اپنی اختتامی تقریب میں جنرل باجوہ صاحب نے خوب کھل کر اظہار خیال فرمایا اورتقریباً ہر موضوع پر انہوں نے خامہ فرسائی کی اور ادارے کی پالیسی کے طور پر اعلان کیا کہ فروری2022ءکے بعد فوج آہستہ آہستہ سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلے گی ۔ اگرموجودہ آرمی چیف اس فرمان عالیشان کی تصدیق فرمادیں تو قوم پر بڑا احسان ہوگا۔
وگرنہ جاتے ہوئے ہی یہ گھتیاں کیوں سلجھتی ہیں ، ایک حل طلب مرحلہ ہے۔ ویسے تو تیسری دنیا کے تمام ممالک کے مسائل کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں جن میں کمزور سیاسی نظام، مضبوط افواج، کمزور پارلیمنٹ اور جھولتا ہوا عدالتی نظام خاص طور پر اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ لیکن پاکستان کے مسئلہ نمبرایک کو اگر دیکھا جائے تو اب تک کی پچھتر سالہ تاریخ ا س بات کی گواہ ہے کہ ہمارا مسئلہ نمبرایک اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں بے جا مداخلت ہے، جس نے مضبوط سیاسی نظام کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ سیاسی جماعتیں ایک Parasite کی طرح اسٹیبلشمنٹ کی طرف دیکھتی ہیں اور جب تک دونوں ایک پیج پر ہوتے ہیں تو اس بات کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہیں اور جونہی یہ پیج پھٹتا ہے تو الامان الحفیظ۔دونوں اطراف سے گولہ بارود کی وہ بارش ہوتی ہے کہ جیسے دو متحارب فوجیں میدان جنگ میں ایک دوسرے کے مد مقابل موجود ہوں۔
میاں نواز شریف اور اب عمران خان کی رخصتی نے تو نہ صرف ان دونوں حضرات کے دل توڑے بلکہ ان کی ذہنی و نفسیاتی ساخت کو بھی بری طرح متاثر کیا۔ ان میں سے ایک اعلیٰ حضرت نے تو ” ووٹ کو عزت دو “ یعنی ووٹ کی حرمت کا نعرہ مستانہ بلند کیا اور نام لے لے کر جو دھائیاں دیں وہ بھی ہماری جمہوری اور پارلیمانی تاریخ کا حصہ ہے۔ ووٹ کی عزت و حرمت کو بلند کرتے ہوئے موصوف کے پلیٹلٹس خطر ناک حد تک کم ہوگئے تھے، جو کہ ابھی تک پورے ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے۔اللہ کرے یہ پلیٹلٹس پورے ہوجائیں تاکہ ووٹ کی عزت و حرمت کا ڈھنڈورا دوبارہ سے پیٹا جاسکے۔
یوں ووٹ بے چارہ بے یارو مددگار بیچ چوراہے حیران اور پریشان کھڑا ہے کہ میری عزت و حرمت کی خاطر جلسوں میں عوام الناس سے عہد لینے والے میاں صاحب کب لوٹیں گے؟ اور کب گلشن کا کاروبار چلے گا؟جبکہ درمیان میں ہی میاں شہباز شریف صاحب نے ووٹ کی عزت و حرمت پر شب خون مارا اور جس طرح رات کی تاریکیوںمیں ووٹ کی ناموس کو پامال کیا گیا اور اس کا نتیجہ ہے کہ وہ آج وزارت عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہیں۔ یہ ہے ووٹ کی عزت و حرمت کا طویل ، کٹھن اور جاں گسل سفر کہ جس میں ووٹ بیچارا تو پکوڑے بیچتا رہ گیا اور بات کہیں سے کہیں تک جا پہنچی۔
بائیس سال تک اس دشت کی خا ک چھاننے والے ملت اسلامیہ کے عظیم سپوت کی جلتی ہوئی پیشانی پر جنرل ظہیر الاسلام نے اپنا دست مسیحائی رکھاتو ” روح تک اتر گئی تاثیر مسیحائی کی “ کے مصداق حضرت نے پھولوں کی ایسی پذیرائی کی کہ پھول تو پھول کانٹوں کے زخموں سے بھی خون رسنا شروع ہوگیا۔ یوں و ہ رومانوی دور کہ جس کی منظر کشی شیخ رشید روزانہ گھنٹوں ٹیلی ویژن پر بیٹھ کرفرمایا کرتے تھے اور پوری تحریک انصاف ان رومانوی مناظر سے لطف اندوز ہوا کرتی تھی کہ اچانک ” ٹٹ گئی تڑک کرکے “ کا اعلان ہوا اور پھر ایک دوسرے پر بے وفائی کے الزامات شروع ہوگئے۔ یوں ایک اور رومانوی دور اپنے اختتام کو پہنچا۔ چونکہ رومانوی دنیا حقیقی دنیا سے خاصی مختلف ہوتی ہے۔
