ہوم << تعلیمی نصاب میں جہادی آیات کی ضرورت - مونا کلیم

تعلیمی نصاب میں جہادی آیات کی ضرورت - مونا کلیم

مونا کلیم پاکستان میں اسلامی نظریاتی کونسل نے تجویز دی ہے کہ پہلی سے بارھویں جماعتوں کے نصاب تعلیم میں جہاد سے متعلق قرآنی آیات شامل کی جائیں جس کےخلاف امید ہے کہ جلد یا بدیر لبرل طبقہ خم ٹھونک کر میدان میں اترے گا. بہرحال مجھے یہ خبر پڑھ کر پچھلے سال اوباما کی قومی حکمت عملی برائے انسداد دہشت گردی کے اعلان کے بعد امریکی ائیرفورس ریسرچ لیبارٹری کے زیر نگرانی شایع ہونے والا پالیسی پیپر یاد آ گیا جس کا نام ہے Counter Violent Extremism : Scientific Methods & Strategies . اس میں ڈاکٹر توفیق حامد نامی ایک ’’سکالر‘‘ جو بقول ان کے سابق اسلامی انتہا پسند تھے، کا مضمون A Strategic Plan to Defeat Radical Islam نظر سے گزرا جس میں انہوں نے دہشت گردی کے مرض کی تشخیص ایک عطائی حکیم کی مانند کرکے فضول قسم کے نسخہ جات تجویز کیے تھے.
ڈاکٹر حامد کے مطابق ’حجاب‘ غیر فعال دہشت گردی (Passive Extremism) کی قسم ہے اور مسلمان نوجوانوں میں بڑھتی عسکریت پسندی اصل میں ان کی جنسی محرومی کا نتیجہ ہے. انہوں نے واضح نہیں کیا کہ انہوں نے اتنے ’’شاندار‘‘ نتائج کیسے اخذ کیے. اس تحقیق نے مسلمان نوجوانوں کو کوئی فائدہ دیا نہ امریکی پالیسی کو کیونکہ اپنی جنسی محرومی ختم کرنے کے لیے مسلمان نوجوان ابھی اتنے آزاد خیال نہیں ہوئے کہ قحبہ خانوں کو اپنی آمدورفت سے آباد کرکے دوسرے گھر کا درجہ دے دیں اور نہ ہی امریکی پالیسیوں میں جکڑی مسلمان حکومتیں انھیں اتنے وسائل فراہم کر پا رہی ہیں کہ وہ شادی کرکے اپنی اس محرومی کا ازالہ کر سکیں.
جہاد کی دوسری ’’منفرد‘‘ تشریح وہ عسکریت پسند تنظیمیں کر رہی ہیں جو کافر، مرتد کا ورد کرتے ہوئے ہر دوسرے مسلمان کو اپنی تلوار اور بندوق کے ذریعے موت کی نیند سلانے پر یقین رکھتی ہیں. اور عوامی مقامات ، جنازہ گاہوں، مساجد اور پارکوں میں خود کش حملوں کو دینِ اسلام کی سربلندی گردانتی ہیں. جہاد کے متعلق یہ دونوں قسم کے رویے مسلمانوں کے لیے ناقابلِ قبول ہیں.
یہ مصدقہ حقیقت ہے کہ دنیا میں دہشت گردی اور تشدد کی موجودہ آگ مغرب کی بھڑکائی ہوئی ہے، اس کی پشت پر ان کے استعماری عزائم ہیں اور مغرب کبھی نہیں چاہےگا کہ قرآن کا حقیقی تصورجہاد مسلمانوں کے علم میں آئے . کیونکہ قرآن کی جہادی آیات کمزور پر حملہ کرنے، تیل اور دیگر قدرتی وسائل پر قبضہ کی خاطر مسلمان ممالک کو کارپٹ بمباری سے تباہ کرنے، ایک شخص کی حوالگی کا بہانہ بنا کر پورے ملک کو کھنڈر بنانے اور دوسرے ممالک کی پالیسیوں میں دخل اندازی کرکے وہاں کی عوام کو بالواسطہ اپنا محکوم بنانے کا درس نہیں دیتیں بلکہ بتاتی ہیں کہ ’’جب وہ پہل کریں تب تم ان کو مارو مگر حد سے تجاوز مت کرو. اور اگر وہ صلح پر آمادہ ہوں تو تم بھی درگزر سے کام لو.‘‘
