگائی ہے۔ اس مقصد کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل کا مشاورتی آئینی ادارہ ہے جو قانون سازی پر مشورے دیتا ہے۔ گویا پاکستان میں ریاست اور اس کا آئین باقی دنیا سے مختلف ایک منفرد شکل میں موجود ہیں، لہٰذا اس اہم فرق کو سمجھے بغیر دنیا کے دوسرے جمہوری ممالک میں رائج قوانین اور وہاں کی جمہوری روایات اور مروّجہ جمہوری رویّوں کے حوالے سے پاکستان کا مقابلہ کرنا اور اُسی تناظر میں کوئی رائے قائم کرنا غیر حقیقت پسندانہ اور نامناسب ہے۔
اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ کیا ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے؟
جس طرح دیگر جمہوری اور سیکولر ممالک میں جہاں عوام مقتدر ِاعلیٰ ہیں، ریاست کسی شخص یا گروہ کے عقائد کے بارے میں خاموش اور لاتعلّق رہتی ہے، اسی طرح پاکستان میں موجود تمام مذاہب کے پیروکار آئین کے تحت عقائد اور اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی میں آزاد ہیں او رریاست کسی بھی شخص کے عقیدے اور ایمان میں مداخلت نہیں کرتی اور نہ ہی کسی کے عقیدے یا مذہب کا سرٹیفکیٹ جاری کرتی ہے، لیکن اگر ملک میں کسی نظریاتی یا مذہبی پہچان کےسنگین تنازعے کی صورت میں ایسی غیرمعمولی صورتحال پیدا ہوتی ہے کہ اس کے اتّحاد اور اقتدار اعلیٰ کے وقار پر زد پڑتی ہو تو منطقی طور پر اس صورت میں ریاستی ادارے اس تنازعے میں اپنا آئینی کردار ادا کریں گے۔ یعنی اگر ایک مذہبی گروہ اُٹھ کر ایسا دعویٰ کردے جس سے اللہ کے دین سے منسوب متفقہ بنیادی عقائد کے حوالے سے معاشرے میں سنگین محاذ آرائی کا خدشہ ہو تو اس صورت میں متعلّقہ ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہوگی کہ وہ صورتحال کاگہرا جائزہ لے کر اس گروہ کے عقائد کے بارے میں ایک فیصلہ کریں۔
مثلاً اگر کوئی گروہ اسلام کے بنیادی عقائد سے ٹکّر لیتا ہوا کوئی نظریہ لے کر اُٹّھے جیسے زکوٰۃ کا انکار کر دے یا رسالت، نماز اور حج کے حوالے سے ایک ایسا نیا نظریہ لے کر اُٹھے جو متفّق عَلیہ عقائد کو چیلنج یا ان کا انکار کرتا ہو، اور مزید یہ کہ وہ گروہ یہ دعویٰ بھی کرے کہ ان کا پیش کردہ نظریہ ہی صحیح اسلام ہے اور وہ ہی صحیح مسلمان ہیں اور باقی تمام کافر، تو ظاہر ہے کہ معاشرے میں تناؤ اور سنگین ٹکراؤ کا خطرہ پیدا ہوگا۔گویا کسی گروہ کی طرف سے کسی انتہائی بنیادی عقیدے کی نفی کے بعد مسلمان ہونے کا دعویٰ ایک جارحانہ فعل ہوگا، جس کی وجہ سے معاشرے میں بے چینی اور انتشار کا خدشہ ہو سکتا ہے۔ اس تنازعے کوریاست مفاد ِعامّہ میں نہ صرف مقامی بلکہ بین الاقوامی اسلامی اسکالرز اور علماء کی رائے اور عوام النّاس کی خواہشات کی روشنی میں ہی حل کرنے کی پابند ہوگی۔ ایسی کسی غیرمعمولی صورتحال میں متعلّقہ مجاز مرکزی اور مقتدر ریاستی اداروں کی ذمّہ داری ہوگی کہ وہ صورتحال کا جائزہ لے کر مملکت کے استحکام کے لیے مستند علماء کی رائے اور عوامی سروے کے ذریعے رائے عامّہ کی روشنی میں مناسب فیصلہ کریں اور اگر سب کی رائے ان نظریات کے خلاف ہو تو اس گروہ کے دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کر کے ان کی اسلام کے حوالے سے حیثیت کا تعیّن اس طرح کردیں کہ اگرچہ وہ گروہ اپنے عقیدے کو رکھنے میں تو آزاد ہو لیکن ریاست کی نظر میں وہ غیر مسلم گردانا جائے۔