اس لیے ملت اسلامیہ کے عظیم راہنما ابھی تک اسی رومانوی دور میں ہی زندہ ہیں اور شدید خواہش ہے کہ شائد دوبارہ کوئی اس جلتی ہوئی پیشانی پر دست مسیحائی رکھے تاکہ روح دوبارہ اسی روحانی کیفیت سے سرشار ہوسکے جبکہ مسیحا اپنے بوریا بستر سمیت گمنامی اور روحانی سفر پر روانہ ہوچکے ہیں جبکہ محبوب کی جدائی کا غم اور بے وفائی کا صدمہ اتنا شدید ہے کہ ہمارے محبوب قائد ابھی تک اس صدمے سے باہر ہی نہیں نکل پارہے اور ان کے چاہنے والے بھی شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہیں جس کا اظہار ان کے لب و لہجہ سے عیاں ہے۔ ہمارے یہ دوست جتنی جلدی اس حقیقت کو تسلیم کرلیں کہ یہ خواب ٹوٹ چکا ہے اور ” حقیقی آزادی مارچ“ کے بعد ” حقیقی آزادی اپریل “ بھی شروع ہوچکا ہے، ان کے لیے بہتر ہے رومانوی اور حقیقی دنیا بالکل مختلف چیزیں ہیں۔
پاکستان کی آزادی کے چند سال بعد ہی جنرل ایوب نے جس روایت کا آغاز کیا وہ آج تک اپنے پورے تزک و اختشام کے ساتھ موجود ہے۔ کبھی بالواسطہ اور کبھی بلا واسطہ اسٹیبلشمنٹ اقتدار کی راہداریوں اور غلام گردشوں کا حصہ رہی ہے۔بلکہ مبلغ چھتیس سال بلا شرکت غیر اس مملکت خداداد کی باگ دوڑ ان کے مضبوط ہاتھوں میں رہی اور انہوں نے خوب جم کر سیاست بھی کی اور جب گنگا بہہ رہی ہو توہاتھ اور منہ دھونے کے علاوہ غسل بھی ہوجایا کرتے ہیں۔ ا س چیز نے نہ صرف پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے بلکہ پورے سیاسی نظام کو بھی اپنے پاﺅں پر کھڑا نہیں ہونے دیا ۔
مختلف سیاسی اتحادوں کا وجود میں لایا جانا، مختلف سیاسی جماعتوں کا مصنوعی طور پر کھڑا کیاجانا، سیاستدانوں کو وفاداریاں بدلنے پر مجبور کرنا، طیارے بھر بھر کر لانا، بسوں میں بٹھا کر گنتی کرنا اور چھانگا مانگا کی خریدو فروخت نے صدیوں پرانے غلامانہ نظام کی یاد یںتازہ کردیں کہ جب انسانوں کی منڈیاں لگا کرتی تھیں اور پھر بولیاں لگا کر انسانوں کی خرید و فروخت کی جاتی تھی، آج بھی وہ سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں جاری و ساری ہے۔ یہ ہے وہ تاریخ کہ جس کے متعلق جنرل باجوہ نے شاہی فرمان جاری کیا کہ ہم نے اپنا کتھارسز شروع کردیا ہے اور انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 70برسوں سے فوج کی سیاست میں مداخلت ہورہی ہے جو کہ نہ صرف غیر آئینی بلکہ اس سے فوج بھی تنقید کی زد میں آتی رہی ہے۔ بقول شاعر !
ہائے اس زود پشیمان کا پشیمان ہونا!
اب آئیے ان کی تقریر کے دوسرے پہلو کی طرف کہ جس میں انہوں نے ارشاد فرمایا کہ ” مشرقی پاکستان میں فوجی نہیں سیاسی ناکامی تھی“ تو جناب عالی شان! فقط اتنا تو بتاتے جائیے کہ 1971ءمیں سیاست کے افق پر کون سے روشن ستارے تھے کہ جو ماند پڑگئے اور یہ حادثہ رونما ہوا تو جناب عالی اس وقت کی پوری سیاست جنرل یحیٰ کی گرفت میں تھی اور اس سے پہلے کے دس سال کس کا طوطی بولتا تھا۔ 1958ءمیں کس نے طاقت کے نشے میں اقتدار پر شب خون مارا اور 1300سے زائد سیاستدانوں پر مختلف کیسز بنا کر سیاست سے بے دخل کیا ، پھر جنرل ضیاءالحق سے لے کر پرویز مشرف تک کا ” روشن اور تابناک “ دور بھی اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے رتی برابر بھی تاریخ سے سبق نہیں سیکھا ہے.
