ہوم << پَیّاں پَیّاں چلو (حصہ دوم) - مفتی منیب الرحمن

پَیّاں پَیّاں چلو (حصہ دوم) - مفتی منیب الرحمن

الغرض خان صاحب اپنی سیاست اور حکمرانی میں مقتدرہ پر ہی انحصار کرتے رہے،لہٰذا وہ ایک منجھے ہوئے اور پختہ کار سیاست دان نہ بن سکے ۔ اگر ایسا ہو جاتا تو وہ اپنے مخالف سیا ست دانوں سے مُکالمہ کرتے ، ان کے لیے ایک درجۂ قبولیت پیدا کرتے، سیاست ایک دوسرے کو برداشت کرنے اورایک دوسرے کے لیے گنجائش پیدا کرنے کا نام ہے، ہمارے سیاسی اثاثے میں کوئی بھی سوفیصد پارسا نہیں ہے،یہ ہوسکتا ہے کہ کسی کے عیوب کم ہوں اور کسی کے زیادہ ۔سیاست قبائلی اور نسلی عداوتوں کی طرح دوسروں کو فنا کے گھاٹ اتارنے ، منظر سے غائب کرنے اور نیست و نابود کرنے کا نام نہیں ہے ، آپ عدالت نہیں ہیں کہ کسی کے مجرم یا بے قصور ہونے کے فیصلے صادر فرمائیں ، یہ عدالتوں کا کام ہے ۔

لیکن یہ قوم 2011 سے خان صاحب کی زبانِ مبارک سے چور ڈاکو کے القاب کے ساتھ ایک ہی تقریر سنتی چلی آئی ہے ، اب اُبکائی آنے لگتی ہے ۔ صرف ان کے محبین کو ہی اُن کایہ طرزِ خطابت بھلا معلوم ہوتاہے ، کیونکہ اداروں نے سائنسی طریقے سے ان کے ذہنوں کو ایک خاص سوچ اور فکر کے سانچے میں ڈھالا ہے اور اس سانچے کا بدلنا آسان نہیں ہے ،مولانا ابوالکلام آزاد نے کہا تھا : ’’ہمارا ذہنی سانچا آہنی ہے ، اسے آپ توڑ سکتے ہیں ، موڑ نہیں سکتے ‘‘۔یہی وجہ ہے کہ اپنے عہدِ اقتدار میں خان صاحب کا من پسند مشغلہ ترجمانوں کا اجلاس ہوتا تھا کہ مخالفین پر یلغار کیسے کی جائے ،ان کی توہین ، تحقیر اور تذلیل کرکے لطف کیسے اٹھایا جائے ۔ ان کے حکمرانی کے ’’توشہ خانہ ‘‘میں ایسا کوئی اثاثہ تھا ہی نھیں، جس کی وہ مارکیٹنگ کرسکتے ، سو اپنی خوبیوں پر جینے کے بجائے دوسروں کی حقیقی یا مفروضہ خامیوں پر انہوں نے اپنی سیاست کی بساط بچھائی ۔

چنانچہ آخرِ کارجنرل قمر جاوید باجوہ کے بقول 2021میں انھوں نے خان صاحب سے کہا: ’’اب آپ اپنی حکومت اپنے بل پر چلائیں‘‘ ، کیونکہ مقتدرہ ہی قابل انتخاب لوگوں کو گھیر گھار کر پی ٹی آئی کے کیمپ میں لائی ،امید واروں کا چنائوکیا ، انتخابات میں پولنگ اسٹیشنوں کے اندر فوج کو کھڑا کرکے پولنگ ایجنٹوں کونکال باہر کیا، انھوں نے ہی آرٹی ایس کو ناکام بنایا۔ مخالف جماعتوں کے امیدواروں کو ڈرایا دھمکایا ، 2018میں کاغذاتِ نامزدگی واپس لینے کی آخری تاریخ پر مسلم لیگ ن کے امیدواروں کی ن لیگ کے ٹکٹ سے دست برداری کا اہتمام کیاتاکہ متبادل امیدوار میدان میں نہ اتاراجاسکے۔نیزایف اے ٹی ایف کے قوانین اور بجٹ کی منظوری کے مواقع پر اراکین اسمبلی کی گنتی پوری کرکے دی ،یہاں تک کہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریکِ عدمِ اعتماد کے موقع پر 14ووٹ غائب کرنے سمیت سب کام کر کے دیے تھے، اسی پر اکتفا نہیں بلکہ خان صاحب کے مخالفین کو نا اہل کرانے کے غیبی انتظامات بھی وہی فرماتے تھے ۔�

