ہوم << یہ ٹی وی ڈرامے ہیں یا گندگی کا ڈھیر - ساجدہ فرحین فرحی

یہ ٹی وی ڈرامے ہیں یا گندگی کا ڈھیر - ساجدہ فرحین فرحی

ترکش ڈرامے ’عشق ممنوع‘ کا پاکستانی ورژن ڈرامہ ’ تیری چاہ میں‘ تیری چاہ میں عشق ممنوع جیسے تعلقات پر بنایا گیا ہے مگر ڈرامہ بنانے والوں کا کہنا ہے کہ یہ اُنھوں نے سچے واقعے پر بنایا ہے۔ ’تیری چاہ میں‘، میں بھتیجے کاکردار ادا کرنے والا فرحان اپنی چچی ماریہ واسطی سے شادی کرنے کا خواہشمند ہے مگر اُس کی شادی بچپن سے ہی اُس کی چچی کی بیٹی سے طے تھی، جبکہ ’عشق ممنوع‘ میں چچی کا کردار ادا کرنے والی پچیس سالہ بھیتر تھی اور بھیتر بہلول کے چچا عدنان کی دوسری بیوی تھی اور نہال بھیتر کی سوتیلی بیٹی تھی۔ اس ڈرمے نے بہت پذیرائی اور ریٹنگ حاصل کی تھی اسی لیے’اُردو ون چینل‘ نے اسے بار بار نشر کیا۔ مگر ریٹنگ سے قطع نظر معاشرے کے بڑے طبقے نے اس ڈرامے پر اعتراضات اُٹھائے کہ اس میں رشتوں کی پامالی کی جا رہی تھی لیکن ریٹنگ کے حصول کےلیے اب اس موضوع کا انتخاب پاکستانی ڈرامے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس سے پہلے ’اے آر وائی‘ کے ہی ایک ڈرامے ’بےقصور‘ میں بھی ڈرامے کا کردار شہریار ( ساجد حسن ) اپنی بیوی صدف (ثمینہ پیرزادہ ) کی سوتیلی بیٹی سے شادی کرلیتا ہے، اس کے بعد اسی لڑکی کے باپ کی لے پالک بہن سے بھی شادی کرلیتا ہے۔
حساس موضوعات پر ڈرامے بنانے کے پس منظر میں کیا مقاصد پنہاں ہیں؟ متنازعہ معاملات کو ڈرامے کی صورت میں پیش کرنے سے آخر پروڈکشن ہائوسز اور ٹی وی چینلز مالکان کیا چاہتے ہیں؟ معاشرتی برائیوں کا اس تاثر کے ساتھ پیش کیا جانا کہ گویا یہ معاشرے کے اجتماعی مسائل ہوں یا جیسے ایسے واقعات بڑے پیمانے پر ہو رہے ہوں۔ پاکیزہوہ موضوعات اور وہ الفاظ جو کبھی معیوب سمجھے جاتے تھے، اب انھیں ریٹنگ بڑھانے کا فارمولا بنالیا گیا ہے۔ ’ہم ٹی وی‘ کا ڈرامہ جس کا نام تو ’پاکیزہ‘ ہے مگر اس میں ڈرامے کا کردار شوہر جبران اپنی بیوی پاکیزہ کو طلا ق دے دیتا ہے مگردنیا کیا کہے گی اور اپنی بیٹی کی شادی میں مشکلات کے پیش نظر دونوں ایک ہی گھر میں رہتے ہیں اور پاکیزہ اپنی نند کے دیور عظیم سے شادی کر لیتی ہے مگر بیٹی کی شادی تک اپنے نئے شوہر کے بجائے پُرانے شوہر جبران کے ساتھ رہتی ہے۔
2012ء میں ’جیو انٹرٹینمٹ‘ پر ڈرامہ ’جنت سے نکالی ہوئی عورت‘ نشر کیا گیا، اس میں ساجد حسن اور ثمینہ پیرزادہ میاں بیوی کا کردار ادا کر رہے تھے. ساجد حسن کو تیز مزاج شوہر کے طور پر دکھایا گیا تھا جو غصے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے مگر بعد میں اُسے پچھتاوا ہوتا ہے، ان کی شادی شدہ اولاد کو جب طلاق کا علم ہوتا ہے تو بوڑھے ماں باپ کو الگ الگ رکھنے کے مسئلے اور دنیا والوں کی باتوں کے پیش نظر اولاد چاہتی ہے کہ ماں باپ ایک ہی گھر میں پہلے کی طرح ساتھ رہیں اور پھر اس مسئلے کا وہ حل نکالا جاتا ہے جو اب تقریبا ہرڈرامے کا موضوع بن گیا ہے.
ایسے موضوعات پر پاکستان میں ڈرامے بنائے اور نشر کیے جا رہے ہیں جن پر کبھی بات کرنا نامناسب اور ایک لحاظ سے ممنوع سمجھا جاتا تھا. ایک کے بعد ایک ایسے موضوعات پر مختلف چینلز پر کم و بیش ایک جیسے ڈرامے پیش کیے جارہے ہیں، اور لوگ انھیں دیکھ کر ان کی ریٹنگ بھی بڑھا رہے ہیں۔ ہم ٹی وی پر بروز منگل کو نشر کیے جانے والے ڈرامے ’ذرا یاد کر‘ ذرا یاد کرمیں لڑکی بغیر کسی وجہ کے اپنے شوہر سے نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے ہی طلاق لے لیتی ہے مگر جس آدمی کے بہکنے سے طلاق لی ہوتی ہے، وہ بھی اُسے چھوڑ کے چلا جاتا ہے، پھر لڑکی کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ہے اور وہ اپنے سابقہ شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہتی ہے. ڈرامے میں لڑکی کو انتہائی بےشرمی اور ڈھٹائی سے ’حلالہ‘ کے لیے شوہر کی تلاش کرتے دکھایا گیا ہے، اس کے ساتھ یہ میسج دیا گیا کہ رخصتی نہیں صرف نکاح ہوا ہوتا ہے، اس لیے لڑکی عدت بھی پوری نہیں کرتی تو پھر حلالے کی ضرورت بھی نہیں ہونی چاہے مگر کیونکہ بات ہے ریٹنگ کی اس لیے اس موضوع کو ڈرامے کا حصہ بنا دیا گیا اور ڈرامہ ریٹنگ بھی خوب حاصل کر رہا ہے۔ اس سے پہلے ہم ٹی وی کے ڈرامے ’تمھارے سوا‘ میں بھی اس کو موضوع بنایا گیا تھا۔
پاکستانی ڈراموں میں اب دانستہ طور Taboo issues پر ڈرامے بنائے جارہے ہیں. ایسے ایشوز جن پر بات کرنا ہماری مذہبی اور معاشرتی اقدار میں مناسب نہ سمجھا جاتا ہو Taboo issues کہلاتے ہیں مگر اب یہ ایشوز حرف زدعام ہو چکے جیسے حلالہ کے حوالے سے بے شمار ڈرامے تواتر کے ساتھ پیش کیے جارہے ہیں، کم و بیش ہر دوسرے ڈرامے کا یہی موضوع ہو گیا ہے۔ ریٹنگ بڑھانے کے لیے ریپ جیسے کبیرہ گناہ کو بھی ڈرامے کا مرکزی خیال بنا کر استعمال کیا جارہا ہے جبکہ پڑوسی ملک کے شوبز سے وابستہ افراد خود اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ اُنھوں نے اپنی فلموں اور ڈراموں میں اس کو موضوع بنا کر اس کے فروغ کا کام کیا اور اداکاروں نے تو یہ بھی کہا کہ آئندہ اس قسم کی فلموں اور ڈراموں میں کام نہیں کریں گے جو اس موضوع پر ہوں گی مگر افسوس کہ ہمارے ڈراموں میں آج کل کا یہ مقبول ترین موضوع بن چکا ہے۔ اب تو بچوں سے زیادتی کے موضوع پر بھی کینیڈین فنڈنگ این جی او کے تعاون سے ’ہم ٹی وی‘ پر ’اُڈاری‘اڈاری نشر کیا جارہا ہے. ڈرامے کا سب سے افسوسناک پہلو سوتیلے باپ کا سوتیلی بیٹی سے غیراخلاقی تعلق دکھایا جانا ہے۔ اس سے قبل ’اے آر وائی‘ پر ڈرامہ ’چپ رہو‘ نشر کیا گیا جس میں بہن کا شوہر اپنی سالی کو جنسی طور پر ہراساں کرتا ہے۔ اس ڈرامے نے بھی کافی ریٹنگ حاصل کی اور حالیہ دنوں شروع کیے گئے نئے ڈراموں ’یہ شدتیں یہ چاہتیں‘ اور ’گھائل‘ میں بھی کچھ اسی قسم کے حالات دکھائے گئے ہیں. ان ڈراموں میں کزن اور فیملی فرینڈز اپنی ہی کزن کو اس کی شادی سے پہلے زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں۔’گھائل‘ میں طوبی کا کردار ادا کرنے والی سنبل اس سے پہلے اسی چینل کے ڈرامے ’روگ‘ میں بھی ایسا ہی کردار ادا کرچکی ہے۔ ’روگ‘ ڈرامے میں child sexual abuse کو مرکزی موضوع بنایا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ایک اور ڈرامہ ’سنگت‘ میں ڈاکے کے دوران گھر میں موجود لڑکی کو زیادتی کا نشانہ بنایا گیا، اس ڈرامے نے بھی کافی ریٹنگ حاصل کی۔
کہا جاتا ہے کہ مکھی گندگی کو خود تلاش کر لیتی ہے اور زخم پر بیٹھتی ہے، اسی طرح آج کل ٹی وی چینلز اور پروڈکشن ہائوسز صرف اکا دکا معاشرتی زخموں کو تلاش کرکے گندگی پر ہی ڈرامے بنا رہے ہیں اور ان ڈراموں کو دیکھ کر اُن کی ریٹنگ بڑھانے والے بھی اسی گند کا حصہ بن رہے ہیں۔ سماجی تنظیموں کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس گندگی کے خلاف آواز اُٹھائیں اور پیمرا کو چاہیے کہ وہ ٹی وی چینلز اور پروڈکشن ہائوسز کو معاشرتی ضابطہ اخلاق کا پابند کرے ورنہ تھوڑی نظر آنے والی اس گندگی کے پورے معاشرے میں پھیلنے کا خدشہ ہے. ایسا نہ ہو کہ ہم یہ معاشرتی برائیاں دیکھنے کے اتنے عادی ہوجائیں کہ برائی کو برائی سمجھنے کا احساس ہی ختم ہوجائے۔

Comments

Click here to post a comment