اسلامی نظریاتی کونسل کی نصاب میں جہادی آیات شامل کرنے کی سفارش ہر لحاظ سے خوش آئند ہے جس سے جہاد کے غلط اور درست تصور سے آگاہی ملے گی اور ایک عام مسلمان بھی جہاد اور دہشت گردی میں تمیز کر سکے گا. جہاد کی اصل روح کیا ہے؟ کب فرض ہوتا ہے؟ احکامات و مسائل کیا ہیں؟ کن لوگوں کے خلاف ناگزیر ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ جہاد کیا تھا؟ کس طرح فتح مکہ کے وقت قتل و غارت کی قدرت رکھتے ہوئے بھی دشمن کو معاف کر دیا گیا تھا؟ مرتدین اصل میں کون ہیں؟ ان کے متعلق اسلام کے کیا احکامات ہیں؟ جہاد کے دوران عورتوں، بوڑھوں، بچوں، درختوں اور شاہراہوں کے متعلق کیا احکامات ہیں؟
اسلام ہر نیک کام میں رغبت دلانے کے ساتھ ایک حد بھی قائم کرتا ہے. مثلا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے شخص کے لیے حلال مال، ریاکاری سے بچنا اور خالص اللہ کی رضا کے حصول کی حد لاگو کی گئی ہے. جہاد جیسے عظیم مقصد میں اللہ کی جانب سے کسی قسم کی حد کے عدم تعین کا خیال بھی ایک صحیح مسلمان کی سوچ سے بالاتر ہے. اسلامی نظریاتی کونسل نے ہمیشہ پاکستان کے آئین کی حدود میں رہ کر قرارداد مقاصد کی روشنی میں حقیقی اسلامی تشریحات پر مبنی سفارشات پیش کی ہیں جنھیں صرف وہ طبقات تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو یا تو اسلام سے الرجک ہوں یا پھر اسلام سے نابلد ہوں اور اپنی جہالت کی بدولت تنقید پر مجبور ہوں. جہاد کی قرآنی آیات اسلام کے تصورجہاد کے متعلق ان تمام شکوک و شبہات کا خاتمہ کر سکتی ہیں جن کا زہر کارپوریشنز کا آلہ کار میڈیا اور جعلی سکالرز ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا ہوتے ہوئے پھیلا رہے ہیں. جہادی اصولوں سے عدم واقفیت کی وجہ سے ہی ڈاکٹر توفیق حامد جیسے لوگ اپنے بےبنیاد سازشانہ نظریات کی پیوند کاری کرتے ہیں یا پھر دو نمبر جہادی تنظیموں کو جہاد کے نام پر اسلام کو بدنام کرنے کا سنہری موقع دستیاب ہوتا ہے.
موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے پاکستان کے تعلیمی نصاب میں جہادی آیات کی شمولیت جوئے شیر لانے کے مترادف ہے کیونکہ ٹیلی ویژن چینلز کو اچھی ریٹنگ چاہیے اور امریکا بہادر کبھی نہیں چاہےگا کہ عام عوام جہاد کے حقیقی تصور سے روشناس ہوں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قلعی کھل جائے. ایسی جنگوں میں پیسہ ہی وہ طاقت ہے جو پسِ منظر میں رہ کر تمام سیاسی کہانیوں اور دہشت گرد تنظیموں کے ڈراموں کے پلاٹ، کردار اور مکالموں کو تحریر کرکے ان ڈراموں کے نتائج کا تعین کرتا ہے. جہاد کا اصل نظریہ ہماری آنکھوں سے اوجھل رکھا جائے گا جس کا مطلب ہے کہ ابھی بھی پاکستانی غیرمعینہ مدت کے لیے خوف و شکوک کے زیر اثر رہیں گے. قرآن کی روشنی میں جہاد کی ایسی دیانتدارانہ تعلیم و تشریح جس کے ذریعے ہم اپنے بچوں کو اپنے مستقبل کالائحہ عمل ترتیب دینے میں مدد دے سکیں، ابھی ناممکن معلوم ہوتا ہے.

Comments

Click here to post a comment

  • بہت خوب۔ جہاد اور جہادی آیات کی نصاب میں شمولیت کے حوالے سے صحیح سمت میں رہنمائ کرتی تحریر۔ اللہ جزائے خیر دے۔