اور اب 2013ءسے 2022ءتک جن پودوں کو آپ نے اپنی نرسریز میں تیار کیا اب وہ گل کھلارہے ہیں اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہورہا ہے تو جناب داد دیجئے اس ملک کے بائیس کروڑ عوام کے صبر کو کہ جن پر آپ ہائبرڈ حکومتیں مسلط کرتے رہے جنہوں نے دونوں ہاتھوں اور حتیٰ کہ دونوں پاﺅں سے بھی اس ملک کو لوٹا جبکہ آپ فقط ان کو بلیک میل کرنے کے سو ا کچھ نہ کرسکے۔ تاکہ دونوں کو سپورٹ کرنے والا یہ نظام چلتا رہے اور بائیس کروڑ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز نہ ہوسکے۔ ان 75سالوں میں دنیا بدل گئی۔ بقول اقبال
چینی بدلے، رومی بدلے ، بدلا ہندوستان
اور اگر نہ بدل سکا تو تو ان بائیس کروڑ عوام کا مقدر ، اگر نہ بدل سکا تو یہ فرسودہ عدالتی نظام کہ جہاں آج بھی فیصلوں کا انتظار کرتے کرتے ہمارے بزرگوں کی آنکھوں میں موتیا اور بالوں میں سفیدی اتر آتی ہے حتیٰ کہ حالیہ چند سالوں میں کچھ فیصلے تو تب آئے کہ جب قبر میں ان فیصلوں کے انتظار کرنے والوں کی ہڈیاں بھی خاک میں مل چکی تھیں۔ اگر نہ بدلا تو سیاست کا فرسودہ نظام نہ بدلا کہ جہاں آج پارلیمنٹ منتظر رہتی ہے اور فیصلے لندن، بنی گالا اور زرداری ہاﺅسز میں ہوتے ہیں۔ اگر نہ بدلا تو تعلیم کا فرسودہ نظام نہ بدلا کہ جو آج بھی انگریز کی باقیات کا حصہ ہے۔
اگر نہ بدلا تو مالیاتی نظام نہ بدلا کہ جس پر آج بھی ورلڈبینک اور آئی ایم ایف کی اجارہ داری قائم ہے۔ سونا اگلتی زمینیں ، تھل و صحرا ، ہمالیہ و کوہستان کی چوٹیاں اور ساٹھ فیصد سے زائدباہمت اور پرجوش نوجوانوں پر مشتمل یہ خطہ اور سرزمین ایک ایسے پاکیزہ اور مقدس نظام کی منتظر ہے کہ جس کاوعدہ ہم نے اپنے رب کائنات سے کیا تھا کہ ” ہم ایک ایسی سرزمین چاہتے ہیں کہ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کے مطابق زندگی گزار سکیں۔ “آج اس ریاست میں حکومت عدلیہ کا دروازہ کھٹکھٹاتی ہے کہ سودی معیشت کے بغیر ہمارا گزار ا نہیں ہوسکتا اور عدلیہ اس پر صرف خاموشی ہی اختیار نہیں کرتی بلکہ اس معاملے میں حکومت کادست و بازور بن جاتی ہے جو کہ ہر محب وطن پاکستانی کے لیے باعث تشویش ہے۔
قارئین کرام !
