مسلم لیگ ن سے پرفارم کرنے کی توقع لگانے والے یا بہتری کی امید رکھنے والے احباب احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک کو سمجھنے کی کوشش کی جائے اور اس کے سیاسی ڈھانچے پہ غور کریں تو بخوبی اندازہ ہو جائے گا کہ اس سے بنیادی اصلاحات جیسے تعلیم، صحت، پولیس، عدلیہ اور پٹوار میں بہتری کی توقع رکھنا کیوں غلط ہے!
سب سے پہلی بات تو یہ جان لیجیے کہ مسلم لیگ ن کسی نظریے کا نام نہیں۔ کسی زمانے میں اسے دائیں بازو کی جماعت سمجھا جاتا تھا، آج کل میاں صاحب کو لگتا ہے کہ لبرل پاکستان کا نعرہ مغرب میں زیادہ مقبول ہے تو یہ اپنا نام دائیں بازو کی صف سے کٹوا کر بائیں بازو والوں کے ساتھ لکھوانے کے لیے بے چین ہوئے پھرتے ہیں۔ ایک زمانے تک میاں صاحب فوجی آمر کا ادھورا مشن پورا کرنے کا نعرہ لگاتے رہے، آج جمہوریت کا چہرہ کہلوانے پہ مصر ہیں۔
دوسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے برعکس مسلم لیگ ن کے پاس کوئی ایسا چہرہ نہیں جس کی بنیاد پہ ووٹ مانگا جا سکے۔ پیپلز پارٹی ایک عرصہ قائدِ عوام کے سائے تلے اور پھر اُن کے خون پہ زندہ رہی، اُس کے بعد بی بی محترمہ نے اپنے والد کی وراثت کو سنبھالا اور صرف سندھ نہیں بلکہ پنجاب سے بھی عوام نے بھٹو کی بیٹی کو ووٹ دیا۔ اسی طرح تحریک انصاف کے پاس عمران خان ہیں، کرکٹ کے سابقہ ہیرو جو اپنی کرشماتی شخصیت سے لوگوں کو اپنی ذات کے گرد اکٹھا کر لیتے ہیں۔ مسلم لیگ ن کے پاس اس طرح کا کوئی بندہ نہیں ہے۔ شہباز شریف کی جلسوں کی تقاریر میں ضرورت سے زیادہ تصنع، بھونڈا پن اور غیر ضروری انقلابیت باقاعدہ الحمرا ہال والا تاثر چھوڑتی ہے، میاں نواز شریف نے 1997ء میں بزرگوں کی آشیرباد سے جو دوتہائی اکثریت لی، اُس میں اُنہوں نے لوگوں کو اپنے گرد اکٹھا کرنے کی کوشش ضرور کی تھی اور وہ قرضہ اتارو ملک سنوارو والی مہم میں لوگوں نے اپنا سب کچھ میاں صاحب کو دان بھی کر دیا تھا لیکن پھر فوجی آمر کے سامنے جس دلیری اور بہادری سے شیر نے آنسو بہائے، اُس نے میاں نواز شریف کی لیڈری کی رہی سہی کسر نکال دی۔ نکتہ صرف یہ ہے کہ لوگ میاں نواز شریف اور شہباز شریف کی ذات کو ووٹ نہیں کرتے۔
تیسری بات یہ سمجھنے کی ہے کہ مسلم لیگ ن کسی قسم کی تبدیلی یا انقلاب کی خواہش ہی نہیں رکھتی۔ اُس کی لیے لفظ سیاست بمعنی خدمت یا انتظام نہیں بلکہ بمعنی کاروبار مستعمل ہے۔ اس حوالے سے دلچسپ نکتہ وہ ہوتا ہے جب مسلم لیگ ن کے لیڈران تحریک انصاف پہ تنقید کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں: اجی ہم تو ہیں ہی چور ڈاکو اور برے ۔۔۔”ان سے پوچھیں کہ انہوں نے کیا کر لیا؟ “ یعنی باالفاظِ دیگر وہ اس بات کا اقرار کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم تو اس ملک کو جو کچھ دے سکتے ہیں وہ آپ کے سامنے ہے لیکن دے آپ کو تحریک انصاف والے بھی کچھ نہیں سکتے۔
