ہوم << سائبر کرائم بل، انٹرنیٹ صارفین کے لیے لازمی جاننے کی باتیں

سائبر کرائم بل، انٹرنیٹ صارفین کے لیے لازمی جاننے کی باتیں

طویل عرصہ سے تعطل کا شکار سائبر کرائم بل 2016 سینیٹ کی قائمہ کمیٹی اور سینیٹ سے منظوری کے بعد قومی اسمبلی سے پاس ہونے کے مرحلہ میں ہے۔
یاد رہے کہ سائبرکرائم بل2016 قومی اسمبلی سے رواں سال اپریل میں پاس کیاگیا تھا تاہم اپوزیشن جماعتوں کے علاوہ متعدد سیاسی راہنمائوں اور سول سوسائٹی کے ارکان نے اس بل کو اظہار رائے کی آزادی سلب کرنے کے مترادف قراردیتے ہوئے اپنے تحفظات اور خدشات کا اظہار کیاتھا جس کے بعد اس بل کو متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھجوا دیا گیا تھا اور اس میں کچھ ترامیم کی گئی ہیں،ان ترامیم کے مطابق سائبر کرائم کی سزائیں بڑھا دی گئی ہیں۔
متعدد ترامیم کے بعد سامنے آنے والے بل میں کئی ایسی دفعات ہیں جو کسی بھی عام انٹرنیٹ یوزر کے لئے لازما جاننے کی چیز ہیں۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کی جانب سے منظور کردہ بل میں درج ذیل اہم پوائنٹس ہیں:
سائبردہشت گردی پر 14سال قید،5کروڑ جرمانہ ہو سکے گا۔
انٹرنیٹ پر کسی کے خلاف مذہبی نسلی یا فرقہ واریت کی بنیاد پر مواد ڈالنے یا چلانے پر7سال قید ہو سکے گی۔
نفرت انگیز تقاریر کے حوالے سے کمپیوٹر،موبائل فون اور الیکٹرانک آلات کی شہادت قابل قبول ہو گی۔
نفرت،اشتعال انگیز مذہبی منافرت اورفرقہ واریت پھیلانے پرسات سال سزا ہوگی۔
انٹرنیٹ کے ذریعے دہشت گردوں کی فنڈنگ کرنے پر سات سال سزا ہوگی۔
چائلڈ پورنو گرافی یا بچوں کی غیراخلاقی تصاویر شائع کرنے یااپ لوڈ کرنے پر سات سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
انٹرنیٹ ڈیٹاکے غلط استعمال پر تین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانہ ہوگا۔
موبائل فون کی ٹیمپرنگ پرتین سال قید اور دس لاکھ روپے جرمانے کی سزا تجویز کی گئی ہے۔
سائبرکرائم قانون کااطلاق صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ ایسے افراد،گروہوں پر بھی ہوگا جو ملک سے باہر کسی بھی دوسرے ملک میں بیٹھ کر ریاستی سالمیت کے خلاف کام کررہے ہوں گے ایسے افراد یاگروہوں کی گرفتاری کے لیے متعلقہ ممالک سے رجوع کیاجائے گا۔
مسودے میں یہ بھی کہاگیاہے کہ سائبرکرائم قانون کااطلاق پرنٹ اور الیکٹرک میڈیاپر نہیں ہوگا۔ پی ٹی اے کے لائسنس ہولڈر کے خلاف کارروائی پی ٹی اے کے قانون کے مطابق ہوگی۔
سائبرکرائم کی تحقیقات کے لیے ہائیکورٹ کی مشاورت سے ایک خصوصی عدالت قائم کی جائے گی اور عدالت کی اجازت کے بغیرسائبرکرائم کی تحقیقات نہیں ہوسکے گی۔
اگر کوئی تحقیقاتی ایجنسی ڈیٹا کا غلط استعمال کرے گی تو ذمہ داران کوتین سال قید اور 10 لاکھ جرمانہ ہو گا۔
عالمی سطح پرمعلومات کے تبادلے کے لیے عدالت سے اجا ز ت لی جائی گی اور دوسرے ممالک سے تعاون بھی طلب کیا جاسکے گا۔
انٹرنیٹ فراہم کرنے والی کمپنیاں اور دیگر کمپنیاں عدالت کی اجازت کے بغیر ڈیٹا کسی کو فراہم نہیں کرسکیں گی۔ جو عدالت کی اجازت سے ڈیٹا لے گا وہ پابند ہوگا کہ جس مقصد کے لئے ڈیٹا لے گا وہ خفیہ رکھے اور اسی مقصد کے لئے استعمال کرے۔
تحقیقا ت کو شفاف بنانے کے لئے شفاف رولز بنائے جائیں گے اور چیک اینڈ بیلنس کا میکنزم رکھا جائے گا۔
بغیر اجازت کسی کی تصاویر انٹرنیٹ پر دینے،اسے بدنام کرنے اور کسی کے خلاف بھی بغیر تحقیق پوسٹ شئیر کرنے پر قید اور جرمانے کئے جائیں گے۔
صارفین کی جانب سے شکایت کئے جانے پر مذکورہ ویب سائٹ بلاک کر دی جائے گی۔

Comments

Click here to post a comment