چرچل کا قول ہے کہ امریکن صحیح کام اس وقت کرتے ہیں جب ان کے پاس کرنے کو کوئی غلط کام نہیں ہوتا۔ مذکورہ قول کے تناظر میں دیکھا جائے تو ہم پاکستانی بھی امریکنز سے کسی طرح پیچھے نہیں ہیں۔ ہم ہمیشہ غلط وقت پر صحیح کام اور صحیح وقت پر غلط کام کرنے کے عادی ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ہمارے اندر پائے جانے والے وہ تین جنون ہیں جن کا عشر عشیر بھی کسی دوسری قوم میں نہیں ملتا۔
۱۔ کرکٹ کا جنون
۲۔ سیاسی جنون
۳۔ مذہبی جنون
۱۔ کر کٹ کا جنون برساتی مینڈک کی طرح ہے جو عموماً ورلڈکپ یا کسی دوسری چیمپئن ٹرافی کے وقت ظاہر ہوتا ہے اور پھر اتنی ہی تیزی سے صفحہ ہستی سے مٹ جاتا ہے۔ زمانہ عروج میں یہ جنون ایک عام آدمی کوب ھی کرکٹ ماہرین کی طرح سوچنا اور بولنا سکھا دیتا ہے، ہر گلی محلے میں آپ کو کرکٹ پر وہ تبصرے سننے کو ملتے ہیں جن تک کرکٹ ماہرین کی سوچ کی رسائی بھی شاید ممکن نہ ہو ۔ اس جنون کا اختتام عموماً پاکستانی ٹیم کی ہار کے ساتھ ان الفاظ پر ہوتا ہے جن کو زیب قرطاس کرتے ہوئے قلم بھی شرما جائے اور اختتام کے ساتھ ہی یہ جنون کسی نئی چیمپئن ٹرافی کے ساتھ دوبارہ شروع ہو جاتا ہے۔
۲۔ دوسرے جنون کا تعلق سیاست سے ہے. یہ جنون بھی شروع گلی کوچوں ہی سے ہوتا ہے لیکن منتہی ایوان اقتدار پر ہوتا ہے، اول بلند بانگ دعوے، ثانیاً کرسی اور انتہاً عوام کی خون پسینے کی کمائی کا سوئس بینکوں یا آف شور کمپنیوں میں پہنچ جانا ہے اور قربان جائوں اس مستقل مزاج عوام کے جنہیں پُل سےگزرتے وقت ٹیکس دیتے اور جوتے کھاتے ہوئے تنگی وقت کا احساس تو ہے لیکن اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ادارک ابھی تک نہیں ہوا۔ انہی حکمرانوں کو جنہیں یہ جھولیاں بھر بھر کے بدعائیں دیتے ہیں اگلے الیکشن میں زندہ ہے فلاں زندہ ہے کے نعرے لگاتے ہوئے ’’سرتسلیم خم جو مزاج یار میں آئے‘‘ کے مصداق قربان ہونے کے لیے دوبارہ تیار کھڑے نظر آتے ہیں۔
۳۔ تیسرا جنون ہمارے مولوی حضرات کا عطا کردہ تُرپ کا وہ پتہ ہے جو اس وقت Show Off کیا جاتا ہے جب اسلام کے بجائے خود ان کی اپنی عزت دائو پر لگی ہوتی ہے۔ اس جنون کو سمجھنے کے لیے خداوندانِ جنون (مولوی) کی اقسام کا جاننا ضروری ہے۔
مولوی کی اولین قسم ارتقائے مولویت کی وہ پہلی کڑی ہے جس کا سرا اصحاب صفہ سے شروع ہو کر خدانخواستہ عنقریب ختم ہونے والا ہے. ان حضرات کا کام قال اللہ اور قال الرسول کی صدائوں کو بلند کرتے ہوئے لوگوں کے ظاہر و باطن کے تضاد کو ختم کرنا ہے۔ ان بوری نشین علماء کا مقصد صرف اور صرف دین کی خدمت کرنا ہوتا ہے، ان کے ہاں آپ کو جبہ و دستار والی رعونت ملے گی نہ ہٹو بچو کی صدائیں۔ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی شاہوں والا استغناء رکھنے والے علماء کا مقام یہ ہے کہ
ہم فقیروں سے دوستی کر لو
گُر سکھا دیں گے بادشاہی ہے
(چونکہ یہ قسم زیربحث مولویوں کی شرائط پر پوری نہیں اترتی، اس لیے اسے خارج از بحث تصور کیا جائے)
