ہوم << سیلانی فون نہ کرسکا - سیلانی کے قلم سے

سیلانی فون نہ کرسکا - سیلانی کے قلم سے

احسان کوہاٹی سیلانی کی آنکھوں میں چمک آگئی، اس نے بے تابی سے ٹیلی فون کا ہیڈ فون کان اور کاندھے کے درمیان دبایا اور بےترتیب دھڑکنوں کے ساتھ فون کے بٹن دبانے لگا، 0091 کا کوڈ ملاتے ہوئے سچی بات ہے کہ اس کے ہاتھ کپکپا رہے تھے. ایک شہر کے اس ٹیلی فون کوڈ کے بعد ملائے جانے والے ٹیلی فون کی گھنٹی اس گھر میں بجنے والی تھی جہاں سے اٹھنے والی آواز نے دنیا کے سب سے بڑے شاطر کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی تھی، بھارتی بنیے کی آنکھوں سے نیند اڑا دی تھی، چانکیہ کے چیلوں کی دوڑیں لگوا دی تھیں۔
یہ گھنٹی مقبوضہ کشمیر کے شہر پلوامہ میں برہان مظفروانی شہید کے گھر بجنے کو تھی، بائیس برس کے اس شہید نے بہت کم عمری میں بڑی مراد پالی تھی، برہان وانی نے پندرہ برس کی عمر میں کرکٹ کا بلا چھوڑ کر کلاشنکوف اٹھائی تھی، سرخ و سپید رنگت والے اس نوجوان نے مقبوضہ کشمیر کی مسلح تحریک آزادی کو وینٹی لیٹر (ventilator) سے اٹھا کر ایک بار پھر ہندو برہمن کی آنکھوں سے نیند نوچ لی تھی ، دل سے سکون چھین لیاتھا۔
Muzaffar-Ahmad-Wani سیلانی دھک دھک کرتے دل کے ساتھ ٹیلی فون نمبر ڈائل کرنے لگا اور سوچنے لگا کہ وہ اس شخص سے کیا کہے گا، کس طرح سے گفتگو کا آغاز کرے گا، کیا سب سے پہلے برہان کی جواں موت پر تعزیت کرے۔ اس نے یہ خیال رد کرنے میں سیکنڈ کا ہزارواں حصہ بھی نہیں لگایا کہ جو شخص بیٹے کی شہادت پر ہاتھ اٹھا اٹھا کر اللہ تعالٰی کا شکر ادا کرے اسے کیا پرسہ دینااور کیسی تعزیت کرنی، اس نے تو برہان کی تربیت ہی ایسی کی تھی کہ وہ رب المجاہدین کی بے تیغ برہان بنا، اس کے جسم سے بہتے سرخ لہو نے وادی کے مظلوم مسلمانوں کو جیسے جھنجھوڑ کر بیدار کر دیا، پوری وادی میں حریت کی آگ لگا دی، کشمیری دیوانہ وار آزادی آزادی کے نعرے لگاتے سڑکوں چوراہوں پر آگئے، 8جولائی کو بم ڈورہ کوکیرناگ میں برہان کی شہادت کے بعد کشمیر بھارت سے سنبھلے نہیں سنبھل رہا، آئے دن کے مظاہرے، ہر روز احتجاج۔ جسم میں درجنوں چھرے گھسا دینے والی پیلٹ گن کشمیریوں کو گھروں میں مقید رکھ پا رہی ہے نہ بھارتی فوجیوں کی G-2 رائفلوں کے برسٹ اور نہ گورکھا فوجیوں کی کلاشنکوفوں کے نالوں سے گولیوں کے بھرے، کشمیریوں کو نعرہ مستانہ بلند کرنے سے باز رکھ پا رہے ہیں، یہ سب اسی بائیس برس کے شہید کے خون کا اعجاز ہے۔
نیوز روم میں نمبر ڈائل کرتے ہوئے یونہی سیلانی کی نگاہ سامنے دیوار پر نصب دس ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر پڑی اور پھر ٹیلی فون کے بٹنوں پر اس کی انگلیوں کا دباؤ کم پڑنے لگا، اس کی انگشت شہادت ساکن ہوگئی، سامنے نیوز چینلز کی اسکرینوں کی تہہ میں سرکتے لفظ کچھ ایسی ہی خبر دے رہے تھے، بتا رہے تھے کہ بھارتی وزیرداخلہ راج ناتھ سنگھ پاکستان پہنچ گئے ہیں۔
ہندو توا کے لیے کام کرنے والی مسلم دشمن انتہا پسند ہندو تنظیموں راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ سے برسوں جڑے رہنے والے اور ان کا ایجنڈا لے کر بھارتیہ جنتا پارٹی میں آنے والے متعصب راج ناتھ سنگھ پاکستان میں سارک کانفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آبادrajnath-singh_650x400_51470285695 پہنچے تھے، یہ وہی راج ناتھ تھے جو کشمیر میں برہان وانی کی شہادت کے بعد کشمیریوں کو رام کرنے مقبوضہ کشمیر پہنچے تو کشمیریوں نے سرینگر میں پاکستان کا پرچم لہرا کر اسے واضح پیغام دیا کہ اب وہ کسی ہوا میں نہ رہے، سیلانی کے پاس کشمیریوں کا مظاہرے کا وہ کلپ موجود ہے جب وہ سبز پرچم لہراتے ہوئے، فلک شگاف نعرے لگاتے ہوئے کہیں بڑھتے چلے جا رہے تھے کہ انہیں وہاں کسی نے مجاہدین کی موجودگی کی بھی اطلاع دے دی، بس پھر کیا تھا کشمیریوں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ ان جہادیوں کی راہ میں خاک بن کر بکھر جاتے، کشمیری انہیں دیکھتے، ان کے ہاتھ چومتے، ان کی پیشانیوں کو بوسے دیتے اور سینے سے لگا کر پشت تھپتھپاتے۔ یہ برہان وانی کی راہ پر چلنے والے مجاہدکمانڈر ابو دجانہ اور ان کے ساتھیوں سے محبت عقیدت کا اظہارتھا.