یہ واضح رہے کہ کیونکہ وہ گروہ عوام اور خواص کی رائے میں اللہ یعنی مملکت ِپاکستان کے مقتدر ِاعلیٰ کی قائم کی گئی حدود سے بغاوت کا مرتکب ہوتا یا دوسرے لفظوں میں پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کو چیلنج کرتا ہے تو ریاست ِپاکستان اپنے اقتداراعلیٰ کی حُرمت کا تحفظ کرتے ہوئے ان کو مسلمان تسلیم کرنے سے انکار کر سکتی ہے۔ مزید یہ کہ ریاست کے مجاز ادارے مستقبل میں کسی ممکنہ شورش، نسل کشی یا خانہ جنگی کے تدارک کے طور پر اس فیصلے کو آئینی تحفّط دے سکتے ہیں تاکہ مذہبی جذبات انتہا پسندی میں تبدیل نہ ہوں اور سب کی جان اور مال محفوظ رہیں۔ یہ فیصلہ ریاست کا فیصلہ ہی گردانا جائےگا۔ اسی طریقے سے ریاست کے اقتدار اعلیٰ کی حفاظت ہوسکتی ہے ورنہ انتشار کی حالت میں ریاست کی وحدت بھی کمزور پڑسکتی ہے۔ ایسی کسی صورتحال پر قابو پانے کے قانونی اقدامات کے بعد بھی آئین کے تحت کسی بھی گروہ یا اقلّیت کے بنیادی انسانی حقوق پر کوئی قدغن نہیں ہوتی۔ یورپ میں حالیہ سالوں میں آئین اور جمہوریت کے بل پر مسلمان خواتین کے حق ِلباس کو، خواہ کسی بھی جواز پر، محدود کرنا حالانکہ ان کے بنیادی حق پر صریح قدغن ہے لیکن اس کو قانونی شکل دی گئی ہے۔گویا مثالی جمہوریت بھی اپنی اقدار کی حفاظت کے لیے غیر معمولی حالات میں ایسے فیصلے کرتی ہے ۔
یہ بات واضح رہے کہ ریاست آئین میں متعیّن پیرائے کے مطابق عمل کرنے کی پابند ہے۔ کیونکہ پاکستان آئینی طور پر اسلامی ملک ہے اور اقتداراعلیٰ عوام کے بجائے اللہ کا ہے تو اس کے قوانین اسلامی اصولوں کے تحت ہی بنائے اور چلائے جائیں گے اور پاکستان کی ریاست اسلام کے معیّن اور متّفق علیہ بنیادی عقائد کے تحفّظ اور احترام کی ذمّہ دار ہے اور رہے گی۔
یہ بھی واضح رہے کہ عوام کی دل آزاری کے بعد اگر عوام کی اکثریت فطری ردِّعمل میں کسی گروہ کا معاشرتی مقاطعہ یا بائیکاٹ کرتے ہیں یا ایک اقلّیت عوامی سطح پر نظرانداز کی جاتی ہے تو اس کو ریاست کی جانبداری یا انتقامی قدم قرارنہیں دیا جاسکتا۔ ایسی صورتحال محض ایک معاشرتی مسئلہ ہوگا جو کہیں بھی مختلف حالات میں دنیا میں ہوتا رہتا ہے۔
اکثر حضرات جب پاکستان کے حالات کا تقابل دنیا میں جاری جمہوری روایات اور اقدار سے کرتے ہیں تو انہیں یہاں پر انسانی حقوق اور آزادی اظہار پر قدغن کے حوالے سے کچھ مغالطے ہوتے ہیں لیکن پاکستان کے آئین اور رائےعامّہ کو سامنے رکھا جائے تو آئین اور قراردادمقاصد کی روشنی میں ہی اقدامات کو قانونی حیثیت حاصل ہوگی اور یہ بات دنیا پر عیاں ہے، اسی لیے پاکستان میں ایسے اقدامات پر قانونی نہیں بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے ہی اعتراض کیا جاتا ہےاور مذکورہ مسائل کے حوالے سے پاکستان کے آئین میں ترمیم اور تبدیلی کے مطالبے کیے جاتے ہیں. پاکستان کے آئین کی یہ انفرادیت یہاں کے سابقہ اشتراکیوں کوگراں گزرتی ہے اور آپ اکثر کچھ احباب کو قراردادمقاصد پر غصّہ اتارتے دیکھتے ہیں۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں عقیدے کے حوالے سے کی گئی ترامیم مکمّل قانونی ہیں اور پاکستانی ریاست کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ غیرمعمولی حالات میں غیرمعمولی فیصلے کرے۔