دوسری قسم ان مولویوں کی ہے جو دین کوملمع بنا کر مشایخت میں پائوں دھرنے کے بعد کولمبس کی طرح ایک نیا جہان دریافت کرنے کے لیے بحری جہاز کے بجائے خطابت کے اُڑن کھٹولے پر سوار جاہل قریوں میں یہ جا وہ جا اڑتے نظر آتے ہیں۔ تفسیری نکات اور فقہی موشگافیوں کا ایک خزینہ جیبوں میں بھرے عام لوگوں کو دین کے ان ادق مسائل میں الجھا کر دم لیتے ہیں کہ لوگ دین کو سمجھ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ بخد ا اس دین پر عمل کرنے کے لیے کم از کم صحابی ہونا ضروری ہے اور اس دور میں صحابی بننے کے لیے اس تھوڑے سے اسلام کو بھی قربان کرنے کی نوبت آجاتی ہے جو انہیں اپنے آبائو اجداد سے ملا ہے اس لیے یہ لوگ اس تھوڑے سے دین پر ہی اکتفاء کر کے بیٹھ جاتے ہیں۔ اس قسم کے مولویوں کا محبوب مشغلہ انگریزوں کے اس قول پر عمل کرنا ہوتاہے کہ لڑائو اور حکومت کرو، اس لیے یہ مختلف بستیوں میں جا کر کشمیری بانڈی کی طرح کے چند شوشے چھوڑ جاتے ہیں اور خود منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں اور پیچھے بستی والے مدت مدیدہ تک باہم دست وگریباں رہتے ہیں۔ ان کے نزدیک فنِ خطابت کے ذریعہ حرارت ایمانی کو بیدار کرنے کے لیے اعلیٰ درجہ کے سائونڈ سسٹم کا ہونا اتنا ضروری ہے جتنا انسانی افزائش نسل کے لیے ایک عدد بیوی کا ہونا بصورت دیگر یہ خرابی صحت کا بہانہ داغ کر سامعین کی سماعتوں کو مجروح ہونے سے بچاتے ہوئے کنّی مار جاتے ہیں۔ اس کے پیچھے چھپی حکمت کا ایک دفعہ یوں تجربہ ہوا کہ ایسی ہی ایک خطیبانہ مجلس میں جانے کا اتفاق ہوا اور شومئی قسمت جگہ بھی سائونڈ سسٹم کے بغل میں ملی، سو خطیب صاحب کے ہر پُرجوش جملے پر جسم کے بالوں کے کھڑے ہونے نے کافی دیر اس وہم میں مبتلا کیے رکھا کہ شاید ایمان کی راکھ میں دبی کسی چنگاری نے آگ پکڑنی شروع کر دی ہے مگر بالاًخر تسلیم کرنا پڑا کہ یہ ساری کارستانی سائونڈ سسٹم کی ہے۔ لہذا سوئے ہوئے ایمان کے ساتھ ہی واپسی ہوئی۔
تیسری قسم ان مولویوں کی ہے جو براستہ دین سیاست میں داخل ہوتے ہیں اور پھر دم مرگ سیاست کی کلائی اس حسینہ کی طرح پکڑے رہتے ہیں جس کے ٹوٹنے اور چھوٹنے ہر دو کا خوف ہمیشہ دامن گیر رہتا ہے. اس قسم کے مولویوں کی بڑی پہچان ان کا حدود ِاربعہ ہوتا ہے جو بذات خود کسی چھوٹی موٹی ریاست سے کم نہیں ہوتا۔ یہ حضرات بیٹھنے کے لیے ’’سایو‘‘ کی کرسی استعمال کرتے ہیں جو مضبوط تو ہوتی ہے لیکن اگر سماعت دل کو وا کیا جائے تو اس کی کرب انگریز چیخوں کو سننا چنداں مشکل نہیں اور اگر اسے جنتی کرسی کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ دس گز کے تھان میں ملبوس حضرت سے بات کرتے ہوئے صرف آواز پر اکتفاء کرنا پڑتا ہے کہ آواز کی جائے ورود تک پہنچنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا K-2 یا مائونٹ ایورسٹ کو سر کرنا۔ کئی دہائیوں پر محیط احیائے جمہوریت کی کوششوں کے باوجود اقتدار کی کرسی تک نہ پہنچنے کی وجہ شاید اس کرسی کی نازک اندامی ہے جو اس ضخیم جثے کی کبھی بھی متحمل نہیں ہوسکتی۔ سیاسی ترقی کے لیے جسامت کا اہم ہونا مجھے تو کسی طرح سمجھ نہیں آتا شاید اقبال مرحوم کے شعر کو غلط سمجھنے کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔
جمہوریت وہ طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو تولا کرتے ہیں گنا نہیں کرتے
ان حضرات میں امت کا درد اور تکلیف کا احساس اس درجہ پایا جاتا ہے کہ نصف رمضان ہی میں کسی فائیو سٹار ہوٹل کے کمرے میں ہاتھ میں قندیل پکڑے چاند تلاش کرنے پہنچ جاتے ہیں ’’بچہ بغل میں اور ڈھنڈورا شہر میں‘‘ کے مصداق چاند تو نہیں ملتا مگر اس ترمیم شدہ شعر پر ضرور عمل ہو جاتا ہے۔
قندیل کے من میں ڈوب کر پاجا سُراغ زندگی
اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے کہ پولیس والوں کی طرح مولوی کی دشمنی اچھی نہ ہی دوستی