آج سپریم کورٹ نا اہلی کے بارے میں جو ریمارکس دے رہی ہے،ذرا ان کا تقابل 2017تا2018کے عدالتی ریمارکس اور عالی مرتبت جج صاحبان کے فیصلوں اور رویوں سے کر کے دیکھ لیں ، فرق سمجھ میں آجائے گا ۔ چیف جسٹس ثاقب نثار شیخ رشید کو بغل میں لے کر ان کی انتخابی مہم چلا رہے تھے، اُ س عدالتی شعار کو خان صاحب اور اُن کی جماعت کے لیے ’’سنہری دور ‘‘ سے تعبیر کیا جاسکتا ہے، مگر عدالتی تاریخ میں اسے ’’تاریک ترین دور‘‘ سے تعبیر کیا جائے گا۔پس اس غیبی امداد نے خان صاحب کو حقیقی سیاست دان بننے نہ دیا۔

اب جنرل قمر جاوید باجوہ نے خان صاحب کے الزامات کا بالواسطہ جواب دیتے ہوئے کہا :ہم نے مارچ 2021میں انھیں کہا:’’ اب اپنی حکومت خود چلائیے ‘‘، کیونکہ ان کی بری حکمرانی کی ساری ذمہ داری اداروں پر آرہی تھی ، توخان صاحب نے کہا :’’تین کام اب بھی آپ اپنے ذمے لیے رکھیں : ’’یعنی بجٹ پاس کرنے کے لیے ارکانِ پارلیمنٹ کو گھیر گھار کر لانا ، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کے معاملات کو ڈیل کرنا ، سفارت کاری اور چین ، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے زرِ مبادلہ کی اعانت حاصل کرنا‘‘۔ مختلف ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات میں خان صاحب جو بگاڑ پیداکرتے تھے ، ان کو سدھارنے کا کام پہلے ہی انھوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا ۔ حکمرانی کے جو کام انھوں نے خود کیے ، آج وہ بزبانِ خود انھیں اپنی غلطیاں قرار دے رہے ہیں ، ان میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس ، جنرل قمر جاوید باجوہ کی توسیع ،روس کا دورہ، بلڈرمافیا کے لیے کالادھن سفید کرنے کاقانون اوردیگرغیر معمولی مراعات دینا شامل ہیں، وہ نواز شریف کو بیرونِ ملک جانے کی اجازت دینے کو بھی اپنی غلطی قراردیتے ہیں۔

یہ کتھا سنانے کا مطلب یہ ہے کہ مقتدرہ نے خان صاحب کو اپنے پائوں پر چلنے نہ دیا ، ہمیشہ انگلی پکڑ کر چلاتے رہے ، وہ اپنے بل پر نظام کو چلانے کے بجائے مقتدرہ کے کندھوں پر سوار ہوکر چلانے کو ترجیح دیتے رہے، آخر میں جب مقتدرہ نے ہاتھ کھینچ لیا تو ملک ریاض سے فرمائشیں کرتے رہے :’’زرداری سے پیچ اَپ کرائو‘‘، گویا اگر زرداری اُن کے اقتدار کے بچائو کے لیے آجاتے تو اُن کے تمام عیوب دُھل جاتے ، دامن بے داغ ہوجاتا ، کردار اُجلا ہوجاتا ، جیساکہ خان صاحب اپنی کابینہ میں ایم کیو ایم کے وزراء کے بارے میں کہتے تھے: ’’میں تو ان سے بہت ڈرا ہوا تھاکہ یہ ہاتھ میں پستول لیے بیٹھیں گے، لیکن یہ تونہایت مہذب اور سلجھے ہوئے لوگ ہیں ‘‘، اُن کا دہشت گردا ورقاتل ہونا سب باتیں قصۂ پارینہ بن چکی تھیں،اسی پالیسی کے تحت چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیرِ اعلیٰ بنایا گیا ۔

