کالج میں ہماری انگریزی ادب کی ایک استاد ہوا کرتی تھیں (ان کا نام لکھنا مناسب نہیں سمجھتی کہ دل آزاری کا باعث نہ ہو)، بہت ہی بے باک، نڈر، اور جرات مند خاتون تھیں جن کی شخصیت میں نسوانیت کم اور مردانگی زیادہ تھی۔ان کا لباس ہمیشہ یکسانیت کا شکار رہتا، بنا دوپٹے کے، گول دامن کی ایک ہی طرح کے کوٹ کالر والی قمیص، تنگ پائنچے کی شلوار، آنکھوں پر سیاہ چشمہ، کرلی بالوں کے گچھے کا زبر دستی بنایا گیا بے ڈھنگا جوڑا۔ ان کے فلسفیانہ تصور کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تو بلا شبہ وہ مغربی اداروں کی فارغ التحصیل ایک انتہائی قابل استاد تھیں۔ ان کا فلسفہ بھی بالکل قابل اعتراض نہ ہوتا اگر اس میں نوے فیصد الحادی نظریات نہ پائے جاتے۔ وہ کھلے بندوں مذہب اور مذہبی عقائد کا تمسخر اڑایا کرتیں۔ انتہا درجے کی بغاوت پسند خاتون تھیں اور بغاوت کو بہادری سمجھتی تھیں۔ بغاوت مذہب سے، سسٹم سے، قانون سے، آئین سے، فرسودہ روایات سے گھروں سے بھاگ جانے والی لڑکیوں کو اپنا آئیڈیل مانتیں۔ ان کی ذاتی زندگی بھی بغاوت کا نمونہ تھی۔ ماں باپ سے باغی، شوہر سے بغاوت کا انجام علیحدگی۔ وہ شدت کی حد تک خود پسند تھیں۔ بقول ان کے انھیں اپنی ذات کے علاوہ کسی سے محبت نہ تھی۔ ان کے نزدیک اپنے آپ کے لیے جینا ہی بڑی خوشی تھی۔ اس حقیقت کا ادراک مجھے ان کے اسی نظریے سے ہی ہوا کہ ایک انتہا کا خود پرست انسان کبھی کسی دوسرے انسان سے محبت نہیں کر سکتاکیونکہ محبت خود پرستی کی ضد ہے۔ یہ ذات کو تحلیل کرتی ہے۔ اور اگر اس میں سچائی اور پاکیزگی کے عناصر شامل ہو جائیں تو حقیقت کے اسرار و رموز اور آگہی کا گیان بھی منکشف ہونے لگتا ہے۔ پھر بھلا کوئی انسان خدا کے وجود کا منکر کس طور ہو سکتا ہے۔
گزشتہ دنوں جب الحاد کے حوالے سے مضامین پڑھے تو انگریزی ادب کی اس استاد کی بہت یاد آئی۔ تخیل نے ان کا شخصی اور نظریاتی نقشہ کھینچ دیا کیونکہ ایک الحادی نظریات کے حامل انسان کی نفسیات کو کریدنا میرا اصل مقصود تھا۔ مجھے یاد ہے کہ وہ ہمیں اپنے نظریات سے متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کیا کرتیں لیکن مجھے ان کے قانون شکن یا دل شکن بغاوت کے نظریات کبھی بھی متاثر نہ کرسکے۔ میں اپنی عمر، علم اور تجربے کی بنا پر جتنی بن پاتی ان سے بحث کر لیا کرتی۔ آج جب سوچتی ہوں تو سمجھ یہی آتا ہے کہ دراصل وہ فلسفے کی بندی تھیں۔ دنیا کی قدیم تاریخ کو بھی کھنگال لیں تو علم، عقل اور فلسفے کے بکھیڑے جا بجا نظر آئیں گے۔ سائنس اور فلسفہ، منطق اور دلیل کے قائل ہیں۔ منطق سوال کرتی ہے، لیکن جب اپنی حد پار کر لیتی ہے تو ذہن کو سوالات کے جہنم میں ڈال دیتی ہے۔ سوال در سوال، دلیل در دلیل۔ اور جہاں جواب نہ بن پائے تو خیال بھٹکنے لگتے ہیں۔گمراہی نصیب بن جاتی ہے۔ فلسفہ اگر گمراہی کے اس رستے پہ آجائے تو انسان اپنے حواس کھو بیٹھتا ہے اور کبھی کبھی تو اپنے جینے کا جواز بھی۔ یہ بھی درست ہے کہ انسان کی سرشت میں تجسس اور بغاوت دونوں ہی عناصر پائے جاتے ہیں، لیکن جب یہ دو عناصر اعتدال سے باہر ہو جائیں تو ترکیب انسانیت بگڑ کر حیوانیت میں بدلنے لگتی ہے۔ اس فورم پر اب تک الحادیت کی جو منظر کشی کی گئی اس نے سوچ کو بلاشبہ نئی حقیقتوں سے متعارف کروایا گو کہ یہ حقیقتیں نئی نہیں لیکن شاید ہم واقعی اپنی بے خبری میں کوئی ثانی نہیں رکھتے ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت سے عالمی سروے خصوصاً گیلپ سروے اس حقیقت کو آشکار کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ الحاد عیسائیت اور اسلام کے بعد سب سے بڑے عقیدے کے طور پر سامنے آیا ہے۔ 2012 کے گیلپ سروے کے مطابق دنیا میں اس وقت 10سے20فیصد لوگ مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ اس زمرے میں ڈنمارک اور سویڈن ایسے ممالک ہیں جہاں ایسے لوگ تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔ یہاں صرف 17یا 18فیصد لوگ مذہب کو اہمیت دیتے ہیں،امریکہ میں 3.1 فیصد لوگ مذہب سے بیزار ہیں۔چین ایسا ملک ہے جہاں atheism کو ماننے والے لوگوں کا کل 62 فیصد آباد ہے۔ جاپان اس سلسلے میں دوسرے نمبر پر ہے۔ عرب ممالک میں 2293 لوگ الحاد سے وابستہ ہیں۔ پاکستان جیسے اسلامی ملک جہاں مذہب کی توہین کی سزا موت ہے، بعض ملحدین سوشل نیٹ ورکنگ ویب سائٹس کے ذریعے اپنے عقیدے کو پھیلا رہے ہیں۔فیس بک پر یہ اپنا گروپ چلا رہے ہیں جس کے ممبرز کی تعداد 800 ہے۔ حضرت ناخدا نامی آئی ڈی آپریٹ کر رہی ہے۔ ان صاحب کا ایک انٹرویو نیٹ پر موجود ہے جس میں دعوی کرتے ہیں کہ ان کے ممبرز میں زیادہ تر سائنسدان، ڈاکٹرز، کمپیوٹر پروگرامرز، پروفیسرز اور آرٹسٹ وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میں آباد ملحدین زیادہ تر اعلی تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر آسودہ حال لوگ ہیں۔ ان کے اس عقیدے کے تانے روشن خیالی اور سیکولر سوچ سے ہی جا ملتے ہیں۔
الحاد کی تاریخ نئی نہیں لیکن دور جدید کا الحاد کمیونزم، فاشزم اور سوشلزم کے سائے تلے پھلتا پھولتا نظر آتا ہے۔ انقلاب فرانس ہو یا سوویت یونین کا کمیونزم، اس نے مذہب بیزاری کا رواج عام کیا۔ لیکن اس نے دنیا کو اپنا مکروہ چہرہ دیکھا کر یہ باور بھی کرایا کہ الحاد جب عسکریت پسندی میں اور روشن خیالی رجائیت پسندی میں بدل جائے تو نتائج کیا نکلتے ہیں؟ سوویت یونین میں نوجوان مذہبی دوری اختیار کر کے کس طرح مجرمانہ افعال میں مبتلا ہوئے، اس کی ایک طویل داستان ہے۔
تسلسل حیات اور مکافات عمل کا عقیدہ انسان اور انسانیت میں گہرے تعلق کا پیش خیمہ ہے۔ ہم زندگی بھر بہت سے تجربات، حادثات، اور واقعات سے گزرتے ہیں۔ ٹھوکر لگنے سے مایوسی بھی ہوتی ہے اور کامیابی ہمیں مغرور بھی بناتی ہے۔ کوشش کے باوجود کچھ حاصل نہ کر پائیں تو بددلی، مایوسی اور رسوائی ہمارا حصار کر لیتی ہے۔ اگر مذہب کا سہارا نا ہوتا تو انسان کا دل اور من کس قدر خالی ہوتا۔ اگر دعا سے ہمارے ہاتھ عاری ہوتے تو ہم اپنی رسوائیوں، مایوسیوں اور بد دلی کے بوجھ تلے دب کر کس قدر ٹوٹ جاتے. دعا ہی تو اک امید ہے جو آنے والے وقت میں کامیابیوں کی نوید سناتی ہے، دل کو ڈھارس اور روح کو سکون دیتی ہے۔ اگر پھر بھی کچھ نہ مل پائے تو اک امید رہتی ہے کہ اس جہاں میں نہیں تو اگلے جہاں میں تو خوشی کی نوید ملے گی، جس کا خدا نے ہم سے وعدہ کیا ہے۔ کامیابیوں کی صورت میں ہم اپنے غرور پر قابو پالیتے ہیں کیونکہ ہم اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اگر تصور رب ہی نہ ہو تا تو ہمارا سماج کس قدر تخریبی ہوتا۔ ہم سزا و جزا کے قانون سے عاری ہو کر انسانیت کا بھرم بھی گنوابیٹھتے جو ابھی تلک دنیا پر قائم ہے۔
الحاد نہ صرف انسان کی جبلتوں بلکہ اس کی عقل (reason) کا بھی مخالف ہے۔ یہ پل بھر میں پورا سوشل سسٹم تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔”جو لوگ خدا پر یقین نہیں رکھتے وہ ہر شے پر یقین رکھتے ہیں “ کہ مصداق یہ تھیوری کس قدر تباہی اور بربادی کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔ دنیا کے بڑے بڑے لبرل فلاسفرز بھی یہ کہنے پر مجبور تھے کہ ”خدا پر یقین ہی ہے کہ دنیا کی اخلاقیات ابھی تک زندہ ہے، اگر یہ یقین بحال نہ رہا تو دنیا تباہ و برباد ہو جائے گی“ ولسن کا ماننا تھا کہ ”atheism اچھے اور برے افعال میں تمیز کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی“. دنیا کے لیے اگر مذہب پرستی کی انتہا شدت پسندوں کو جنم دے رہی ہے تو ملحدین بھی سیکولر برادری کے انتہاپسند ہیں۔ جان لاک جو لبرل ازم کا باپ مانا جاتا ہے اس کا ماننا بھی یہی ہے کہ ”اگر دنیا خدا کے وجود کی منکر ہوگئی تو دنیا کا سوشل آرڑر افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ یہ بات طے ہے کہ دنیا مذہب ہی کی وجہ سے سول سوسائٹی میں متحد ہوئی“ ۔edmund burk انسان کو ایک سوشل کی بجائے مذہبی جانور کا نام دیتا ہے۔ فرانسس بیکن atheism پر اپنے ایک مضمون میں لکھتا ہے،”سائنس کا مختصر علم انسان کو atheist بناتا ہے لیکن سائنس کا گہرا اور لامحدود علم یہ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے کہ خدا موجود ہے“. ایک اور مضمون advancement of learning میں لکھتا ہے ”فلسفے کا سطحی علم انسان کو atheism کی طرف لے جاتا ہے جبکہ فلسفے کا گہرا علم مذہب کی طرف“۔
یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ابھی تک تواس عقیدہ کو ماننے والے، بلکہ یہ کہنا چاہیے کہ یہ بے عقیدہ اور گمراہ لوگ پڑھے لکھے، روشن خیال، سیکولردماغ کے حامل اور معاشی طور پر آسودہ حال طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ ہیں۔ جس دن یہ عقیدہ جہالت کا شکار، غربت میں اٹے مایوس اور بددل لوگوں نے اپنانا شروع کر دیا تو دنیا کا نقشہ کیا ہوگا؟ لوگ کیونکر قوانین یا آئین کی پاسداری کریں گے جبکہ وہ آخرت اور سزا جزا کے عقائد سے ہی منحرف ہوں گے۔ اس عقیدے کو ماننے والے دراصل مادیت پرستوں کی وہ بگڑی ہوئی شکل ہے جن سے حیات کا اصل مقصد کھو چکا ہے۔ اپنے احساس گناہ سے بچنے کے لیے وہ سزاوجزا کے نظام سے نظریں چرانا چاہتے ہیں۔ دنیا کا کوئی بھی فلسفہ یا منطق مذہب کا انکار کرتے ہوئے محض انسان کے وجود کو ھی ثابت نہیں کر سکتا۔ بقول اقبال ،