چوتھی اور سب سے جدید اور Upgrade قسم فیس بکی مولوی ہے، یہ قسم تھوڑا عرصہ قبل ہی معرض وجود میں آئی اور اس کا سہرا Mark Zuckerberg کے سر ہے. اس قسم کے مولویوں کا مقصد فیس بُک پر موجود نوجوانوں کو نئے مسائل سے روشناس کر کے ان کے تاریک ذہنوں کو علم و فن کی باریکیوں سے منوّر کرنا اور انہیں یہ باور کرانا ہو تا ہے کہ ’’ستاروں سے آگے جہان اور بھی ہیں۔‘‘ ان کا مقصد اسلام کو نئی بنیادیں فراہم کر کے پرانی بنیادوں سے اعتماد کو ختم کرنا ہے. اکابرین کو سند اسلام سے مکھی کی طرح نکال باہر پھینکنا اور جدید دور کے ڈسپوزایبل فلاسفہ پر دین کی عمارت کو کھڑا کرنا ہے تاکہ جب ضرورت پڑے تو انہیں بھی Replace کیا جا سکے. ویسے دیکھا جائے تو ان کے نزدیک دین کو تجدید کی ضرورت ہے کیونکہ 1400 سالہ پرانا دین اب واقعی موجودہ دور کے تقاضوں کو نبھانے سے قاصر ہے۔ کیونکہ اس وقت نہ تو PTI کے جلسے ہوتے تھے کہ مر دوزن کے اختلاط کے ساتھ مصافحہ اور معانقہ تک کی نوبت آتی، نیک لوگ تھے زیادہ سے زیادہ اجتماع نماز میں ممکن تھا، وہ سہولت بھی بعد میں ختم کر دی گئی تو نئے مسائل کی آمد کا دروازہ ہی بند ہوگیا۔ اور نہ ہی اس وقت موسیقی روح کی غذا تھی کہ روحیں صحت مندانہ سرگرمیوں کی وجہ سے قوی تھیں اور ان کی غذا بھی مقوی تھی۔ آج کل روحیں تھوڑی نازک، تھوڑی نخریلی ہیں، سینڈ وچ اور برگر کی طرح ان کی خوراک بھی موسیقی ہے۔ سو موسیقی کے لیے بھی احکامات کی تبدیلی کی ضرورت پڑی۔ صحابہ کرام ؓ جیسے حضرات بھی ضرورت کے وقت قرآن و حدیث کے بعد ایک دوسرے کے فتاویٰ پر عمل کر لیا کرتے تھے، اور ان کے ہاں تو علم اپنی انتہاء پر اور عمل نقطہ عروج پر پہنچ گیا ہے۔ لہذا علوم کا نزول بلاواسطہ قلب پر بصورت الہام ہوتا ہے جو کہ صبح صبح فیس بُک پر جگمگا رہا ہوتا ہے کہ کتمان علم ازروئے شرح گناہ کبیرہ ہے۔ قرون ثلاثہ پر ان کی نظر اتنی گہری ہوتی ہے کہ دیکھتے ہی ضعیف اور موضوع حدیث کے درمیان فرق بتا دیتے ہیں۔ محدثین پر اعتماد کا یہ حال ہے کہ بسا اوقات ان کی باتوں سے پتہ چلتا ہے کہ محدثین مرتشی قسم کے لوگوں کا ایک ٹولہ تھا جو رشوت لے کر سند حدیث میں نام درج کرتا تھا اور بعض دفعہ تو منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے کے لیے ایک آدھ حدیث اپنی طرف سے بھی گھڑ لیا کرتا تھا۔ ان حضرات کے نزدیک موجودہ دور میں مقام اجتہاد تک پہنچے کے لیے 100 کے قریب Likes ضروری ہیں لہذا مقام اجتہاد کو پہنچے کے بعد انہیں فقہائےامت جاہل قسم کے لوگوں کا ایک گروہ نظر آتے ہیں جو مسجد میں پیدا ہوئے اور وہیں چل بسے اور ان کے مسائل و فقہ پر اعتماد کس طرح ممکن ہے کہ وہ تو اقبال کے مسیتا تھے۔
مسجد سے نکلتا نہیں ضدی ہے مسیتا
اس قسم کے مولویوں میں اعتدال اس درجہ پایاجاتا ہے کہ مذہبی گستاخیاں تو کُجا مذہبی مارپیٹ بھی کھلے دل سے برداشت کر لیتے ہیں، اور تعصب اس درجہ کے ان کے نقطہ نظر سے اختلاف کفر سے کم نہیں ہوتا، ایسے موقع پر ان کے زبان و ہاتھ سے وہ نادر و نایاب الفاظ اور گالیاں سننے کو ملتی ہیں کہ طبیعت باغ باغ ہو جاتی ہے۔
گالیاں کھا کے بھی بےمزہ نہ ہوا
اور میرے جیسے کئی تو اس پر بھی Reaction میں Happy کے لوگو کو کلک کر کے خوش ہوتے رہتے ہیں اور یہ حضرات اپنی ولایت پر کہ شاید مدمقابل توبہ کرنے کے بعد اسلام میں دوبارہ داخل ہونے کو تیار ہوگیا ہے۔
آپ کا تعلق ان میں سے کس جنون سے ہے.