ہوم << "پاکستان میں ہم جنس پرستی"کے متعلق کچھ اعتراضات کے جوابات - سید عطااللہ شاہ

"پاکستان میں ہم جنس پرستی"کے متعلق کچھ اعتراضات کے جوابات - سید عطااللہ شاہ

(ذیل میں میری حال ہی میں شائع شدہ تحریر، "پاکستان میں ہم جنس پرستی کا فروغ اور مغرب کی سرگوشیاں" کے بعد اٹھائے گئے کچھ سوالات کے جوابات ہیں۔)

تقریباً ایک مہینہ پہلے، میں نے پاکستان میں ہم جنس پرستی کے بڑھتے ہوئے معاملے کے بارے میں ایک تفصیلی مضمون شائع کیا جسے انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں بہت دوست و احباب نے پسند کیا۔ میں اپنے تمام قارئین کا مشکور ہوں جنہوں نے اس معاملے پر غور کرنے میں اتنی دلچسپی ظاہر کی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں اس معاملےکا نتیجہ خیز حد تک تجزیہ کرکے اس کے متعلق ہر فورم پر بات کرنی چاہیے تاکہ شعبہ ہائے زندگی کے تمام طبقات اس معاملے کی حساسیت کو سمجھ سکیں۔

ہم جنس پرستی کے متعلق تصادم، دو مختلف نظریات رکھنے والے گروہوں کے درمیان ہے، جن کے تہذیب، ثقافت، رہن سہن، او رریت و رواج ایک دوسرے کے مکمل منافی ہیں۔ جبکہ ایک فریق اسے " انسانی حقوق کا بہت ہیسنگین معاملہ" سمجھ رہا ہے، تو دوسرے کا نقطہ نظر اسسے کچھ مختلف ہو سکتا ہے۔ بات بالکل سیدھی سیہے، "جس طرح سے آپ کا کلچر (برادری) تجویز کرتا ہے اسی طرح زندگی گزاریں، اور اپنی 'نظریات' کو دوسروں پر لاگو نہ کریں" ۔ کیونکہ "ہر کوئی اپنی ثقافت اور تہذیب کو اسی طرح پسند کرتا ہے جس طرح دوسرے اپنے والے کو کرتے ہیں"۔

زندگی کے اس سادہ سے اصول پر عمل کرتے ہوئے، ہمخود بھی جی سکتے ہیںاور دوسروں کو بھی امن اور خوشحالی کے ماحول میں جینے دے سکتے ہیں۔ ویسے۔۔۔ باتوں باتوں میں، "انسانی حقوق کی تعریف کسی معاشرے میں لوگوں کی روایات ، اقدار اور آئین سے ہوتی ہے، صرف جانوروں کے حقوق عالمی ہیں۔" کہانی کو مختصر کرتے ہوئے اصل بات کی طرف بڑھتے ہیں۔ ذیل میں کچھ سوالات ہیں جو میرے ایک سینئر ساتھی نے مذکورہ بالا تحریر پڑھنے کے بعد پوچھے تھے۔ میں نے اس کے تمام سوالوں کے جوابات پوری طرح سے دیے، اپنی پوری کوشش کی کہ اسے جواب سے مطمئن کر سکوں۔ لیکن آخر میں، میں نے محسوس کیا کہ دوسروں کواس بات پر قائل کرنا جو ان کے نظریات سے متصادم ہو، کچھ زیادہ ہی ناممکن ہے۔

گفتگو
سوال 1: کیا آپ کو نہیں لگتا کہ آپ کا یہمضمون مغربی ثقافت/معاشرے کے خلاف کسی حد تک متعصب ہے؟

میرا جواب:مجھے نہیں لگتا کہ مضمون متعصب ہے۔ میں نے 'مغرب ان چیزوں پر عمل کیوں کر رہا ہے یا اسے ایسا نہیں کرنا چاہیے' کے بارے میں بات نہیں کی کیونکہ میرا خیال ہے کہ "وہ اپنی ثقافت کو اتنا ہی پسند کرتے ہیں جتنا ہم کرتے ہیں"۔ میں نے واضح طور پر اور بہت سادگی سے ذکر کیا ہےکہ دونوں تہذیبیں اپنے الگ الگ اصول اور روایات رکھتی ہیں۔ ہر ایک کا احترام کیا جانا چاہئے (اخلاقی اور نظریاتی حدود کو مدنظر رکھتے ہوئے)۔

