ہوم << باجوڑ دھماکا: افغانستان میں قیامِ امن کی قیمت؟-حماد یونس

باجوڑ دھماکا: افغانستان میں قیامِ امن کی قیمت؟-حماد یونس

باجوڑ خود کش دھماکے میں 60 بے گناہ پاکستانی دہشت گردوں کی بھینٹ چڑھ گئے، جبکہ 150 سے زائد افراد شدید زخمی ہیں۔
پاکستان، صلح کا پیغام بر اور عالمی امن کا خواہاں ہے۔ ہم جیو اور جینے دو کے نظریے پر کاربند ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ امنِ عالم کی اس جستجو کی ہم نے بھاری قیمت بھی چکائی ہے۔ موجودہ صدی کے آغاز سے ہی جو دہشت گردی کی لہر دنیا بھر میں پھیل گئی ، اس کے خلاف پاکستان سے زیادہ جدو جہد کسی نے بھی نہیں کی۔ تقریباً ایک لاکھ پاکستانی سویلینز اور فوجی جوان، خطے میں قیامِ امن کی جدوجہد میں قربان ہوئے ہیں ۔ جبکہ اس دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستانی معیشت کا حال یہ ہے کہ پاکستان بالکل کنگال ہو کر رہ گیا ہے ۔ پورا ملک آگ اور خون کی ندی میں بہتا چلا گیا ہے۔

دہشت گردوں کو پاکستان سے مسئلہ کیا ہے ؟
دہشت گردی کے خلاف یہ جنگ پاکستان نے تو شروع نہیں کی۔ یہ جنگ تو خود ان دہشت گردوں نے ہم پر مسلط کی۔ہمارے شہروں، دیہاتوں ، مسجدوں ، امام بارگاہوں، گھروں اور بازاروں میں ان دہشتگردوں نے موت کا کھیل سینکڑوں بار رچایا ہے۔ حالانکہ افغانستان پر حملہ امریکہ نے کیا تھا ، پاکستان نے نہیں۔ ان دہشت گرد تنظیموں کے توسیع پسندانہ عزائم میں پاکستان کا کردار صرف اتنا تھا کہ پاک فوج اور اداروں نے پاکستان کو ان دہشت گردوں کے حوالے نہیں کیا۔پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور یہاں کس نظام یا نظریہ نے راج کرنا ہے، یہ یقیناً پاکستان کے عوام ہی طے کریں گے، کوئی انتہا پسند دہشت گرد نہیں۔
چنانچہ پاکستان میں جس دہشتگرد گروہ نے پنپنے یا سر اٹھانے کی کوشش کی، پاک فوج نے اس کی کمر توڑ دی۔

اسی کا انتقام تو یہ دہشت گرد مسلسل لینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔

انہی میں سے ایک گروپ کا نام تحریک طالبان پاکستان تھا، جس کا دعویٰ تھا کہ افغان طالبان اور تحریک طالبان پاکستان میں کوئی فرق نہیں اور افغان طالبان کی جنگ ہی تحریک طالبان پاکستان نے پاکستان میں جاری رکھی ہوئی ہے ۔اس دعوے کی افغان طالبان نے کبھی بھی واضح تائید یا تردید نہیں کی، چنانچہ گمان یہی ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا افغان طالبان سے کوئی باقاعدہ تعلق نہیں تھا۔

دوسری جانب، 2021 میں افغانستان سے جب امریکی اور اتحادی افواج کا انخلا ہوا تو طالبان نے پورے افغانستان پر اپنی حکومت قائم کر لی۔ جس کا پاکستان نے خیر مقدم کیا، کیونکہ پاکستان ایک طاقتور ، خود مختار اور مضبوط افغانستان کے قیام کا خواہشمند ہے اور افغانستان کا خیر خواہ ہے، افغانستان میں جو بھی حکمران ہو، پاکستان بنا کسی ذاتی مفاد کے اس کے ساتھ تعاون کرنے کو تیار ہے۔
پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کی جانب کا دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے اور افغانستان کو اپنا برادر ملک سمجھتا ہے ۔

اب جبکہ افغان طالبان افغانستان میں حکومت قائم کر چکے ہیں ، تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پاکستان میں دہشتگردانہ کارروائیاں مسلسل جاری ہیں ۔ٹی ٹی پی کو افغانستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں، چنانچہ اس کے دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں مسلح کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ پاکستان نے بارہا افغان طالبان کو نا قابلِ تردید ثبوت فراہم کیے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف استعمال کر رہے ہیں ، مگر افغان حکومت نے کمال ڈھٹائی سے اسے پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دے دیا ۔ حالانکہ یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اور اتحادی افواج کے افغانستان سے انخلا کے وقت افغان طالبان سے یہ واضح معاہدہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین، کسی کے خلاف بھی استعمال نہیں ہو گی۔
اب اگر افغانستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے، پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہے ہیں اور افغان حکومت کے مطابق یہ بان کا سر درد نہیں، تو اس کا حل کیا ہے ؟

