ہوم << پہلی غلطی - حنا نرجس

پہلی غلطی - حنا نرجس

آپ کو ایک پوسٹ بہت پسند آ جاتی ہے اور اسے پڑھتے ہی آپ بے اختیار ’’شیئر‘‘ پر کلک کرتے ہیں. آپ میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کاپی پیسٹ کرتے ہیں. شیئر کرنے پر تو نوٹیفیکیشن مل جاتا ہے، اس لیے قطعاً کوئی مسئلہ نہیں. مسئلہ مؤخر الذکر طریقہ کار سے ہے.
کاپی پیسٹ کرنے والے بھی دو طرح کے لوگ ہیں. پہلے وہ جو تحریر کے ساتھ ہی لکھنے والے کا نام بھی کاپی پیسٹ کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو تحریر تو احتیاط کے ساتھ کاپی پیسٹ کر لیتے ہیں لیکن لکھنے والے کا نام اسی احتیاط سے کاٹ کر الگ کر دیتے ہیں. اب پھر مسئلہ مؤخر الذکر طریقہ کار سے ہی ہے.
یہ نام کاٹ کر الگ کر دینے والے بھی دو طرح کے لوگ ہیں. پہلے وہ جو جانتے بوجھتے یعنی ارادتاً ایسا کرتے ہیں اور بد نیتی و بد دیانتی دونوں کے مرتکب ہوتے ہیں. ایسا کرنے والے آج میرے مخاطب تو نہیں، ہاں دعاؤں میں ضرور شامل ہیں. اللہ تعالٰی ہم سب کو ہدایت دے اور اس پر کاربند رکھے. دوسرے وہ ہیں جو محض بے پروائی، غلطی کا احساس نہ ہونے یا نتائج کا شعور نہ رکھنے کی بنا پر ایسا کرتے ہیں.
ٹھہریے، ابھی بات مکمل نہیں ہوئی. اس دوسری قسم میں پھر دو طرح کے لوگ شامل ہیں. ایک وہ جو لا ابالی اور کھلنڈری سی طبیعت رکھتے ہیں. یہ وقتی جذبے کے تحت نقل کر کے دوسرے کی تحریر پوسٹ تو کر دیتے ہیں مگر پھر خود بھی بھول جاتے ہیں کہ کیا، کب اور کیوں پوسٹ کیا تھا. ان سے کچھ کہنے کا کوئی فائدہ نہیں، ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیں گے. دعاؤں میں ویسے یہ بھی شامل ہیں. دوسرے وہ لوگ ہیں جو اچھی، دینی اور اصلاحی پوسٹس روزانہ کی بنیاد پر ایک مشن کے تحت کاپی پیسٹ کرتے ہیں. ان کی والز اور واٹس ایپ میسجز اس عمل کے گواہ ہیں. جی ہاں، اب میں اپنے اصل مخاطبین تک پہنچ چکی ہوں.
تو عزیز بہنو/ بھائیو، جب آپ سے ایسی حرکت سرزد ہوتی ہے تو اس کی زد اس ادارے/ گروہ/ مکتبہ فکر پر بھی پڑتی ہے جس کا نام لے کر آپ اپنی وال پر خود کو متعارف کروا رہے ہوتے ہیں. میں نام نہیں لینا چاہوں گی، بن بتائے ہی یقین کر لیجیے کہ اس میں بڑے بڑے نام شامل ہیں. طلبہ تو ایک طرف، اساتذہ تک اس میں ملوث ہیں.
آپ یقیناً بےحد اچھے ہیں کیونکہ اچھی بات کو شیئر کرنا بذات خود آپ کی فطرت کی اچھائی پر دلالت کرتا ہے. مگر ’’بے نام‘‘ تحریر شیئر کر کے آپ ایک طرح سے غلط بیانی اور دھوکہ دہی کے مرتکب ہو رہے ہوتے ہیں. آج ہی تائب ہو جائیے. لکھنے والے کا نام معلوم ہو تو تحریر کے آغاز میں لکھیے. جیسے،
تحریر: محمد فیصل شہزاد
تحریر: نیر تاباں
شاعر: ضیاء اللہ محسن
تحریر: یاسمین الہی
تحریر: بشارت علی
شاعرہ: ملیحہ سید
تحریر: عامر ہاشم خاکوانی
تحریر: فرح رضوان
تحریر: ستارہ امین کومل
اگر معلوم نہ ہو یا جہاں سے آپ لے رہے ہوں، آپ کو یقین ہو کہ وہاں بھی کاپی پیسٹ سے ہی پہنچی ہے تو آغاز یا اختتام پر یوں لکھیے،
کاپی پیسٹ
منقول
انتخاب
یوں یہ واضح ہو جاتا ہے کہ آپ کی نیت میں کوئی کھوٹ نہیں ہے لیکن ایسا نہ کرنے سے آپ اچھا لکھنے والوں کو لکھنے سے روکنے کا باعث بن سکتے ہیں. سوچ لیجیے، وبال آپ کے کاندھوں پر ہوگا. یونی کوڈ میں لکھنا، لکھنے اور پڑھنے دونوں میں سہولت دیتا ہے. لکھاری شائع ہونے کا انتظار کیے بغیر مسلسل اچھی و مفید باتیں آپ تک پہنچاتا ہے. اس کارخیر کو جاری رکھنے میں تعاون کیجیے.
یقین جانیے آپ کی معمولی سی غلطی سے لکھنے والے کو جو دکھ پہنچتا ہے وہ الگ، بعض صورتوں میں انجام اتنا بھیانک ہوتا ہے کہ آپ اندازہ بھی نہیں کر سکتے. کیا محسوسات ہوتے ہوں گے جب لکھنے والا خود اپنی ہی تحریر کا ’’چور‘‘ قرار دے دیا جائے؟ آخر کسی سے تو وہ ’پہلی غلطی‘ ہوئی نا، جس کے اثرات اتنے حوصلہ شکن نکلے. یہ کوئی فرضی بات نہیں، ایک معروف لکھاری بھائی کے ساتھ ایسا ہو چکا ہے.
یہ باتیں اگرچہ سوشل میڈیا کے حوالے سے کی گئی ہیں مگر ان کا اطلاق پرنٹ میڈیا پر بھی اسی طرح ہوتا ہے.
امید کرتی ہوں میرے پیغام کو مثبت طور پر لے کر اصلاح کی کوشش کی جائے گی اور آئندہ جس لکھاری کی تحریر آپ کو پسند آئے گی، اس کے نام کے ساتھ آگے پہنچانا آپ کو ’’ناپسندیدہ‘‘ محسوس نہیں ہو گا. باقی نیتوں کے حال سے اللہ بخوبی واقف ہے اور ہم بدلے کی امید بھی صرف اسی سے رکھتے ہیں.
’’میں اس کام پر تم سے کسی اجر کا طالب نہیں ہوں، میرا اجر تو رب العالمین کے ذمہ ہے.‘‘ (الشعرا 109)

Comments

Click here to post a comment