ہونا تو یہ چاہتے تھا کہ دیر آید درست آید کے مصداق پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس طلب کیا جاتا اس پر سیر حاصل بحث کی جاتی اور ہر طرح سے اسٹیبلشمنٹ کو مجبور کیا جاتا کہ وہ اپنے اعلان کردہ حدود کے اندر اپنا آئینی کردار ادا کرے اور سیاسی جماعتیں بھی اس بات کا اعلان کریں کہ اب وہ اقتدار کی غلام گردشوں کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی بجائے حقیقی عوامی نمائندگی کو ترجیح دیں گی اور رات کی تاریکی کی بجائے آفتاب کی روشنی میں لوگوں سے ملیں گے اور نظریں چرانے کی بجائے اعتماد کے ساتھ عوام کا سامنا کریں گے تاکہ عوام کا اعتماد بھی بحال کیا جاسکے۔ حکومتوں کو وقت سے پہلے گرانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیے، ہر حکومت کو اپنا فطری وقت مکمل کرنا چاہیے۔ بلدیاتی الیکشن دنیا بھر میں رائج نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن ہمارے ہاں اس پورے نظام کو بھی سیاسی جماعتوں نے اپنے گھڑے کی مچھلی بنا کر رکھا ہوا ہے۔
اپنی شکست کے خوف سے کراچی میں بلدیاتی انتخابات کو مسلسل التوا میں ر کھا گیا ہے۔ اسی طرح طلبہ یونین نے نہ صرف طلبہ کی فلاح و بہبود کے لیے ایک عظیم الشان کردار ادا کیا بلکہ قومی سطح پر سیاستدانوں کی ایک بہت بڑی کھیپ بھی تیار ہوئی جو آج قومی افق پر جگمگا رہی ہے۔ اس لیے فی الفور طلبہ یونین کے الیکشنز کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔ ہر ادارہ کے کردار کو آئین پاکستان نے پوری طرح ڈیفائن کردیا ہے اب اگر ہر ادارہ اس آئینی ذمہ داری کو ادا کرے تو اس مملکت خداد کو ایک حقیقی اسلامی جمہوری فلاحی ریاست میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔
پورے ملک میں چوری اور ڈکیتی کے واقعات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں جبکہ پولیس اور دیگر ادارے بالکل بے بس نظر آتے ہیں۔ جب ملک میں کرپشن اور معاشی بد حالی ہوگی تو ظاہر ہے کوئی ایک محکمہ یا ڈیپارٹمنٹ اس کا ذمہ دار نہیں ہوگابلکہ ان کی ناکامی کا سہرا ان حکومتوں کو جانا چاہیے کہ جنہیں آج بھی عوام کے جان و مال اور عزت و آبرو سے کچھ بھی غرض نہیں بلکہ وہ آج بھی فلور کراسنگ اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے سے اپنے اقتدار کو دوام دے رہے ہیں۔ پنجاب کی اس وقت جو حالت ہے وہ انتہائی قابل تشویش ہے۔ پنجاب کے ساتھ تحریک انصاف ، ن لیگ اور پھر تحریک انصاف نے جو سلوک کیا وہ اپنی بد انتظامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
اقتدار کی ہوس میں مبتلا یہ سب استعمال ہوتے رہے ہیں۔اب مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حکمرانوں کی طرح عمران خان بھی استعمال ہوا تھا جیسے ماضی میں زرداری، شریف، چوہدری، ایم کیو ایم وغیرہ استعمال ہوتے رہے ہیں۔یہ سب کے سب نادیدہ قوتوں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار پر براجمان ہوتے رہے ہیں۔آج کل مکافات عمل کا دورانیہ ایک بار پھر سے شروع ہو چکا ہے۔ماضی پر نظر ڈالنے سے یہی دکھائی دیتا ہے کہ جس جس کو بھی "جمہوریت" کے لبادے میں لپیٹ کر اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھایا جاتا رہا ہے نتائج ہمیشہ یہی نکلتے رہے ہیں جو آج کل نظر آ رہے ہیں۔اصلاحات کے بغیر یہ موجودہ جمہوری سسٹم برقرار رہا تو قرین قیاس ہے کہ یہ مذکورہ کارروائی کا تسلسل جاری رہے گا۔
شومئی قسمت کہ ان سیاست دانوں کا رویہ بتاتا ہے کہ وہ خود بھی یہی چاہتے ہیں جس کو اقتدار کے بعد بھگتتے بھی ہیں اور پھر روتے بھی ہیں جیسے عوام انھی کو ووٹ دیتے بھی ہیں اور ہر بار پانچ سال تک روتے بھی ہیں لیکن آج کل کچھ زیادہ ہی رونے کوسنے کے دن آن پہنچے ہیں۔الغرض اس مصنوعی جمہوری سسٹم کو جاری و ساری رکھنے میں ہمیشہ سے ملٹری و سول بیوروکریسی کے علاوہ جاگیرداروں و سرمایہ داروں کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا۔تجزیہ نگاروں کے مطابق جنرل ایو ب خان کے دور سے ہی ان سب نے یہ طے کر رکھا ہوا ہے کہ عوام کو اقتدار میں حصہ دار ہرگز نہیں بنانا۔
لہذا پچھتر سال سے جو ٹولہ اس مملکت پر مسلط ہے وہ سب آپس میں تو ملے ہوئے ہیں ۔ ایک دوسرے کو این آر او بھی دیتے ہیں اور لیتے ہیں ۔ یہ پورا نظام ان کو اور وہ سارے اس نظام کو سپورٹ کرتے ہیں ۔ آئیے اس نظام کو اس کی جڑوں سے اکھاڑ پھینکیں اور اللہ اور اس کے رسول کا مقدس اور پاکیزہ نظام زندگی نافذ کریں ۔ آگے بڑھیے اور ساتھ دیجئے جماعت اسلامی کا اور ترازو کا کیونکہ حل صرف جماعت اسلامی ہے۔
تبصرہ لکھیے