دوسری جانب امریکی صدر جو بائیڈن صاحب کا کہنا ہے کہ افغانستان میں دہشتگردوں کے ٹھکانے نہیں ہیں۔ تو پھر افغانستان سے اٹھ کر پاکستان میں آنے والے یہ دہشت گرد کون ہیں؟؟؟ امریکہ ان دہشت گردوں پر پردے کیوں ڈال رہا ہے ؟ کون سے خفیہ عزائم ہیں، جن کی تکمیل کی خاطر امریکہ ان دہشت گردوں کو پال رہا ہے ۔ یہ بات تو واضح ہے کہ اس خطے میں امریکہ کی آمد کا مقصد ہی پاکستان کو بحیثیتِ ریاست ثبوتاژ کرنا تھا ۔
اب عین اس دن، جب سینو پاک اکنامک کوریڈور کی دس سالہ تقریبات کے سلسلے میں چینی سربراہ پاکستان تشریف لائے، ایک دہشت گرد باجوڑ میں دس کلو گرام بم اوڑھ کر پھٹ گیا ، اور تقریباً 60 قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔ مگر بادی النظر میں یہ پاکستان کو ایک غیر محفوظ ملک ثابت کرنے کی کوشش تھی۔ چین، پاکستان کا پرانا اور سچا دوست ہے، پاکستان کی چین سے دوستی صرف بھارت اور امریکہ کو ہی کھٹکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ امریکہ کی ہی خواہش ہے کہ چین کا پاکستان پر سے اعتماد اٹھ جائے اور پاکستان امریکی پنجے سے نکل نہ سکے۔
دوسری جانب ، مسلم دنیا کی ابھرتی ہوئی طاقت، ترکیہ کے نائب صدر کی آمد بھی کل متوقع ہے۔ ترکیہ باطل کی آنکھوں میں کس قدر کھٹکتا ہے، یہ راز اب کوئی راز نہیں۔ ترکیہ سے پاکستان کی گہری دوستی سے عالمی استعمارکے سینے پر سانپ لوٹتے ہیں۔
یہ تو واضح ہے ،کہ امریکہ اپنے کن عزائم کی تکمیل کے لیے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں پر پردہ ڈال رہا ہے۔

دوسری جانب ، اقوامِ متحدہ کا تو واضح کہنا ہے کہ 2000 سے زائد دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں موجود ہیں۔

کیا افغان طالبان ، پاکستان کو مجبور سمجھتے ہیں ؟ کیا ایسا کوئی گمان کسی دل میں پیدا ہو گیا ہے کہ اگر افغان طالبان ، ٹی ٹی پی یا ایسے دہشت گردوں کو نکیل نہ ڈالیں تو پاکستان کچھ بھی نہیں کر سکتا ؟؟؟
پاک افغان سرحد پر جن محفوظ راستوں سے گزر کر یہ تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گرد، باجوڑ اور پاکستان کے دوسرے خطوں میں دہشت گردی کر رہے ہیں، کیا پاک فوج انہی رستوں سے گزر کر ان دہشتگردوں کے ٹھکانے صفحہِ ہستی سے مٹا نہیں سکتی؟؟؟
کیا پھر افغان طالبان کے پاس یہ اعتراض کرنے کا جواز ہوگا کہ پاکستان نے افغان حدود میں در اندازی کی ہے؟؟؟

پاکستان افغانستان سے امن اور دوستی کا خواہاں ہے، ہم کسی تصادم کی راہ نہیں دیکھتے ، ہم امن کے پیامبر ہیں، مگر ساحر لدھیانوی نے بھی کہا تھا کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر ظلم کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
پاکستان امن کا خواہاں اور پیغام بر ہے، مگر یہ پاکستان کی طاقت ہے ، اسے کمزوری نہ سمجھا جائے۔

Comments

HammadYounas

حماد یونس

حماد یونس کالم نگار اور تحقیق کار ہیں جو مختلف نثری جہتوں پر عبور رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ اردو اور انگریزی زبان میں غزل ، نظم اور آزاد نظم بھی کہتے ہیں۔ نمل لاہور سے انگریزی لسان و ادب میں ایم اے کر چکے ہیں ۔

Click here to post a comment