ابھی دو دن پہلے ہی خبر ملی تھی کہ اِس بار کوئٹہ میں جشن آزادی کی بھرپور تقریب کا اعلان ہوا ہے جو کئی دن تک جاری رہیں گی۔ سچ پوچھیں تو یہ سن کر بہت ہی زیادہ خوشی اور مسرت ہوئی اور یہ اطمینان بھی ہوا کہ چلیں الحمدللہ اب کوئٹہ کے حالات کچھ حد تک بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ لیکن بیرونی طاقتوں کو یہ بھلا کیسے قبول ہوتا۔ یہاں میں ہرگز جذباتی نہیں ہورہا۔ بلکہ طریقہ واردات چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ واقعہ کے پیچھے بہت ہی مضبوط ہاتھ موجود ہے.
پہلے بلوچستان ہائی کورٹ بار کے صدر بلال کاسی کی ٹارگٹ کلنگ ہوئی۔ یہ خبر ہی کیا دکھ دینے کے لیے غم تھی کہ اچانک اُس وقت سول اسپتال میں دھماکا ہوگیا جب بلال کاسی کی میت کو ہسپتال لایا گیا۔ اِس حملے میں اب تک 64 افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ لگ بھگ اتنے زخمی ہیں۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں وکلاء اور صحافی بھی شامل ہیں۔
یہ واقعہ ہماری سیکورٹی ایجنسیوں کے لیے ایک اور ثبوت ہے کہ بیرونی طاقتیں کس طرح پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ اِس لیے جشن آزادی پر قوم کے لیے سب سے قیمتی انعام تو یہی ہوگا کہ ایسے تمام عوامل کو بے نقاب کیا جائے جو یہاں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ پھر چاہے اُس کے پیچھے بھارت ہو یا امریکا۔ میاں صاحب کو بھی چاہیے کہ اب پاکستان کے طیب اردگان بنیے۔ ذاتی مفادات کو پیچھے رکھیے اور تمام ممالک کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہہ دیں کہ اب کسی کے ساتھ کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ جب تک اِس طرح کا سخت رویہ نہیں اپنایا جائے گا اُس وقت تک خوف یہی ہے کہ ہمیں یونہی گاجر مولیوں کی طرح کاٹا جاتا رہے گا!
دہشت گرد کارروائیوں سے جتنا دُکھ ہوتا ہے اِس کا بیان ممکن نہیں، لیکن سچ پوچھیے تو اِس سے زیادہ دُکھ اِس طرح کے بیانات سے ہوتا ہے کہ ’دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ چکی ہے، اِس طرح کے واقعات اُن کی بوکھلاہٹ کا ثبوت ہے‘۔
حکومت اور سیکورٹی اداروں سے کہنا یہ ہے کہ جناب محترم جس دن دہشت گردوں کی کمر ٹوٹ جائے گی تو ہم سب وطن عزیز میں امن و سکون دیکھیں گے، پھر یوں ہر کچھ بعد معصوموں کے جنازے نہیں اُٹھانے پڑیں گے۔ اور سب کو معلوم بھی ہو جائے گا کہ کمر واقعی میں ٹوٹ گئی ہے. اِس لیے بہتر یہی ہے کہ جھوٹے دعوے کرنے کے بجائے آپ کمر توڑنے کے لیے عملی اقدامات کیجیے۔
تبصرہ لکھیے