ہوم << بھیک یا حاجت برداری - اخت ولید

بھیک یا حاجت برداری - اخت ولید

’’اللہ کے نام پر دے دو بابا‘‘
بازار میں خریداری کرتے ہوئے ایک آواز عقب میں سنائی دی۔
’’اللہ کے نام پر دے دو، معذور کی مدد کرو، میری بیٹیوں کی مدد کرو، اللہ تمہارا بھلا کرے۔‘‘
آواز رفتہ رفتہ قریب ہوتی چلی جا رہی تھی۔ مانگنے والا معذور تھا؟ میں نے سڑک پر اچٹتی ہوئی نگاہ ڈالی، کم از کم وہ درست چل رہا تھا۔ اندھا ہے؟ اس کے بدلتے الفاظ اس کے بینا ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ سڑک پر کسی چھڑی کا شور بھی نہ مچتا تھا۔
’’اللہ کے نام پر دے دو بیٹا، اللہ کے نام پر دے دو باجی‘‘ آواز بالکل قریب آ چکی تھی۔ پرس میں ریزگاری ڈھونڈنی شروع کی۔ بار بار کنگھالنے کے باوجود ناکامی پر دکاندار سے کہا کہ کہ اسے دس روپے دے دیں، خریداری کے پیسوں میں کاٹ لیجیے گا۔
دکاندار بکس سے پیسے نکالتے ہوئے بیزاری سے بڑبڑایا ’’باجی! ان کا تو روز کا یہی کام ہے۔ صبح و شام بازار میں مانگتے ہیں‘‘
’’اس نے اللہ کے نام پر مانگا ہے۔ اسے دینا تو ہے‘‘ خریداری کے پیسے کٹواتے ہوئے دکاندار کو جواب دیا۔
فقیر بابا مڑ چکا تھا۔ ’’معذور کی۔۔۔۔۔۔‘‘ اس کی آواز دور ہونے لگی تھی۔
معذور؟ اسے کیا معذوری ہے؟ میں نے بے چارگی سے سوچتے ہوئے یونہی اس پر نگاہ ڈالی۔ 45،50 سالہ آدمی، دونوں بازو اکڑے ، ہاتھ اندر کی جانب مڑے ، کندھے ابھرے ہوئے۔ یہ ریزگاری کہاں اور کیسے رکھے گا؟ اسی لمحے فقیر بابا نے اپنے ہاتھ کی مدد سے پیسے جیب میں ڈال لیے۔ اس کا ہاتھ 40 فیصد درست ہونے کے باوجود دوبارہ مڑ چکا تھا۔
’’ایک تو میں بھی ۔۔۔ کیا فضول سوچنے لگی ہوں؟؟‘‘ میں نے خیالات جھٹکے۔ اس سے قبل مجھے کبھی مانگنے والے کو پلٹ کر دیکھنے کا اتفاق نہیں ہوا تھا کہ اگر میں ان افراد کی مدد نہیں کر سکتی یا کرنا پسند نہیں کرتی تو انہیں بغور دیکھ کر شرمسار کرنے کا بھی حق مجھے حاصل نہیں۔ معذوری، مصیبت کا روپ دھارے شخص کو میرے جائزے کی پرواہ نہیں ہو گی اور اگر کوئی حقیقی حاجت مند ہو تو اس میں اس کا کیا قصور؟؟
’’اللہ کے نام پر مجھ معذور کی مدد کرو بہن!‘‘ فقیر کی زور دار آواز نے مجھے خیالات سے لا باہر کیا اور ایک دوسری خاتون کو اس کی طرف متوجہ کیا۔ فقیر بابا نے بایاں بازو اس خاتون کے آگے پھیلایا ہوا تھا۔ دایاں بازو پرانی حالت پر تھا۔ میں ہکی بکی رہ گئی!! فقیر بابا ایک دو منٹ اسی حالت میں رہنے کے بعد رش میں گم ہو چکا تھا۔ ہاتھ، بازو موڑ کر، کندھے اکڑا کر معذوری کا ڈھونگ رچانے والا فقیر بابا! کتنے حاجت مندوں کی حاجات کو معاشرے سے اوجھل کرنے کا باعث بن رہا تھا۔ صرف وہ نہیں، ایک شہر میں ہزاروں!!
کیا یہ حاجت مند تھا؟ یہ بھیک تھی یا حاجت برداری؟ اصل مسکین کون ہے؟ ذہن کی تختی سوالات کی سیاہی سے بھرنے لگی۔
’’صدقات کے مستحق صرف وہ غربا ہیں جو اللہ کی راہ میں روک دیے گئے، جو ملک میں چل پھر نہیں سکتے، نادان لوگ ان کی بےسوالی کی وجہ سے انہیں مالدار خیال کرتے ہیں، آپ ان کے چہرے دیکھ کر قیافہ سے انہیں پہچان لیں گے وہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے، تم جو کچھ مال خرچ کرو تو اللہ تعالیٰ اس کا جاننے واﻻ ہے. البقرہ:273‘‘
اصل مسکین تو یہ ہیں، سفید پوش، ٹٹول کر دیکھو تو علم ہو کہ آج کچھ کھایا پیا نہیں ہے، چمٹ کر سوال نہیں کرتے مگر چہرے بشرے سے اندازہ ہو جاتا ہے!
