ہوم << کیا پاکستانی گولن کی گھناؤنی تحریک سے واقف ہیں؟ علی شاہین، ترک نائب وزیرخارجہ کا دلیل کےلیےخاص مضمون

کیا پاکستانی گولن کی گھناؤنی تحریک سے واقف ہیں؟ علی شاہین، ترک نائب وزیرخارجہ کا دلیل کےلیےخاص مضمون

علی شاہین جمہوریہ ترکی کے نائب وزیرخارجہ ہیں۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی امور سے فارغ ہیں۔ دلیل کے لیے انھوں نے خصوصی طور پر اپنا مضمون بھجوایا ہے۔
علی شاہین جمہوریہ ترکی کے نائب وزیرخارجہ ہیں۔ کراچی یونیورسٹی شعبہ بین الاقوامی امور سے ماسٹر کی ڈگری حاصل کی ہے۔ پاکستان سے خصوصی قلبی تعلق ہے. دلیل کے لیے انھوں نے بطورخاص یہ مضمون بھجوایا ہے۔
دنیا میں بعض ممالک ایسے ہوتے ہیں جن کا نام سنتے ہی آ پ کو اس ملک اور قوم سے اپنے ملک اور قوم جیسے رشتے اور جڑت کا احساس ہوتا ہے۔ بعض شہروں سے آپ کو ایسی اپنائیت محسوس ہوتی ہے گویا آپ وہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور جہاں کی گلیوں میں آپ بھاگے دوڑے ۔ کچھ قومیں ایسی ہوتی ہیں جن کے ساتھ آپ احساس کے رشتے میں بندھے ہوتے ہیں گویا وہ آپ کا اپنا ملک، قوم اور شہر ہو۔ پاکستان، کراچی، لاہور، اسلام آباد کے بارے میں میرے ٹھیک یہی جذبات ہیں۔ روئےارض پر ترکی کے بعد اگر کوئی میرا اپنا دوسرا ملک ہے تو وہ پاکستان ہے۔ اس احساس کا تانا بانا پاکستان کے ساتھ ہمارے تاریخی تعلقات سے ہی نہیں جڑا ہوا بلکہ یہ وہ ملک ہے جہاں مجھے پڑھنے اور کئی سال گزارنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ترکی واپسی کے بعد بھی میں نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات کواستوار رکھا۔ میں ترکی میں پاکستان کو ایسے ہی یاد کرتا ہوں جیسے میں پاکستان میں رہتے ہوئے اپنے پیارے ملک ترکی کو یاد کیا کرتا تھا۔ جب میں استنبول یا انقرہ کی گلیوں میں گھومتے ہوئے کسی پاکستانی کو دیکھتا تو اسے ”کیا حال ہے؟“ کہہ کر سلام د عا کرتا۔
ترکی میں میری زندگی کا ہر لمحہ پاکستان کی چاہت، ترکی میں آئے پاکستانی دوستوں سے ہاتھ ملاتے یا نصرت فتح علی خان کا گانا ”کسے دا یار نہ وچھڑے“سنتے ہوئے گزرتا ہے۔ مرحوم معین اختر کا پی ٹی وی پر چلنے والا شو "معاف کیجیے گا"، میرا پہلا ٹی وی شو تھا جہاں میں بطور مہمان شریک ہوا تھا۔ اس شو کو میں اب بھی کبھی کبھی یوٹیوب پر دیکھتا اور لطف اندوز ہوتا ہوں۔ میں پاکستان سے کسی بھی پاکستانی شہری کی طرح ٹوٹ کر محبت کرتا ہوں۔
علی شاہین کی معین اختر کے شو ' معاف کیجیے گا' میں شرکت اور گفتگو کی ویڈیو
https://www.youtube.com/watch?v=Jz5iuMpIoMg