اگر کوئی ایسی چیز ہے جو "کسی" تعصب کی طرف اشارہ کرتی ہے، تو وہ مغرب کی "سرگوشی" کے بارے میں میرا نقطہ نظر ہے۔ وہ انسانی حقوق کی چھت کے سائے میں ان چیزوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ تبھی میں نے اس معاملے کو بہت شفافیت سے اجاگر کیا ہے: " کسی تہذیب یا معاشرے کے انسانی حقوق کی تعریف پہلے اس ملک کے آئین اور سماج کو سامنے رکھتے ہوئےکی جاتی ہے، اور بعد میں، عالمی تنظیمیں اسی (وضع شدہ) قانون کے تحت اپنی کارروائیاں کرسکتی ہیں۔"لیکن پھر بھی، وہ سوچتے ہیں کہ ایل جی بی ٹی (ہم جنس پرستی) انسانی حقوق کا ایک سنگین مسئلہ ہے اور اسے کسی بھی طرح سے (اس ملک کے اندر)قانونی حق دیا جانا چاہیے ۔

سوال 2:
دوسری بات یہ کہ آپ نے بالکل ابتدائی جملے میں کہا تھا کہ "جیسے مغرب فوجی طاقت کے ذریعے دنیا کو اپنی لپیٹ میں کرنے میں ناکام رہا ہے"۔ کیا یہ آپ کا ذاتی مفروضہ ہے یا آپ اس کی تائید کے لیے کوئی ثبوت دے سکتے ہیں؟ لیکن وہ کیسے اور کب ناکام ہوئے ہیں؟ کیا انہوں نے کبھی پاکستان پر فوجی قبضہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ایسا کرنے میں ناکام رہے؟ کیا انہوں نے ہم پر سینکڑوں سال حکومت نہیں کی اور پھر براہ راست حکمرانی کی ضرورت محسوس نہ کرتے ہوئے اپنی مرضی سے چلے گئے؟

میرا جواب: سب سے پہلے یہ واضح رہے کہ میں نے پاکستان کا خاص طور پر ذکر نہیں کیا، میں نے عموماًدنیا کی بات کی ہے۔ (پچھلے مضمون میں)

ثبوت؟؟؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ اس کیلئے بھی کوئی ثبوت چاہئیں؟ ہیروشیما ناگاساکی سے شروع ہو کر۔۔۔ مشرق وسطیٰ (عراق، شام، یمن، وغیرہ) سے ہوتی ہوئی افغانستان پر ختم ہوتی ہے یہ کہانی، جس سے اس خطے کا بچہ بچہ واقف ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ مجھے واقعی یہ ثبوت فراہم کرنا چاہیے کہ مغرب دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے خواب میں ناکام ہو گیا ہے؟

بالکل! انھوں نے ہم پر سینکڑوں سال ضرور حکومت کی ہوئی ہے۔لیکن انہوں نے اس پورے سفر میں کبھی بھی دوسرے میدان (نظریاتی محاذ) کو تنہا نہیں چھوڑا۔ انہوں نے مستقل طور پر ان لوگوں کے خیالات اور عقائد کو (مذہب اور ثقافت کی بنیاد سے) منتشر کرنے پر کام کیا ہے جو ان کی "اصلیت" سے واقف نہیں ہیں یا پھر مکمل طور پر مغربی تہذیب میں دھنس چکے ہیں۔بہرحال مغرب اپنی فوجی طاقت کے ذریعے دنیا پر قبضہ کرنے میں ناکام ضرورہوا ہے۔ کھربوں ڈالر ضائع ہوئے ہیں اور ملا کچھ بھی نہیں۔ اب اس کا خمیازہ بھگتنے کیلئے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا انھیں۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، وہ سب جانتے ہی ہیں کہ "دھوبی کا کٹا ، نہ گر کا ۔ نہ گھٹ کا"

سوال 3:" اسی لئے اب وہ مشرق کے موجودہ معاشرتی نظام اور تہذیب و تمدن کو تباہ کرنے کے لیے اپنا اثر و رسوخ استعمال کر رہا ہے۔" وہ ایسا کیوں کریں گے؟ کیا آپ کو لگتا ہے کہ انہیں ہماری ثقافت سے کسی قسم کا خطرہ لاحق ہے؟

میرا جواب : ایک غیر تصدیق شدہ لیکن ذاتی رائے یہ ہے کہ مغرب ایک خاندانی معاشرہ بنانے میں اپنی طاقت کھو چکا ہے ۔ وہاں کے نوجوان خاندان کی تشکیل کے بجائے اپنے خواہشات کو من مانی سے حل کرنے میں دلچسپی لیتے ہیں۔ انفرادیت اور خود انحصاری جیسی چیزوں نے انہیں حقیقت سے مکمل طور پر دور ایک خیالی دنیا میں دھکیل دیا ہے۔