یہاں ایک منطقی سوال یہ جنم لیتا ہے کہ اس سب کچھ کے باوجود مسلم لیگ ن کو وفاقی اور صوبائی حکومت کیسے حاصل ہوتی ہے؟ جواب بہت سادہ ہے اور اگر ہم اس جواب کو سمجھ لیں تو اُس کے بعد میرا یہ دعوی کے مسلم لیگ ن سے تبدیلی یا بہتری کی امید لگانا بے وقوفی ہے سمجھنے میں آسانی ہو گی۔
مسلم لیگ بنیادی طور پر روایتی سیاست کی چمپیئن ہے۔ یہ جانتی ہے کہ کہاں کس بنیاد پہ ووٹ ملتا ہے اور یہ اُس جگہ پر مطلوبہ بھیس بدلنے میں مہارت رکھتی ہے۔ شہری اور دیہی علاقوں میں ووٹ دینے کے پیمانے مختلف ہیں، شہروں میں بھی پرانے محلوں جیسا کہ اندرون لاہور اور نئے علاقوں جیسا کہ ڈیفنس وغیرہ میں ووٹ دینے کا معیار مختلف ہے اور مسلم لیگ ہر جگہ کے حساب سے اپنی پلاننگ کرتی ہے۔ دیہاتوں میں مسلم لیگ ن کا سارا فوکس بڑے جاگیردار اور سرمایہ دار کو اپنے ساتھ ملانا ہوتا ہے۔ سیٹ جیتنے کے لیے سالوں پرانے تعلق کو توڑنے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگایا جاتا۔ میرے شہر اٹک سے ملک سہیل کمڑیال اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ مشرف دور میں ملک سہیل نے مسلم لیگ ن کا ساتھ دیا کہ جب چوہدری نثار جیسے لوگ بھی منظر سے غائب تھے لیکن 2013ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کی مرکزی قیادت بشمول چوہدری نثار نے محسوس کیا کہ ملک سہیل مناسب ووٹ لینے کے باوجود سیٹ نکالنے کی پوزیشن میں نہیں تو انھیں سائیڈ لائن کرنے میں ایک سیکنڈ کی دیر کرنا بھی مناسب نہیں سمجھا گیا۔
ایک قدم اور آگے بڑھیں، مسلم لیگ اپنے ایم این اے یا ایم پی اے کے امیدوار کو سرکاری و غیرسرکاری اداروں میں لامحدود تصرف دیتی ہے۔ ایم این اے کے حلقے میں موجود ایک تھانے کے ایس ایچ او اور پٹواری سے لیکر ضلعی کمشنر تک کوئی ایسا بندہ ٹک نہیں سکتا جو ایم این اے کو قبول نہ ہو۔ اسی طرح سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی تبدیلی سے لے کر مختلف سرکاری اداروں میں بھرتیوں تک ایم این اے یا ایم پی اے کی پرچی یونیورسٹی ڈگری سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ مسلم لیگ ن کا ایم این اے ہارا ہوا ہو یا جیتا ہوا، تھانے، کچہری اور پٹوارخانے میں اُس کا اثر و رسوخ ایک جیسا رہتا ہے اور عام آدمی کو اس بات پہ مجبور کر دیا جاتا ہے کہ اگر کام کروانا ہے تو مسلم لیگ ن کی مقامی یا ضلعی قیادت کو ساتھ لائیں یا پرچی لے کر آئیں۔ آپ نے سوشل میڈیا پہ وہ پرچیاں گردش کرتی ضرور دیکھی ہوں گی کہ ۔۔۔ جناب ڈپٹی کمشنر صاحب، حاملِ پرچی ہذا بلال ساجد اپنا عزیز ہے، خصوصی شفقت فرمائیں۔ منجانب ایم این اے فلاں ابن فلاں۔ تو حضور عرض یہ ہے کہ آپ کا ملک اس طرح کی پرچیوں پر چل رہا ہے اور یہ پرچیاں نہیں بلکہ مسلم لیگ ن کے سیاسی بدن میں دوڑتا خون ہے۔
اس سیاسی ڈھانچے کے ساتھ مسلم لیگ ن سے کسی ٹھوس تبدیلی کی امید رکھنا ۔۔۔ چہ معنی دارد؟
تبصرہ لکھیے