بہاولپور یونیورسٹی کے حالیہ ا سکینڈل نے ہمارے ٹوٹتے بکھرتے سماج کو بہت بری طرح بے نقاب کیا ہے اور اب ہر طرف اس کی گونج سنائی دے رہی ہے لیکن حسب روایت یونیورسٹی سے لے کر پارلیمنٹ تک جو ہوشربا داستانیں میڈیا کی زینت بنتی ہیں، بدقسمتی سے ان پر کم ہی غور وخوض کیا جاتا ہے بلکہ چند دن کی بیان بازیوں کے بعد وہ کیس داخل دفتر کر دیا جاتا ہے اور ہماری 75 سالہ تاریخ اس بات پر شاہد ہے کہ لیاقت علی خان کا کیس ہو یا پھر سقوط ڈھاکہ ہو یا پھر کوئی اور سانحہ اور حادثہ ہو ہم وقتی طور پر اور جذباتی طور پر چند لمحوں کے لیے یا پھر چند جلسے جلوس اور ریلیوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔ اس سے آگے کے مراحل اور پھر معاشرے میں پھیلنے اور سرایت کرنے والی چیزوں کا ادراک ان کا سدباب اور طویل المیعاد منصوبے کے تحت ان کے نتائج حاصل کرنا شاید ہمارے بست و کشاد کے بس کا روگ ہی نہیں یا پھر ترجیح ہی نہیں یا پھر بصیرت کا ہی فقدان ہے وگر نہ کیسے ممکن ہے کہ یکے بعد دیگرے معاشرہ ایسے حادثات کا شکار ہو اور آپ آنکھیں بند کر کے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے ر ہیں۔
اب تک کی اطلاعات کے مطابق 55 سو سے زائد طالبات کی نازیبا ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں اور صرف چیف سکیورٹی آفیسر ہی نہیں بلکہ پورا ایک گینگ ہے جو اس میں ملوث ہے اور اب تو بہت سارے پردہ نشینوں کے نام بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں کہ جن کو دعویٰ مسیحائی ہی نہیں بلکہ دعویٰ رہبری بھی ہے اور شاید یہی المیہ ہے کہ رہبر اب رہزنوں کا خطرناک روپ اختیار کرچکے ہیں۔ چاہے یہ معاشی دہشت گردی ہو ، اخلاقی دہشت گردی ہو ، سیاسی دہشت گردی ہو، یہ دہشت گردی کے ہر رنگ اور روپ میں معاشرے کا ناسور بن چکے ہیں۔ یہ ایک ایسی یونیورسٹی کاا سکینڈل ہے جس میں 50 ہزار سے زیادہ طلبہ و طالبات زیر تعلیم ہےں اور جن طالبات کی ویڈیوز منظر عام پر آ چکی ہیں یا اس اسکینڈل میں ملوث ہیں ان کی تعدادپانچ ہزار پانچ سو بتائی جا رہی ہے بلکہ یونیورسٹی میں پڑھنے والی ہر بیٹی کے کردار کو مشکوک بنا دیا گیا ہے اور یہ کتنے ہی خاندانوں کی تباہی اور بربادی کا باعث بنے گا۔ یہ اور اسی سے جڑے ہوئے المیے اور سانحے ہیں جو سالوں اور صدیوں تک ہماری ان طالبات کا پیچھا کرتے رہےں گے۔
دو سال قبل اسلام آباد میں عید الاضحٰی سے ایک دن پہلے نور مقدم کے قتل کا دلخراش واقعہ پیش آیا اور جوں جوں اس واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آتی گئیں انسانیت کا سر شرم سے جھکتا چلاگیا کہ صرف جنسی درندگی ہی نہیں بلکہ وحشیا نہ طریقے سے جس طرح نور مقدم کو قتل کیا گیا اور اس کے جسم کے ٹکڑے الگ الگ کیے گئے وہ بھی انسانیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے کہ چند لمحے پہلے جس سے آپ اظہار محبت کر رہے ہیں اور جس کو اپنا جیون ساتھی بنانے کی پیشکش کر رہے ہیں اگلے چند لمحوں کے بعد آپ ایک وحشی اور جنونی کی شکل میں اس کا قتل عام کر رہے ہیں۔ یہ ہے اس تہذیب کی ہلکی سی جھلک جو کہتی ہے کہ میرا جسم میری مرضی! جس کے متعلق اقبال نے کہا تھا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ،ناپائیدار ہوگا