نکتہ یہ ہے کہ ان کے بڑوں کو اب اس حقیقت کا ادراک ہو رہا ہے کہ نوجوان قوم کی ترقی میں واقعی اہم کردار اداکرتے ہیں ، لیکن بدقسمتی سے وہ اس میں ناکام ہورہے ہیں۔ اور آپ دیکھیں گے کہ بہت جلد آبادی کا مسئلہ ان کو متاثر کرے گا۔ اب (ان کے لیے) اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے صرف ایک چیز باقی رہ گئی ہے ، وہ یہ کہ بقیہ قوموں کو اس سطح پر لانا جہاں وہ (مغرب) خود تھا یاہے۔ اس وجہ سے ہمیں بھی ایسے حالات سے گزارنا چاہتے ہیں جس سے وہ خود گزر کر بری طرح ناکام ہوچکے ہیں۔کیونکہ اس طرح طاقت (ان کے پاس) برقرار رہے گی۔ (ایک بچگانہ رائے ہے، ہے نا؟؟؟)

ایک اور چیز ہے جسے شیطانیت کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ اور اس فرقے کے پیروکاروں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ مذاہب سے متعلق ہر طرح کے چیزوں سے لڑیں اور تمام مذاہب کی جڑیں ہی کاٹ ڈالیں ، یعنی خدا شناسائی کا مکمل خاتمہ، نعوذ باللہ۔ (ویسے باتوں باتوں میں یہ بات نکل گئی بسس، کہنا نہیں چاہ رہا تھا میں)

رہی بات ہم سے خطرے کی تووہ یہ کہانہیں ہماری ثقافت سے کوئی خطرہ نہیں ہے، درحقیقت، انہیں ہونا ہی نہیںچاہیے۔ لیکن وہ کبھی اپنے نظریات کو دوسروں پر نافذ کرنے کی کوشش ہی نہ کریں تو کیسا ہوگا؟ جو کچھ وہ کر رہے ہیں ا سے انہیں انجوائے کرلینا چاہیے اور اسی طرح دوسروں کو ویسے ہی چھوڑ دینا چاہیے جو(اخلاقی اقدار کے اندر)وہ کر رہے ہیں۔ اگر وہ انسانی حقوق کے بارے میں اتنی فکر مند ہیں، جیسا کہ میں نے اپنی تحریر میں ذکر کیا ہے ، تو انہیں تعلیم، غربت، مہلک بیماریوںاورکرپشن وغیرہ کیساتھ ساتھ انسانیت کو بچانے کے لیے بہت سی دوسری چیزوں پر توجہ دینی چاہیے۔ لیکن نہیں بھئی، ایل جی بی ٹی ان سب سے اہم ہے ان کیلئے۔۔۔دنیا تباہ و برباد ہوجائے مگر پھر بھی انھوں نے "غیر ضروری نظریات ہی پھیلانے ہیں"۔

سوال 4: اور آخر میں، کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہمارا کلچر پہلے ہی ہم جنس پرستی کا شکار ہے۔ کچھ خاص علاقوں کاحوالہ دینے کی ضرورت ہی نہیں جو بہت سے لوگوں کے مطابق پہلے سے آگے نکل چکی ہیں؟

میرا جواب: یہ بات کافی مضحکہ خیز ہے لیکن ہے بڑی گہرائی والی بات ۔ درحقیقت اس سوال کامیں ہمیشہ اپنے قارئین سے توقع کرتا ہوں۔ اچھا ہوا آپ نے پوچھ لیا۔ انفرادی طورپر، پردے کے پیچھے، (معاشرے یا والدین کےخوف کے ساتھ) کچھ کرنا، قانونی تحفظ کے تحت کرنے سے بہت مختلف ہے۔ معاملہ کسی اسلامی ملک میں دروازوں کے پیچھے شراب پینے جیسا ہے، جہاں قانونی طور پر کسی کو کھلے عام شراب پینے کی اجازت تونہیں ہوتا لیکن کچھ لوگ "ذاتی حلقوں میں جام ٹکرا ہی لیتے ہیں"۔ اگر اسے قانونی تحفظ دیاجاتا ہے تو پھر۔۔۔ کوئی سوچ سکتا ہے، کیا ہوگا؟؟ مثال کے طور پر ایک اسلامی ریاست کے اندر مکملسرکاری تحفظ میں شراب خانوں اور جوئے خانوں کا قیام!

بالکل اسی طرح، فی الحال پاکستان میں(پ کے سوال کی رُو سے)ہم جنس پرستی کو "ہم جنس پرستی سمجھے بغیر" کیا جا رہا ہے لیکن بعد میں جب اسے قانونی تحفظ دیا جائے گا تو اصل قیامت تب ہماری منتظر ہوگی۔

Comments

Avatar photo

سیّد عطااللہ شاہ

سید عطا اللہ شاہ نے بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد سے انگریزی میں بی ایس کی ڈگری حاصل کی ہے۔ وہ ایک لیکچرار، بلاگر اور فری لانس صحافی ہیں جو پاک افغان معاملات اور پاکستان کے سماجی ومعاشرتی مسائل کے متعلق لکھتے ہیں۔

Click here to post a comment