کشمیر میں مجاہدین اسی طرح ہزاروں لاکھوں کے جلوس میں چپکے سے داخل ہوتے ہیں اور کشمیریوں کو تب پتہ چلتا ہے جب وہ کلاشنکوف لہرا کر تکبیر کا نعرہ بلند کرتے ہیں، انہیں جب معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑوں پر رہنے اور چٹانوں کا سا حوصلہ رکھنے والے مجاہدین ان کے سا تھ ہیں تواس کے بعد جلوس کا رنگ ہی کچھ اور ہوتا ہے، نعروں کا جواب اس شدت سے دیا جاتا ہے کہ وادی کی زمین تھر تھرا اٹھتی ہے، آواز دہلی تک پہنچ کر بنیا مہاراج کے سینے پر سانپ لوٹانے لگتی ہے۔
راج ناتھ ایسے ہی بے چین ہو کر مقبوضہ کشمیر نہیں آیا تھا، برہان وانی کی شہادت کے بعد مظاہروں میں ساٹھ کشمیری بھارتی فورسز کی گولیوں سے چھلنی ہو کر شہید ہو چکے تھے، دو ہزار سے زائد پیلٹ گن کے چھروں کا نشانہ بن کر ساری عمر کے لیے کوئی نہ کوئی معذوری لے چکے تھے، ان میں وہ بچے اور بچیاں بھی تھیں جن کی آنکھوں کی روشنیاں ان چھروں سے بجھ چکی تھیں۔ اس کے باوجود مظاہرے ختم ہو رہے تھے نہ احتجاج، مجبورا گجرات کے قصاب نریندر مودی نے راج ناتھ کو تھپکی دے کر کشمیر روانہ کیا لیکن اس کے ہاتھ کیا آیا؟ راج ناتھ کا استقبال دہلی کی کٹھ پتلی مفتی سرکار کے بعد حریت قیادت کے سخت رویے نے کیا، راج ناتھ سنگھ باوجود کوشش کے کسی بھی حریت رہنما کے گھر پر دستک نہ دے سکا، ملاقات کے لیے وقت نہ لے سکا، علی گیلانی سے لے کر میر واعظ عمرفاروق تک ہر جگہ سے راج ناتھ کو سبکی ہی ملی تھی اور اب عزت مل رہی تھی تو اس پاکستان میں جسے کشمیری خانہ کعبہ کے بعد سب سے مقدس مانتے اور جانتے ہیں۔
سیلانی کا ہاتھ ٹیلی فون کے بٹنوں سے ہٹ گیا، اس کا چہرہ مرجھا سا گیا، کاندھے اور کان کے درمیان دبا ہیڈسیٹ، کریڈل پر آگیا اور وہ خاموشی سے اپنی کرسی پر آ کر بیٹھ گیا. برہان وانی کے گھر کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرنے کی ساری خوشی کافور ہو چکی تھی۔ وہ سیل فون ہاتھ میں لیے اسے خالی خالی نظروں سے دیکھنے لگا، اس کی دلی کیفیت بڑی عجیب سی ہو رہی تھی. جی چاہ رہا تھا کہ ابھی کال ملا کر مظفر وانی سے بات کرے اور پھر اگلے ہی لمحے کچھ سوچ کر چپکا ہو رہتا، وہ اسی ادھیڑ بن میں تھا کہ اس کے سیل فون نے واٹس ایپ پر کسی دوست کے پیغام آنے کی اطلاع دی۔ پیام کیا تھا کوئی تصویر تھی جسے ڈاؤن لوڈ کرنا تھا، سیلانی نے سیل فون کے بٹنوں سے چھیڑچھاڑ کر کے اسے ڈاؤن لوڈ کیا اور اگلے ہی لمحے وہ ہکا بکا اور پریشان بیٹھا تھا، سیل فون پر کی اسکرین پر کشمیر کے بغیرپاکستان کا نقشہ تھا، یہ تصویر پاکستان کے سرکاری ٹیلی ویژن پی ٹی و ی گلوبل کے اسکرین شاٹ کی تھی، اسکرین شاٹ یقینی طور پر کسی خبرنامے کے دوران دکھائے جانے والے فوٹیجز کا تھا جس میں major projects of the China-Pak economic coridoor کا ذکر تھا. اس سرخی کے نیچے پاکستان کا نقشہ بنا کر اس کوریڈور کی راہداری کی راہ دکھائی گئی تھی، ضرور دکھائی جاتی، سو نہیں ہزار بار دکھائی جاتی لیکن سرکاری ٹی وی نقشہ تو پورا دکھاتا، اس کے دکھائے جانے والے نقشے سے کشمیر ہی غائب تھا۔ عجیب اتفاق تھا کہ بھارتی وزیرداخلہ ایک ایسے وقت میں پاکستان آئے تھے جب کشمیر میں تحریک آزادی چنگاری سے الاؤ بن چکی ہے اور ایسے ہی وقت میں سرکاری ٹیلی ویژن اپنے خبرنامے کے نقشے سے ’’کشمیر‘‘ہی غائب کردیتا ہے، ایسا ہی اتفاق بےنظیر بھٹو صاحبہ کے دور وزارت میں بھی ہوا تھا جب پاکستان کے دورے پر آئے راجیو گاندھی کی کھلی پیشانی پر ناراضگی کے بل پڑ جانے کے ڈر سے کشمیر ہاؤس سے اس کے نام کا بورڈ ہی اتار لیا گیا تھا لیکن یہ دور تو بےنظیر بھٹو کا نہیں ان کے شدید مخالف اور کشمیری النسل نوازشریف کا ہے، پھربھی پی ٹی وی ایسی غلطی کر بیٹھا؟
’’اتفاق‘‘ سے ہونے والی غلطی دیکھ کر سیلانی کے دل پر بوجھ بڑھ گیا، تھوڑی دیر پہلے وہ حزب المجاہدین کے شہید کمانڈر برہان وانی Burhan-Waniکے والد سے ٹیلی فون پر بات کے لیے الفاظ کھوج اور سوچ رہا تھا اور اب اس میں حوصلہ ہی نہیں ہورہا تھا، وہ کیا جواب دیتا اگر شہید کے والد اس سے کہہ دیتے کہ ہم تو پاکستان کی خاطر جانیں دے رہے ہیں، اپنے جگر گوشے کٹوا رہے ہیں اور آپ ہمیں ہی خود سے کاٹ کر علیحدہ کر رہے ہیں۔ سیلانی کیا کہتا جب وہ پوچھ بیٹھتے کہ اسلام آباد میں راج ناتھ کا استقبال کیسا رہا؟ کس نے ہاتھوں میں ہاتھ دیا اور کس نے پھولوں کا گلدستہ تھمایا؟ سیلانی کے پاس کیا جواب ہوتا جب وہ کہتے کہ یہی شخص ہمارے پاس بھی آیا تھا، منتیں ترلے کر رہا تھا، ترغیبات دے رہا تھا کہ پانچ منٹ کے لیے ہی مل لو لیکن ہماری حریت قیادت توایک طرف کشمیر کے تاجروں نے بھی اسے گھاس نہیں ڈالی اور اسے دہلی کی راہ دکھا کر رخصت کیا۔ سیلانی کیا بات بناتا کہ جب وہ کہتے کہ اسی شخص کے مشورے سے تو کشمیر میں کرفیو لگتا ہے، فوج گولی چلاتی ہے اور ہم لاشیں اٹھاتے ہیں اورآپ اسے وی وی آئی پی پروٹوکول دے رہے ہیں۔ سیلانی کہہ دیتا کہ جناب کچھ سفارتی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں، کہیں بات رکھنی پڑتی ہے، کہیں بات بنانی پڑتی ہے، آپ سمجھا کریں۔ اور اس کے جواب میں وہ کہہ دیتے کہ ہم پر سات لاکھ فوج مسلط ہے، ہم جوان بچوں کے لاشے اٹھا اٹھا کر تھک چکے ہیں، ہمارے بوڑھے کاندھے اب مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے، ہماری بھی مجبوری ہے آپ بھی سمجھا کریں۔ تو ٹی وی ٹاک شو میں سقراط بننے والے دانشوروں سے لے کر اخبارات میں دو دو بالشت کے کالم لکھنے والے مفکر اور سرتاج عزیز جیسے عالی دماغ اس مجبوری کو کس طرح رد کر سکتے ہیں، کیا دلیل لا سکتے ہیں، کیا توجیہہ پیش کر سکتے ہیں؟ سیلانی کے پاس تو سوائے خاموشی کے کچھ جواب نہ بن پاتا وہ یہ سوچتا ہواخالی خالی نظروں سے ٹیلی ویژن پر راج ناتھ سنگھ کی پاکستان آمد کے ٹکرز پڑھنے لگا اور متعصب ہندو نیتا کو جہاز کی سیڑھیاں اترتا دیکھتارہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔

Comments

Click here to post a comment