الغرض وہ نازنین سے سیاست دان نہ بن سکے ، یہ ذہنی ساخت ،طبعی نہاد اور ادائیں آج بھی اُن کے پائوں کی زنجیر ہیں ۔ آج بھی وہ خود رائی، خود پرستی ، اپنی پارسائی کے زُعم میں مبتلا ہیں۔وہ اب ترجمانوںکی جگہ مَن پسند’’ یوٹیوبرزاور وی لاگرز‘‘ کے ساتھ اجلاس منعقد کرتے ہیں ،حالانکہ بہت سی ایسی باتیں منصّۂ شہود پر آچکی ہیں کہ وہ بھی اخلاقی سطح پر ویسے ہی ہیں جیسے ہمارے دیگر سیاسی رہنما۔ابھی تو ان کا اُس طرح احتساب شروع ہی نہیں ہوا ، جیساکہ انھوں نے اپنے مخالفین کا ناطقہ بند کر رکھا تھا، کیونکہ اعلیٰ عدلیہ میں اب بھی ان کے لیے ہمدردی کا ایک واضح جذبہ موجود ہے ، تاحال اُن کو تحفظ دیاجارہا ہے، اس کے باوجود فواد چودھری کہتے ہیں: ’’عدالتوں کا رویہ شرمناک ہے‘‘۔جب عدالتی معیارات اشخاص اور جماعتوں کے اعتبار سے مختلف ہوجائیں توایک لحاظ سے وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں۔

جس طرح خان صاحب اپنی بیشتر تقریروں اور انٹرویوز میںکرکٹ ورلڈ کپ ،شوکت خانم ،نمل کالج وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں، لگتا ہے : وہ دوسرے ممالک کے سربراہانِ مملکت وحکومت کے ساتھ اپنے فضائل سے گفتگوشروع کرتے ہوںگے ، کیونکہ جنرل قمر جاوید باجوہ صاحب نے بالواسطہ طور پر اپناجو موقف دیا ہے، اس میں کہا ہے:’’خان صاحب سفارتی آداب سے ناواقف تھے، وہ یہ بھول جاتے تھے کہ وہ دوسرے ملک کے سربراہ کے ساتھ ذاتی حیثیت میں نہیں،بلکہ وزیر اعظم پاکستان کی حیثیت سے ہم کلام ہیں ، وہ اپنے نرگسیت اورذاتی فضائل وکمالات کے حصارسے نکل نہیں پاتے تھے‘‘۔