چند ماہ قبل لاہور ڈیفنس کے ایک ایلیٹ کلاس کے سکول کی ویڈیو وائرل ہوئی ، جس میں دو طالبات نے ایک طالبہ کو زمین پر گرایا ہوا ہے وہ اسے زد و کوب کر رہی ہیں جب اس واقعے کی تفصیلات منظر عام پر آئیں تو جن طالبات نے یہ گھناؤنا فعل کیا وہ آئس کے نشے اور دیگر غیر اخلاقی حرکات میں ملوث تھیں اور ان کو اس بات کا رنج تھا کہ مذکورہ طالبہ نے ان کی یہ سرگرمیاں ان کے والدین تک کیوں پہنچائیں۔ بعد ازاں ان طالبات کا مقدمہ بھی درج ہوا لیکن ہمیشہ کی طرح قانون طاقت ور اشرافیہ کے سامنے بے بس پایا گیا کیونکہ معاملہ تو اس ٹوٹتے بکھرتے سماج کو بچانے کا تھا اور وہ کسی کی ترجیح ہی نہ تھا۔ اس لیے کورٹ میں بغیر پیشی کے ان کی ضمانت قبل ازگرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ اسی طرح لاہور کے ایک اورایلیٹ کلاس پرائیویٹ تعلیی ادارے میں ایک نوجوان نے سرعام ، عام طلبا و طالبات کے سامنے اپنی کلاس فیلو کو شادی کے لیے پروپوز کیا اور گلے لگایا تو یہ خبر بھی جنگل کی آگ کی طرح پھیلی لیکن حسب روایت موم بتی مافیا نے اس کی بھرپور تائید کی اور اسے انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر پیش کیا۔
یہ چند ایک واقعات ہیں جن کی روشنی میں آپ کو تعلیمی اداروں کے اندر ہونے والی غیر اخلاقی ،غیر انسانی قدروں کا پتہ لگ سکتا ہے جبکہ معاملہ اس سے کئی گنا آگے نکل چکا ہے۔ تعلیمی ادارے اور بالخصوص جامعات اس وقت جو منظر نامہ پیش کر رہے ہیں، وہ ہمارے ملک کے بست و کشاد سے انتہائی سنجیدگی کا متقاضی ہے۔ جنسی درندگی کے واقعات، جامعات میں ہولی اور دیگر تر تقریبات کا انعقاد،زبان رنگ نسل کی بنیاد پر بڑھتی ہوئی تفاوت اور طلبہ کا آپس میں تصادم، اساتذہ کرام کی خاموشی اور معاشرے کا ان معاملات پر چپ سادھ لینا باعث تشویش ہے۔ لمبے عرصے سے تعلیمی ادارے اسی طرح کے معاملات کا شکار ہیں لیکن سماج، ریاست اور ریاستی ادارے جس طرح مفلوج اور بے بس ہیں اس ظالمانہ نظام کے آگے،وہ ہم سب کے لیے سوالیہ نشان ہے؟
طلبہ و طالبات کو قومی سطح پر ووٹ ڈالنے کا حق تو دے دیا گیا لیکن تعلیمی اداروں کے اندر یونینز پر پابندی ناقابل فہم ہے۔ کچھ عرصہ قبل کتب میلے ہر یونیورسٹی کے ماتھے کا جھومر تھے، کرکٹ فیسٹیولز،طلبہ میلے، نصابی اور غیر نصابی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوتی تھیں جبکہ طالبات کے لیے فن فیئرز کا خصوصی اہتمام کیا جاتا تھااور تمام طلبہ طالبات ان سرگرمیوںمیں بھرپور حصہ لیتے تھے اور یوں معاشرے کے لیے مفید اور قائدانہ کردار بھی ادا کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ایک بہت بڑی تعداد ان میں سے وہ ہے جواَب میدان سیاست میں اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔اسی طرح طلبہ و طالبات کے لیے الگ تعلیمی ادارے، مخلوط نظام تعلیم کا خاتمہ ،یونیورسٹیز میں سمسٹرکے نظام میں کچھ بنیادی تبدیلیاں بھی ناگزیر ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی بلیک میلنگ سے بچا جا سکے۔
ہمارے ملک میں اس وقت ایک کروڑ سے زیادہ افراد نشہ کا شکار ہےں، جن میں اکثریت 18 سے 23 سال کی عمر کے لوگوں کی ہے۔ کراچی اور لاہور بالترتیب ان میں سر فہرست ہیں جبکہ تعلیمی اداروں میں یہ وبابہت تیزی سے پھیل رہی ہے۔اگر اس کا بروقت تدارک نہ کیا گیا تو بہت ہی بھیانک نتائج ہمارے سامنے آئیں گے۔ لہٰذا میں تمام سماجی کارکنان سے اپیل کرتا ہوں کہ اس کو اپنا موضوع سخن بنائیں ،لکھیں، بولیں سوچیں ، جہاں اورجس انداز میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں بھرپور کوشش کریں اور یاد رکھیں کہ !
۔ یتیم خاتون کے بچوں اوربچیوں کا حالات کے حوالے سے اسکینڈل سامنے آیا دبا دیا گیا۔
۔ چائلڈ پروٹیکشن بیورو میں بچے بچیوں کا اسکینڈل سامنے آیا اور دبا دیا گیا۔
۔ اس سے پہلے نجی یونیورسٹی کا اسیکنڈل سامنے آیا اور دبا دیا گیا۔
یاد رکھنا ! اہل وطن!
ایسے جتنے بھی اسکینڈل اٹھاؤ گے ، کھرا اور حقائق ایک ہی جانب جائیں گے اور جب تک ان کی گردنوں کے گرد شکنجہ اور گھیرا تنگ نہیں ہوگا کوئی بھی بات نہیں بنے گی۔
لہٰذا ! اب کی بار اس کو سرد خانے کی نظر ہونے سے بچائیے وگرنہ ظلم یہ سیاہ رات طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی !!!
تبصرہ لکھیے