15 جولائی 2016ء کو ترکی آرمی میں فتح اللہ گولن کے گھس بیٹھیے فوجیوں نے جب آمریت مسلط کرنے کی کوشش کی تو پاکستان سے فون کال آنے پر میں اپنے آپ کو ساتویں آسمان پر محسوس کر رہا تھا۔ فون پر میرا دوست کہہ رہا تھا کہ کراچی میں ایک بہت بڑا ہجوم ترکی اور اردوان کی حمایت میں اکٹھا ہُوا ہے۔ اُس نے پوچھا کہ کیا میرے لیے اُس ہجوم سے خطاب ممکن ہے؟ 20 میں نے بخوشی جواب دیا کہ ہاں۔ چنانچہ میں نے کراچی میں اپنے بھائیوں سے ٹیلی فون پر خطاب کیا۔ یہ امر باعثِ حیرت تھا کہ مصیبت کے اس وقت میں ہم اہل ِترکی تنہا نہیں تھے بلکہ پاکستانی بھائیوں کی طرف سے ترکی اور اردوان کے لیے حمایت ببانگِ دہل جاری تھی۔ میں نے اپنے آپ سے کہا "مجھے یقین ہے کہ ہم تنہا نہیں ہیں"۔ مجھے معلوم تھا کہ پاکستانی بھائی ہمیں مصیبت میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔
15جولائی 2016ء کی رات ترکی کے لیے ایک ناقابل یقین اور خوف ناک رات تھی۔ جو کچھ اس رات ہوا، ہمیں اب بھی اس پر یقین نہیں آرہا۔ فتح اللہ گولن اور اس کے گماشتوں نے 1980ء میں رجعت پسند طلبہ کو تعلیم دینے کے بہانے پرائیویٹ تعلیمی ادارے قائم کیے۔ انھوں نے ترکی کے مرکزی اداروں جیسے عدالت، پولیس اور ترکی فوج میں 20 سے 30 سالوں کے دورانیے میں اپنے حمایتیوں کی اچھی خاصی تعداد بہم پہنچا لی.گولن کے حامی جج، پراسیکیوٹرز اور پولیس آفیسرز نے باہمی تعاون سے حکومت کو گرانے کی کوشش کی۔ کرپشن کے انسداد کی آڑ میں 17 دسمبر 2013ء کو طیب حكومت کے خلاف آپریشن کا آغاز کیا تاہم انھیں منہ کی کھانی پڑی اور ترکی عوام نے رجب طیب اردوان كو 52 فیصد کی اکثریتی حمایت کے ساتھ ملک کاصدر منتخب کیا۔
اس ناکام آپریشن کا بنیادی مقصد ترکی میں خلفشار پیدا کرنا تھا۔ وہ ترکی جو معاشی اعتبار سے مسلسل ترقی کی راہ پرگامزن ہے، جہاں سیاسی و معاشی استحکام جڑیں پکڑ رہا ہے۔ ترکی آئی ایم ایف کے قرضوں سے جان چھڑا کر اب اس پوزیشن میں آچکا ہے کہ 8 بلین ڈالر سے زائد وہ دوسرے ممالک کی امداد کر چکا ہے۔ اس خلفشار کا مقصد اردوان کے رستے میں روڑے اٹکانا تھا۔ وہ اردوان جو گلوبل سسٹم کے ناقد ہیں، جو تبدیلی کے لیے کوشاں ہیں اور جنھوں نے " دنیا پانچ ہی نہیں" کا نعرہ ٔ مستانہ لگایا ہے۔
17 دسمبر 2013ء کو ہونے والے آپریشن میں ناکامی کے بعد گولن کے حمایتیوں جن کے سازشی سرغنوں کی جڑیں ترکی افواج میں پیوست ہیں، نے 15 جولائی 2016ء کو ترکی کی ترقی میں رکاوٹ ڈالنے اور طیب اردوان کو ایک خود کش حملے میں قتل کرنے کی کوشش کی۔ طیب اردوان اس روز 15 منٹ کے وقفے سے بال بال بچے۔ پارلیمان کی عمارت کو بمباری کا نشانہ بنایا گیا۔ میری بیوی بچے اور میں خود رات پونے 3 بجے جیٹ جہازوں کی ہوائی بمباری میں اپنی جان بچانے کی سر توڑ کوشش کر رہا تھا۔ ترکی عوام ٹینکوں اور ہیلی کاپٹروں سے بمباری کے باوجود گلیوں میں نکل آئی۔ انھوں نے جمہوریت کے لیے اپنی جان تک کی پرواہ نہ کی۔ نتیجتاً 245 کے قریب لوگ شہید ہوگئے۔
پاک ترک سکول یا آستین کے سانپ