تیری نگاہ میں ثابت نہیں خدا کا وجود
میری نگاہ میں ثابت نہیں وجود تیرا
مذہب کیا ہے؟ کوئی فلسفہ نہیں، محض ایک سائنس نہیں، مذہب ایک عمل کا نام ہے۔اسلام سے زیادہ باعمل مذہب اور کوئی نہیں. یہ دہشت نہیں رحم سکھاتا ہے، صبر کرنا سکھاتا ہے، اس کا ماننا ہے کہ انسان دولت سے شان وشوکت والا نہیں بنتا بلکہ خدا کے نزدیک عظیم وہ ہے جو اچھے اعمال والا ہے۔ اسلام کی عظمت یہ کہ اسے ماننے والے میدان جنگ میں اپنی پیاس بجھانے سے پہلے اپنے پیاسے بھائی کو پانی کا واحد پیالہ سونپ کر خود جام شہادت نوش کر لیتے ہیں۔ اسلام ایک سچا مذہب ہے، اس کی جڑوں کو اکھیڑنا ناممکن ہے۔ قرآن کو یہ لوگ کیسے جھٹلا سکتے ہیں کہ جس کی آفاقیت اور افادیت سے اس مذہب کو نہ ماننے والے بھی منحرف نہیں، قرآن نے ان سچائیوں سے پردہ اٹھایا جن سے انسان بالکل نابلد تھا۔ atheist جب قرآن کو صرف کہانیوں کی کتاب کہتے ہیں اور سائنس کو اپنا خدا مانتے ہیں تو وہ اس حقیقت کے منحرف ہو جاتے ہیں کہ قرآن کے نزول سے پہلے کوئی نہیں جانتا تھا کہ زمین کی شکل گول ہے۔ ہر زندہ چیز پانی سے تخلیق ہوئی ہے۔ چاند اپنی روشنی سورج سے مستعار لیتا ہے۔ اس سے بھی بڑی اور اہم بات یہ ہے کہ سائنس ان نشانیوں کو جھٹلا نہ پائی بلکہ کئی سائنسی نشانیاں ایسی ہیں جنھیں سائنس آج اپنی تحقیق سے ثابت کر رہی ہے اور قرآن اسے 1400سال پہلے ثابت کر چکا ہے۔
الغرض ہمیں آج کے فساد ی الحادی نظریات سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ اسلام ایک سچا مذہب ہے، یہی وجہ ہے کہ آج سب سے زیادہ قبول کیا جانے والا مذہب بن چکا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق برطانیہ اور فرانس میں پچھلے دس برسوں میں تقریباً ایک لاکھ افراد نے اسلام قبول کیا۔ جرمنی میں ہر سال چار ہزار اور امریکہ میں بیس ہزار افراد اسلام قبول کر رہے ہیں۔ 9/11 کے واقعات کے بعد مسلمانوں سے اپنائے جانے والے ناروا سلوک نے غیر مسلموں کو اسلام کے مطالعے پر مجبور کیا۔ وہ اسلام کے مطالعے سے اس کے متعلق پھیلائے گئے منفی پروپیگنڈا کا جواب چاہتے تھے اور اسی کوشش نے انہیں سچائی کا ادراک دے دیا۔ اس عالمی واقعے کے فوراً بعد تقریباً 34 ہزار امریکیوں نے اسلام قبول کیا۔ ان نومسلموں کا ماننا ہے کہ ”اسلام کو ہم نے بہت ہی سادہ، پریکٹیکل اور منطقی مذہب پایا“. مغرب کو اسی حقیقت نے اسلامو فوبیا میں مبتلا کر رکھا ہے۔ آج اگر اسلام کو ماننے والے مشکلات میں گھرے ہیں تو اس میں مذہب قصوروار نہیں بلکہ مسلمان قصوروار ہیں۔ ہمیں مغربی تھنکرز کی ہی اس پیشن گوئی کو کہ ”آئندہ آنے والا وقت مسلمانوں کا ہے“ مانتے ہوئے اور اپنے دین سے رہنمائی لیتے ہوئے اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ یہی الحاد پرستوں کا اصل توڑ ہے۔
وہی اصل مکان و لامکاں ہے
مکاں کیا شے ہے انداز بیاں ہے
خضر کیونکر بتائے کیا بتائے
اگر ماہی کہے دریا کہاں ہے
علامہ محمد اقبال
تبصرہ لکھیے