ہوم << پاکستان کی قندیلیں، تاریخ کے جھروکوں سے - نجم الحسن

پاکستان کی قندیلیں، تاریخ کے جھروکوں سے - نجم الحسن

نجم الحسن ہمارے ملک میں قندیل بلوچ جیسی لڑکیوں کی پہلے کوئی کمی تھی نہ آج ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے ایسی لڑکیاں صرف امراء تک محدود رہتی تھیں اور آج کل کھلے عام نظر آتی ہیں۔ کئی جنرل رانیاں، تتلیاں، بلبل اور مینائوں کی کہانیاں مقتدر طبقات کے محلات کا حصہ رہ چکی ہیں تاہم ان میں جنرل ضیاء، لیاقت علی خان، محمد خان جونیجو اور خواجہ ناظم الدین کے نام منہا ہیں۔ جنرل ضیاء کے آنے سے پہلے جب پاکستانی فلم انڈسٹری اپنے عروج پہ تھی، اور فحاشی و عریانی پر کوئی روک ٹوک نہیں تھی، تب منی سکرٹ، لانگ سکرٹ اور سوئمنگ سوٹس برملا پہنا جاتا تھا، لیکن یاد رہے کہ یہ سب یا تو صرف امراء تک محدود تھا یا صرف فلموں کی حد تک تھا۔
پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ سوئمنگ سوٹ کا استعمال 1950 کی دہائی میں ہوا جب 1959ء میں پاکستانی فلم ’’کوئل‘‘ میں ایک فلم سٹار اس غیرمعمولی لباس کے ساتھ جلوہ گر ہوئی تھیں۔ یہ خاتون سنتھیا الیگزنڈر فرنانڈس تھیں جنہیں ہم آج’’نیلو‘‘ کے نام سے جانتے ہیں۔ نیلو اس وقت عیسائی تھیں مگر بعد میں اسلام قبول کر لیا، ریاض شاہد کے ساتھ شادی کی، اور اپنا اسلامی نام عابدہ ریاض منتخب کیا۔ فلم اسٹار شان انھی کا بیٹا ہے. نیلو اس وقت خبروں کی زینت بنی جب اس وقت کے مغربی پاکستان کے گورنر امیرمحمد خان نے انہیں ایران سے آئے ہوئے شاہی مہمانوں کے سامنے رقص پیش کرنے کا حکم دیا مگر نیلو نے بوجوہ اسے قبول کرنے سےانکار کردیا تھا۔ نیلو کو زبردستی لانے کی کوشش کی گئی، راستے میں نیلو نے خودکشی کی کوشش کی تو انھیں گورنر ہائوس کے بجائے ہسپتال لے جانا پڑا اور ڈاکٹروں کی مدد سے ان کی جان بچائی گئی۔
حُسنا 1960ء اور 1970ء کی دہائی میں اپنے دور کی جانی مانی اداکارہ تھی، اور بلا کسی جھجھک کے مغربی پہناوے کا استعمال کرتی تھیں۔ نیلو کی طرز پر حُسنا نے بھی فلم ’’ہنی مون‘‘ میں سوئمنگ سوٹ کا استعمال کر کے لوگوں کو محظوظ کیا تھا۔ اس کے بعد اس سر زمین پر ایک اور حسین رقاصہ ’’ترانا‘‘ نےقدم رکھا، تعلق ایران سے تھا اور کرا چی آکر مستقل رہائش پذیر ہوئی تھیں۔ ترانا بھی اس وقت کے لحاظ سے بہت ماڈرن تھی اور اکثر سکرٹس، جینز اور دوسرے مغربی لباس کا پہناوا کھلےعام استعمال میں لاتی تھی۔ اسے اس وقت شہرت ملی جب اس کا نام اس وقت کے پاکستانی صدر یحیٰ خان کے ساتھ ایک سکینڈل میں لیا جانے لگا، اور پھر ان کو ’’پاکستانی ترانا‘‘ کے نام سےجانا جانے لگا.
انیتا ایوب نے بھی کچھ اسی طرح سے 1970ء میں ایک نئے اور دلفریب انداز رقص سے عوام کو روشناس کروایا تھا اور کچھ ایسے کلمات و الفاظ کا استعمال بھی کیا تھا جو اس زمانے میں ممنوع تھے اور اس وجہ سے اسے کئی فتووں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ انیتا ایوب کے رقص کو اس وقت کا سنسر بورڈ بھی برداشت نہیں کر پایا تھا، خاص طور پر خوفناک، خطرناک، دادا اور کلب ڈانسر جیسی فلموں میں کیا گیا ڈانس تو اس وقت کے لحاظ سے انتہائی واہیات تصور کیا جاتا تھا۔
فوزیہ عظیم یا قندیل بلوچ نے اپنے مضحکہ حیز انداز، بےڈھنگے پن، اور متنازعہ تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر شئیر کر کے شہرت حاصل کی۔ ایسی تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کرنے کا سلسلہ تو کافی عرصے پہلے سے جاری تھا تاہم حقیقی شہرت گزشتہ دنوں مولوی عبدالقوی کے ساتھ اسکینڈل منظر عام پر آنے سے ملی۔ قندیل کی الٹی سیدھی حرکات جب تک عوام کے دلوں کو لبھاتی رہی تب تک سب صحیح تھا، مگر مسئلہ اس وقت ہوا جب اس نے بڑی چھلانگ مارنے کی خواہش میں پاکستان کے علاوہ پڑوسی ملک کے بڑے ناموں کے سائے میں پنپنا چاہا۔ ان کرداروں میں عمران خان، شاہدآفریدی اور مفتی عبدالقوی کے علاوہ بھارت سے ویرات کوہلی، آریان خان شامل تھے. پاکستانی ٹیم کے ساتھ بھی اس نے مجموعی طور فلرٹ کرکے شہرت حاصل کرنے کی کوشش کی. نام کمانے کی اسی خواہش میں بالآخر اپنے بھائی کے ہاتھوں قتل کر دی گئی۔
تاریخ میں اس طرح کی خواتین کی ایک لمبی لسٹ موجود ہے، اور یہ حقیقت بھی سامنے ہے کہ ہمارے معاشرے میں اس طرح کے اسلوب اور کردار کو کھلے ذہن کے ساتھ کبھی بھی قبولیت نصیب نہیں ہوئی تاہم اس طرح کے کرداروں کا، عمومی طور پر انتہائی نفرت کے باوجود، پروان چڑھنا اور زبان زد عام ہونا توجہ طلب ہے۔ بحیثیت قوم ہمیں اپنی خاندانی، معاشرتی اور قومی اقدار کو ایک سمت میں لانا ہوگا تبھی ہم ایک ایسا معاشرہ تشکیل دینے میں کامیاب ہو سکیں گے جہان نہ تو اول کسی انیتا ایوب یا قندیل کو پروان چڑھنے کا موقع ملےگا اور نہ ہی بصورت دیگر کسی قندیل کی جان کو کوئی خطرہ ہوگا۔

Comments

Click here to post a comment