ہوم << خادم اعلی کے ایک ہسپتال کا قصہ - جہانگیر بدر

خادم اعلی کے ایک ہسپتال کا قصہ - جہانگیر بدر

جہانگیر بدر ہسپتال مریضوں سے بھرا پڑا تھا۔ ایک خاتون شدید درد کی حالت میں ایک بستر پر پڑی تھی۔ اس درد اور کرب میں اس نے ایک نئی زندگی کو جنم دینا اور ایک نئی حیات کو اس دنیا میں لانا تھا۔ اس کا خاوند پاس ہی موجود تھا۔ ڈکٹر نے اس کے خاوند کو بلایا اور اسے خون کا ٹیسٹ کروانے کے لیے کہا۔ خاوند نے پوچھا کہ کتنے پیسے لگیں گے؟ جواب ملا کہ چار سے پانچ سو روپے۔ اس نے اپنی جیب ٹٹولی تو اس کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے۔ اس نے ڈاکٹر کو منت سماجت شروع کر دی کہ اس کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں، لہذا یہ ٹیسٹ ہسپتال ہی سے کروا لیے جائیں۔ اس کی درخواست نہ صرف رد کر دی گئی بلکہ ہسپتال سے بھی باہر نکال دیا گیا۔
یہ اس ملک کی آبادی کے لحاظ سے سب بڑے صوبے اور رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے ڈویژن کے ٹیچنگ ہسپتال میں ہو رہا تھا۔
وہ ہسپتال سے باہر نکلی، آسمان کی طرف دیکھا، ضرور اس نے خدا سے شکوہ کیا ہوگا کہ یہ کیسے ظالم لوگ ہیں؟ کیا انہیں نہیں معلوم کہ مجھ پر کیا گزر رہی ہے؟ کیا ان کی مائوں، بہنوں اور بیٹیوں نے کبھی کسی بچے کو جنم نہیں دیا؟ یہ اتنے بے رحم کیسے ہو گئے ہیں؟ کیا میں انسان نہیں ہوں؟ کیا میرے پیٹ میں ایک ننھا انسان نہیں ہے؟ ایسے درد اور تکلیف میں اگر موت ہوجائے تو عورت شہادت کے رتبہ پر فائز ہو جاتی ہے۔ اس نے خاوند کی آنکھوں میں دیکھا جو اپنی شریک حیات سے نظریں نہیں ملا سکا تھا، اس کی آنکھوں سے بے بسی اور مجبوری کے آنسو ٹپکےاور مٹی میں جذب ہوگئے۔ اس نے اپنے خاوند کی آنکھوں میں آنسو دیکھے تو اپنا درد بھول گئی اور اس کا ہاتھ مضبوطی سے تھام لیا۔ اب بات کرنے کے لیے احساسات ہی کافی تھے اور وہ ایک دوسرے سے دل کی زبان میں بات کرنے لگے۔ اس کے خاوند نے کہا کہ وہ شرمندہ ہے۔ اس نے جواب دیا کہ وہ کوئی پہلی عورت نہیں ہے جو اس اذیت میں مبتلا ہے۔ وہ کوئی پہلی عورت نہیں ہے جسے چند سو روپوں کی خاطراس حالت میں رسوا ہونا پڑا۔ آپ فکر نہ کریں ہر مشکل کے بعد آسانی ہے۔
وہ دونوں ان پڑھ دیہاتی تھے، نہیں جانتے تھے کہ ان کا کوئی ایک خادم اعلی بھی ہے۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ اس صوبے میں ترقی کی رفتار دیکھ کر دوسرے ممالک کے لوگ حیران و پریشان ہیں۔ انہیں کسی نے نہیں بتایا کہ اس سال کتنے لوگوں کے کتنے قرضے معاف ہوئے ہیں؟ ان کو میٹرو کا پتا تھا نہ اورنج کا۔ ورنہ وہ بھی شاید آپس میں بحث کرتے، اونچا اونچا بولتے، ایک دوسرے کو گالیاں دیتے اور اپنا دکھ ہلکا کر لیتے۔ اس سب کو انہوں نے اپنا مقدر سمجھ کر سہہ لیا۔ اور کوئی جگہ نظر نہیں آئی تو وہیں موجود جھاڑیوں کو پردہ بنا لیا۔ بچے نے اس دنیا میں آتے ہی چیخ مار کر اس بات کی شہادت دی کہ اللہ ابھی اپنے بندوں سے مایوس نہیں ہوا۔