وزارتِ عظمیٰ کے منصب سے معزولی کے بعد انھوں نے جلسوں اور ریلیوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردیا ، ماضی میں جب ہماری ہاکی ٹیم کے پاس ورلڈ کپ ،چیمپینز ٹرافی اور ایشیا کپ سمیت سارے اعزازات تھے، ایک بار لوئر ٹوپہ میں ایک ٹورنامنٹ کے لیے ان کا طویل ٹریننگ کیمپ منعقد کیا گیا، مگر جب وہ میدان میں اترے تو نتیجہ ناکامی کی صورت میں نکلا، کیونکہ طویل ٹریننگ کیمپ نے انھیں تھکادیا تھا اور وہ تازم دم نہیں تھے، چنانچہ میں نے لکھا تھا:’’خان صاحب قومی انتخاب کا اصل معرکہ آنے سے پہلے اپنے کارکنوں کو تھکادیں گے‘‘، اب اُن کے ہمدرد اعتزاز احسن نے کہا ہے: ’’خان صاحب نے اپنے کارکنوں کوتھکادیا ہے، اب انھیں آرام دینے کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ انتخاب کے لیے وہ تازہ دم ہوجائیں ‘‘۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ اپنے عہدِ حکومت کا جائزہ لیں ، اپنی کامیابی اور ناکامیوں کا زائچہ بنائیںاور ناکامیوں کے اسباب کا تعین کریں ،آئندہ کے لیے یکسو ہوکر حکمتِ عملی مرتب کریں، قابل لوگوں کی ٹیم منتخب کریں ، نا اہل اور چاپلوس قسم کے لوگوں کو اپنی صفوں سے نکالیں ، مدح وستائش کے شِعار کو ترک کر کے آزادانہ بحث وتمحیص کی روش اپنائیں ۔ سوشل میڈیا پر مخالفین کی توہین ، تحقیر اور تذلیل کا جو شعارانھوں نے اختیار کر رکھا ہے، اسے یکسر ترک کریں ، شریعت کی نظر میں یہ ’’معروف ‘‘نہیں بلکہ ’’منکَر‘‘ ہے۔

ان کے سابق رفیقِ خاص فیصل واوڈا اور وزیر اعظم آزاد کشمیر سردار تنویر الیاس نے بھی کہا ہے:’’خان صاحب کے گردوپیش خاص مقرّبین میں بعض ایسے لوگ ہیں جو مقتدرہ سے اُن کی دوری کا باعث بنے ہیں‘‘ ، انھوں نے یہ بھی کہا :’’بعض لوگ پارٹی قیادت اور وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ہیں ‘‘۔لہٰذا پنجابی محاورے کے مطابق خان صاحب کو ’’اپنی منجھی تھلے ڈانگ پھیرنے ‘‘کی بھی ضرورت ہے۔10اپریل سے 8ماہ انھوں نے گزار ہی لیے ہیں اور 25اگست تک ساڑھے آٹھ ماہ کی مدت باقی ہے، یہ بھی گزر جائے گی اوراکتوبر2023میں وہ بھرپور تیاری کے ساتھ آئندہ قومی انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں ۔ اس دوران اگرچاہیں تو قومی اسمبلی میں واپس آکر انتخابی اصلاحات کی قانون سازی میں بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

نیز اگر اس عرصے میں معیشت کی گاڑی دوبارہ ٹریک پر چڑھ جاتی ہے ،تو یہ اُن کے بھی مفاد میں ہوگا، ورنہ انھیں پھر صفر یا منفی درجے سے سفر شروع کرنا ہوگا ، یہ بات ہم اس مفروضے پر لکھ رہے ہیں کہ انھیں یقین ہے کہ آئندہ انتخاب انھوں نے ہی جیتنا ہے۔سیاسی تلاطم میں جب تک ٹھیرائو نہیں آئے گااور سیاسی عدمِ استحکام کا تاثّردور نہیں ہوگا ، قومی معیشت کی بحالی یقینامتاثر ہوگی اور اس کا خمیازہ تمام سیاسی جماعتوں سمیت پوری قوم کو بھگتنا پڑے گا، کیونکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اس وقت معیشت فوری ڈیفالٹ سے بچنے کے باوجود خطرے سے باہر نہیں آئی ، آکسیجن ٹینٹ میں ہے، قریبی دوست ممالک بھی ایک منقسم قوم کی مدد کے لیے کیسے ہاتھ بڑھائیں گے ، نہ کوئی اندھے کنویں میں چھلانگ لگاتاہے اور نہ اندھیرے میں تیر چلاتا ہے۔

Comments

Click here to post a comment