ہمارے ایک ہم عمر رشتہ دار نے بچپن میں، جبکہ ہماری عمریں کوئی آٹھ دس سال کے لگ بھگ ہوں گی، مجھے یہ کہہ کر حیران کردیا کہ:
’’ابھی میں اپنے ابو کا بیٹا ہوں مگر جب بڑا ہوجاؤں گا تو بھائی بن جاؤں گا۔‘‘
آج جب ایک دوست نے اپنے کچھ گھریلو مسائل شیئر کیے تو یکایک وہ جملہ یاد آگیا۔ دوست کی تین چار بیٹیاں ہیں اور خود روزگار کے سلسلہ میں بیرون ملک مقیم ہیں۔ شکایت یہ تھی کہ بیٹیاں، اپنی ماں کا کہنا نہیں مانتیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ اسے تنگ کرتی ہیں، گھر کے کام کاج یا اسکول کی پڑھائی کے حوال سے ماں کی حکم عدولی کرتی ہیں۔ تفصیلاََ بات سننے کے بعد میں نے اپنے فہم کے مطابق انہیں کچھ مشورے دیے۔ اس طرح کے مسائل چوں کے تقریباََ سانجھے ہوتے ہیں لہٰذا والدین کے لیے چند تجاویز ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو آزما کر دیکھ لیں، ہوسکتا ہے کہ کچھ بہتری محسوس ہو۔
باپ بیٹے، ماں بیٹیاں آپس میں بے تکلف دوست ہونے چاہییں:
اکثر دیکھا گیا ہے کہ بیٹے جب گھر سے باہر قدم رکھنے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو باپ کو شکایت پیدا ہوجاتی ہے کہ اس کا بیٹا سارا دن باہر دوستوں کے ساتھ رہتا ہے، گھر کا رخ نہیں کرتا یا باپ کو وقت نہیں دیتا۔ کبھی کسی نے سوچا کہ اس طرح کیوں ہوتا ہے اور اس کی کیا وجہ ہے؟ میں آپ کو اس کی وجہ بتاتا ہوں، وہ یہ کہ باپ نے، بیٹے کو اب تک ’’بیٹا‘‘ ہی رکھا ہوا ہے، اسے اپنا دوست نہیں بنایا۔ دوستی سمجھتے ہیں ناں؟ ایسا شخص جس کے ساتھ انسان گفتگو کرتے ہوئے اکتاہٹ محسوس نہ کرے، جس کے سامنے بلاجھجھک اپنا حال دل بیان کرسکے، جس کی طرف سے تنقید، تحقیر، تمسخر اور ذہنی و جسمانی ایذا کا شائبہ تک نہ ہو۔ جو غلطی معلوم ہونے پر بھی ایک دوست کی طرح رہنمائی کرے، نہ کہ کسی پولیس افسر کی طرح سرزنش اور بعدازاں تشدد سے کام لے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ نرمی اور پیار میں ایسا جادو ہے کہ پتھر بھی گھل کر موم بن جاتے ہیں۔
آپ کو حضرت زید بن حارثہ رضہ کا واقعہ تو یاد ہی ہوگا، جو غلام بن کر آپﷺ کی خدمت میں آئے تھے اور جب ان کے والد اور چچا ڈھونڈتے ڈھونڈتے ان تک پنہچے اور ساتھ چلنے کا کہا تو انہوں نے صاف انکار کردیا اور کہا کہ محمدﷺ کی غلامی پر کئی آزادیاں قربان۔ حالانکہ اس وقت تک آپﷺ ابھی نبی نہیں بنے تھے۔ یہ سب کیا تھا۔ والدین اور گھر کی آزاد زندگی کے بجائے، غلامی کو ترجیح۔ دراصل اس قلیل عرصہ میں حضرت زید رضہ کو حضورﷺ کی طرف سے وہ قربت اور محبت ملی جو شاید انہیں اپنے والدین کی طرف سے بھی نہ ملی تھی۔ اسی طرح حضورﷺ کے خادم خاص، حضرت انس، جو خود ایک نوجوان لڑکے تھے، کہتے ہیں کہ حضورﷺ نے مجھے کبھی نہیں ڈانٹا، نہ یہ کہا کہ فلاں کام کیوں کیا اور فلاں کیوں نہ کیا۔ ہمارے یہاں ’’والدین کے احترام‘‘ کے نام پر ایک طرح کا مارشل لاء لگا ہوتا ہے جس میں ایک کمزور اور بے بس مخلوق، گھٹن اور خوف کے ماحول میں سانس لے رہی ہوتی ہے۔ ایسے ماحول میں ’’احترام اور خوف‘‘ ایک دوسرے کے برابر ہوجاتے ہیں، جبکہ ’’محبت اور احترام‘‘ کو برابر ہونا چاہیے تھا۔ لہٰذا، سمجھ لیجیے کہ دل کا معاملہ بلکل مختلف ہوتا ہے، یہ جس جگہ ضد کرکے بیٹھ جائے، دنیا کی کوئی طاقت اسے وہاں سے ٹال نہیں سکتی اور جس رخ پر چلنے سے انکار کردے، کوئی اسے اس طرف چلا نہیں سکتا۔ یہ وہ دولت ہے جو کبھی بھی سختی اور ڈنڈے کے زور پر حاصل نہیں کی جاسکتی۔
اس لیے باپ کو چاہیے کہ وہ اپنے بیٹے کا دوست بن جائے۔ اس کو اس بات پر ابھارے کہ وہ اپنے دل کی بات زبان پر لاسکے، اس کا تکلف اور ڈر دور کرے، اس کی الجھنوں کو سمجھے، اس کی دلچسپیوں کو جانے، اس کی پسند اور ناپسند کو پہچانے۔ پھر جہاں جہاں رہنمائی یا اصلاح کی ضرورت محسوس ہو، ایک مخلص دوست کی طرح اصلاح بھی کرے اور ایک خیرخواہ انسان کی طرح رہنمائی بھی۔
اسی طرح ماں اور بیٹیوں کا معاملہ ہے۔ بیٹی کا معامالہ، بیٹے سے تھوڑا سا یوں مختلف ہوتا ہے کہ لڑکا تو باہر جا کر بھی دوست بنا لیتا ہے، لڑکی بےچاری کہاں جائے؟ کس سے بات چیت کرے؟ کس کے سامنے اپنا حال دل بیان کرے؟ کس کے ساتھ گپ شپ کرے؟ یہاں سے ماں کا کردار شروع ہوتا ہے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی بیٹی کی دوست بن جائے۔ اس کی بات سنے، اسے اپنا حال دل سنائے۔ باتوں ہی باتوں میں اس کی ذہن سازی اور تربیت کا فریضہ سرانجام دے، لیکن اس طرح نہیں کہ گھر میں ہر وقت درس قرآن والا ماحول بنا رہے، بلکہ نہایت ہلکے پھلکے اور گپ شپ کے انداز میں سب کام ہونا چاہیے۔
میں تو کہتا ہوں کہ نیکی اور تبلیغ کا کام بھی ہمیں شیطان سے سیکھنا چاہیے۔ آپ نے آج تک کہیں ایسا نہیں دیکھا ہوگا کہ شیطان بندوق لے کر سامنے آجائے اور کہے کہ فلم دیکھو، شراب پیو یا فلاں غلط کام کرو۔ وہ ہمیشہ خیرخواہ دوست کی صورت ہی میں سامنے آتا ہے اور بڑے پیار سے اپنے شکار کو اپنے شکنجہ میں دبوچ کر لے جاتا ہے۔ وہ ایک ہمدرد کے روپ میں آتا ہے اور انسان کو بہکا کر ساتھ لے جاتا ہے جیسا کہ اس نے رو رو کر حضرت آدم اور اماں حوا کو اپنی خیرخواہی کا یقین دلوایا تھا، پھر ان سے اللہ کی نافرمانی کا کام کروایا۔