فتح اللہ گولن جس نے نام نہاد تقدس کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے، اس نے پرائمری تعلیم بطور ایک پرائیویٹ طالب علم مکمل کی۔ چند مسمریزی ہتھکنڈوں سے لوگوں کو اپنےگرد اکٹھا کیا۔ مذہب کے استحصال سے اسے خفیہ ایجنسیوں کے تابع لایا گیا۔ خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی اور تعاون سے گولن نے تعلیم کے نام پر انٹیلی جنس کا ایک عالمی نیٹ ورک قائم کیا۔ افریقہ، یورپ اور ایشیا کے بہت سے ملکوں میں سکول قائم کیے۔ وہ جس ملک میں بھی گیا، وہاں کے سرکردہ لوگوں سے اس نے تعلقات استوار کیے۔ انٹیلی جنس اکٹھی کی اور متعلقہ حکام کو وہ معلومات بہم پہنچائیں۔
گولن تحریک کے قائم کردہ سکول آستین کے سانپ اور ٹروجن وائرس ہیں۔ ان سکولوں کو بطور ہتھیار استعمال کرکے اپنے ہاں سے فارغ التحصیل طلبہ کے ذریعے معصومیت کا لبادہ اوڑھ کر ان ملکوں میں اپنے پنجے مضبوطی سے گاڑھتے ہیں، حساس اداروں میں نقب لگاتے ہیں اور 20 سے 30 سالوں میں کسی بھی ادارے کو مفلوج کرکے رکھ دیتے ہیں۔ پوسٹ ماڈرن جنگی ہتھیار کے طور پر عالمی قوتیں ٹارگٹ ممالک کا کنٹرول حاصل کرکے انھیں غیر مؤثر بنادیتی ہیں اور فتح اللہ گولن کے انداز میں اُسی ملک سے لوگ پیدا کرکے بغیر روایتی جنگ لڑے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتی ہیں۔ یوں اُن کی شروع کی ہوئی جنگ زیادہ واضح ہوجاتی ہے اور بغیر کسی نقصان کے زیادہ مؤثربھی۔ کاش ہمارے پاکستانی دوست یہ جان لیں کہ فتح اللہ گولن کے قائم کردہ سکول پاکستانی بچوں کی بہتری کے لیے نہیں ہیں۔ اگر پاکستان، پاکستانی عدالت، پولیس اور فوج سے 15 سے 20 سال کے دورانیے میں اسی طرح کے عذاب سے دوچار نہیں ہونا چاہتا، اپنی پارلیمنٹ کی عمارت پر بم گرتے نہیں دیکھنا چاہتا تو اسے فوری حفاظتی اقدامات کرنا ہوں گے اس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔ ہمارا تلخ تجربہ پاكستان کے لیے ایک سبق ہونا چاہیے۔
اے پاکستان! میں آپ سے محبت کرتا ہوں۔ اے کراچی، اے لاہور، اے اسلام آباد اور اے ملتان! میں آپ سب سے بہت محبت کرتا ہوں۔ پاک ترک دوستی زندہ باد

Comments

Click here to post a comment

  • Respect for Mr. Ali Shaheen for his heart-felt feelings about Pakistan and its people. However, I'm afraid that he's pleading his case with weak arguments and without any solid foundation. He has proof at all against these schools, especially those running in Pakistan. Can he give an example of a single student of Pak Turk Schools who has been involved in any terrorist or anti- democratic movement and whether there's something in the curriculum of these schools which instigates the students to overthrow their government.

  • اس میں کسی حد تک صداقت ہے . ایسے مدرسے پاکستان میں ہیں جو عصبیت کی تعلیم دے تھے ہیں جو قوم کو پھاڑ رھے ہیں جو شرک پھیلاتے ہیں جو دین کے ٹھیکے دار بنے ہوے ہیں