معاہدہِ گندمک کی بحالی عمل میں لائی جاچکی تھی۔ اگلے چالیس سالوں کے لئے افغانستان کے خارجہ امور سمیت اہم علاقہ جات برطانوی دائرہِ اختیار کا حصہ قرار دیے جاچکے تھے۔ عبدالرحمان کو کچھ شرائط کے ساتھ منصبِ امارت پر براجمان کرنے کے بعد برطانیہ نے واپسی کا راستہ اختیار کیا۔امیر کابل کی برطانیہ کے علاوہ کسی اور بیرونی طاقت سے رابطے کی تمام راہیں بند کردی گئی۔ برطانیہ نے تو خارجی طور پر افغانستان اپنے نام کیا اور سفارتی معاملات بھی خود تک محدود رکھے ، مگر اندرونی معاملات کو جوں کا توں رہنے دیا۔ امیر عبدالرحمان نے برطانوی دعوت پر اقتدار سنبھالا اور یوں ان کے 21 سالہ دورِ حکومت کا آغاز ہوا۔ جب وہ امیر بنے تو افغانستان سیاسی اور معاشی طور پر غیر مستحکم تھا۔ ریاستی مشینری بے کار اور مرکزی صوبائی تعلقات تباہی کے دہانے پر تھے۔اگر چہ وہ افغانستان کو متحد کرنے کاخواب دیکھنے والے دوست محمد خان کے پوتے تھے، مگر برطانوی حمایت کی وجہ سے قندھار کے علماء ان کے مخالف ہوئے۔ برطانوی ہند وقتا فوقتا پیسوں اور ہتھیاروں سے ان کی مدد کرتی رہی۔ سرداران، قبائلی مشران اور علماء یہ وہ طبقات تھے جنہوں نے ان کی سب سے زیادہ مخالفت کی۔اپنے دور حکومت میں ان کا دعویٰ تھا کہ قوم بادشاہ اور لوگوں سے وجود میں آتی ہے۔ اپنے مخالفین کو دبانے کی خاطر ان کا فرمان تھا کہ بادشاہت خدا کی عنایت ہوتی ہے ، اس بناء پر اس کا انکار خدا کی اطاعت کا انکار ہوتا ہے۔ اس سے ان کی واضح مراد قبائلی مشران تھے جو ان سے اختلاف رکھتے تھے۔امیر نے ایوب خان کو برطانوی مدد سے شکست دے کر بھارت میں پناہ لینے پر مجبور کیا مگر ایک اندازے کے مطابق ان سالوں میں 40 بغاوتوں نے سر اٹھایا تھا۔
ان چالیس بغاوتوں کو کچلنے کے لیے امیر کی مضبوط آرمی کافی تھی۔ ایک مضبوط آرمی کا قیام ان کے دورِ حکومت کی بڑی خاصیت سمجھی جاتی ہے۔ اتنی بڑی فوج نے صرف امیر کو مکمل مختار بنانے کا کام کیا۔ ان کا کہنا تو یہ تھا کہ اس کا مقصد افغانستان کو بیرونی طاقتوں سے محفوظ رکھنا ہے مگر یاد رہے کہ بیرونی معاملات براہِ راست برطانیہ دیکھ رہا تھا ۔ 15 سال سے 50 سال تک کے لوگوں کو پہلے رضاکارانہ طور اور پھر بعد میں سرکاری طور پر بھرتی کیا گیا۔ اس قوی فوج نے بادشاہ کے خلاف اٹھنے والی ہر بغاوت کو کچل دیا۔
امیر عبدالرحمان کے خلاف 1886 میں غلزئی قبیلے کے لوگوں نے غیر مسلح بغاوت شروع کی اور قندھار سے کابل کی جانب مارچ روانہ کیا۔ اس کا بدلہ ان کو یوں چُکانا پڑا کہ امیر نے 10،000 غلزئیوں کو غیر پختون علاقوں میں منتقل کیا جہاں ان کی شناخت سالوں تک دبی رہی۔ نہ صرف ان کی شناخت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، بلکہ وہ، غیر پشتون ہمسایوں میں آباد ہوتے ہی امیر کی اطاعت پر مجبور بھی ہو گئے۔ ہزارہ قبائل نے بھی جب ان کے خلاف مزاحمت شروع کی اور ان کی خودمختاری سے انکار کیا تو امیر نے ان کے خلاف جہاد کا اعلان کیا اور ان کے خلاف لڑنے والوں کو غازی کا لقب بھی دیا۔
امیر عبدالرحمان کی سیاسی اور فوجی کامیابیوں نے ان کو ایک مضبوط بادشاہ کے طور پر تادمِ مرگ برقرار رکھا ۔ ان کی ساری کوششیں اس دور میں پشتونوں کے خلاف نظر آئیں۔ مگر آنے والے وقت نے ثابت کیا کہ اس مخالفت اور پشتون دشمنی ہی نے افغانستان کو ایک پشتون ریاست کا درجہ دیا۔
یہ تو تھے اندرونی معاملات ، روس برطانیہ سرحدی کمیشن بھی اس دور کی ایک اہم یاد ہے۔
اور پھر ڈیورنڈ لائن ، جس کی دلچسپ تاریخ آج بھی دہرائی جاتی ہے۔اس کا تذکرہ اگلی قسط میں کیا جائے گا۔
تبصرہ لکھیے