لڑکا ہو یا لڑکی، بارہ تا اٹھارہ سال کی عمر بڑی نازک ہوتی ہے۔ اس عرصہ میں وہ جسمانی تبدیلیوں میں سے گذر رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ وقت ہوتا ہے جس میں انہیں سہارے اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ تبدیلیاں ان کے مزاج، معمولات، دلچسپیوں اور سوچ پر نہایت گہرے اثرات ڈال رہی ہوتی ہیں۔ لڑکوں کے اندر اس دؤر میں جوش، جذبہ، ولولہ، شرارت، لاپرواہی، ٖضد، خودسری اور بغاوت کا عنصر عود کر آتا ہے۔ انسان کو چوں کہ زندگی کا ایک لمبا سفر درپیش ہوتا ہے اور نوجوانی کا یہ دؤر اس سفر کے لیے درکار ایندھن کی فراہمی کا وقت ہوتا ہے اس لیے لڑکوں کے اندر یہ بجلیاں اور شرارے بھی عین جوبھن پر ہوتے ہیں۔ اس لیے والدین کو، بجائے گھبرانے یا بیٹے کی کسی حرکت پر ناراض ہوکر ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے، کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پریشان ہونے کے بجائے اسے بٹھا کر غیرمحسوس انداز میں اپنے ماضی کے قصوں کو چھیڑ کر اس طرح درست رخ کی طرف لے آنا چاہیے کہ وہ سمجھ جائے کہ اس طرح کے موقعہ پر کیا طرزعمل درست تھا۔
اسی طرح ماں کو چاہیے کہ بیٹی کے ساتھ بلوغت کے موقعہ پر جسم میں رونما ہونے والی تبدیلیوں پر گپ شپ کرے اور اس کو وقت آنے سے کچھ دن پہلے ہی ذہنی طور پر تیار کرلے۔ بلوغت کے اس عرصہ کے دوران لڑکیوں کے مزاج میں ایسی تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو گھر کے دیگر افراد، جیسے کہ بھائی اور باپ وغیرہ کو پریشان کردیتی ہیں۔ جیسے کہ تنہائی اختیار کرنا، گھر کے کام کاج میں جی نہ لگنا، مزاج میں چڑچڑاہٹ اور گھبراہٹ، جسمانی کمزوری، رات کو دیر تک جاگنا، دن چڑھنے تک سوتے رہنا، اسکول اور پڑھائی سے جی اکتانا وغیرہ۔ چونکہ لڑکوں اور باپ کو بہت سی باتوں کا علم نہیں ہوتا لہٰذا وہ ہر وقت اس طرح کی لڑکی پر ناراض ہوتے رہتے ہیں۔ بہن اگر نماز نہیں پڑھتی تو اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی، لیکن ایسا بھائی جس پر تبلیغ کا بھوت سوار ہو، اسے کھینچ کھینچ کر بستر سے اتارتا ہے، دن میں کئی بار نماز کی اہمیت پر لیکچر دیتا ہے، قرآن کی تلاوت کی تلقین کرتا ہے اور جب دیکھتا ہے کہ بہن ٹس سے مس نہیں ہو رہی تو ہر وقت شکایتیں کرتا نظر آتا ہے۔ اسی طرح باپ اس کو اسکول کے ناغہ پر کوستا ہے، یہ تمام باتیں لڑکی کی شخصیت کو مسخ کرکے رکھ دیتی ہیں۔
اگر ان چند باتوں پر عمل ہوجائے تو ان شاء اللہ گھر کا ماحول درست رہنے کے ساتھ ساتھ، اولاد بھی آپ سے ایک قابل رشک انداز تربیت سیکھ لے گی۔ بس مختصراََ یہی بات ذہن میں رہے کہ آپ ماں باپ کم، دوست زیادہ ہیں، اور اپنے بچوں کو اپنا بچہ سمجھیں۔ ان شاء اللہ ہر طرح کی پریشانی سے محفوظ رہیں گے۔
تبصرہ لکھیے