بازاروں اور گھروں میں صبح شام گھرگھر مانگتے فقیروں کو پانچ دس روپے دے کر صدقہ ’’نکالا‘‘ جاتا ہے۔اگر تین چار دکاندار یا گھرانے مل کر روزانہ کے پانچ دس روپے جمع کریں اور مہینے کے اختتام پر کسی حقیقی ضرورت مندگھرانے کا کھوج لگا کر اسے ہفتے بھر کا راشن لے دیں تو آپ کے پیسے کو جائز جگہ مل جائے گی، اور کسی حقیقی ضرورت مند کی ضرورت پوری ہوجائے گی۔ ضرورت مند اچانک مدد پر آپ کے لیے دل سے دعا کرے گا۔ عام فقیروں کی رٹی رٹائی دعائیں صرف زبان سے نکلتی ہیں، دل سے نہیں! صدقہ صرف روپے پیسے کا نہیں۔ اپنے کپڑے، بچوں کے فالتو کھلونے، راشن جو بھی ممکن ہو۔ عادی بھکاری کو کھانا کھلانے کی بات کر کے دیکھیں، وہ فورا کہہ دے گا ’’بابو جی! کھانا رہنے دو، بس پانچ روپے دے دو‘‘
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی رسی اٹھائے اور لکڑی کا گٹھا اپنی پیٹھ پر لاد کر لائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ جا کر کسی سے سوال کرے اور وہ اسے دے یا نہ دے۔ (بخاری کتاب الزکوٰۃ، باب الاستعفاف عن المسئلہ)
مشاہدے میں ہے کہ ایک بھکاری 22،24 برس سے ایک ہی محلے میں روزانہ بھیک مانگنے آتا ہے۔ کیا اتنے سالوں میں ایک دفعہ بھی اس کی ضرورت پوری نہیں ہوئی؟ بھیک مانگ مانگ کر وہ عادی بھکاری بن چکا تھا۔ اسے ضرورت تھی یا نہیں تھی، بس بھیک مانگنا تھی! عادت یا لالچ طمع، کچھ تو تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سوالی جو ہمیشہ لوگوں سے مانگتا رہتا ہے، قیامت کے دن اس حال میں آئےگا کہ اس کے منہ پر گوشت کی ایک بوٹی بھی نہ ہوگی۔ (بخاری، کتاب الزکوٰۃ باب من سال الناس تکثرا)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ”جو شخص اپنا مال بڑھانے کے لیے لوگوں سے سوال کرتا ہے، وہ آگ کے انگارے مانگ رہا ہے۔ اب چاہے تو وہ کم کرے یا زیادہ اکٹھے کر لے. (مسلم، کتاب الزکوٰۃ، باب النھی عن المسئلہ)
معاشرے میں روز بروز عروج پاتی اس بیماری، عادت اور برائی کا زوال کیسے ممکن ہے؟ کیا ہم اس میں کوئی کردار ادا کر سکتے ہیں؟
جی ہاں! آپ اور بھکاری دونوں ایک معاشرے کے افراد ہیں۔ آپ دونوں کی حرکات ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک صاحب نے اپنا ذاتی تجربہ بیان کیا کہ دروازے پر ایک فقیر اپنے کم عمر بیٹے کے ساتھ مانگنے آیا۔ فقیر جوان، صحت مند تھا۔ اس سے پوچھا کہ وہ مانگتا کیوں ہے؟ کوئی کام کیوں نہیں کرتا؟ اس نے جواب دیا کہ اسے کوئی کام نہیں ملتا۔
محلے کے ایک خالی پلاٹ میں کوڑا کرکٹ کا ڈھیر لگا تھا۔ محلے کے تمام رہائشی کوڑا اٹھانے والے کی غیرموجودگی کے باعث کوڑا وہاں پھینک جایا کرتے تھے جس سے محلے میں تعفن پھیل چکاتھا۔ دو چار گھروں سے بات کر کے انہیں آمادہ کیا کہ ہم اسے ایک ریڑھی خرید دیتے ہیں، یہ روزانہ ہمارے محلے سے کوڑا لے جایا کرے گا، اسے طے شدہ معاوضہ دے دیں گے۔ محلے والوں کی رضا مندی سے وہ آدمی اس محلے اور چند دوسرے محلوں سے کوڑا اٹھانے لگا۔ محلے سے تعفن ختم ہو گیا اور معاشرے سے ایک بھکاری۔ اسے اپنی محنت پر ماہانہ معاوضہ ملنے لگا۔ اگر ہم بھی باہمی کوشش سے یونہی کرنے لگیں تو کیا عجب کہ معاشرے میں ایک مفید فرد کا اضافہ ہو جائے۔
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے