ہوم << علیم وخبیر‎‎ - ندااسلام

علیم وخبیر‎‎ - ندااسلام

ایمان ویقین رکھنے کے باوجود انسان گھبرا جاتا ہے نا!یعقوب عہ نبی ہونے کے باوجود، کیونکہ غیب کے علم سے بے خبر تھے،یوسف عہ کی اپنے سے جدائی کے پیچھے پوشیدہ ان عظیم تر مصلحتوں سے بے خبر تھے جو یوسف عہ کو خزانے کے سربراہ کے طور پر سامنے لانے والی تھیں،جو عفو،صبرواستقامت،ضبط نفس کی مثالیں رقم کر کے مومنین کے لئے نشان راہ بننے والے تھے.

کاروبار سلطنت کی چابیاں سنبھالنے کے لئے،تمدنی امور سنبھالنے کے لئے جس تربیت کی ضرورت تھی اس کے لئے عزیز مصر تک ایک شاندار سکیم کے ذریعے پہنچایا جانا علیم وخبیر تو جانتا تھا مگر وقت کا رسول نہیں جانتا تھا۔اللہ نے اپنے بہت ہی خاص بندوں کو بھی آزمائش سے گزارا،جدائی کے دکھ سے گزارا۔علیم وخبیر تو اپنے پلان کے اک ایک جزو کی مصلحت جانتا تھا،اس نے اپنے پلان کی تکمیل تو کرنی ہی تھی مگر کسی نے یوسف بننا پسند کیا اور کس نے یوسفّ کا بد خواہ،یہ ہر ایک کی اپنی مرضی پر چھوڑ دیا گیا مگر کسی کو بھی اپنے پلان کی بھنک نہ پڑنے دی۔

یوسف عہ کے بھائیوں کو حسد کے جذبے کو تسکین پہنچانے کے لئے پلاننگ کرتا دیکھ کر بھی اللہ نے یوسف عہ کو ان بدخواہ بھائیوں کی چال سے بچانے کے لئے کوئی چال نہ چلی کیونکہ وہ اپنی چال چل رہا تھا اور یوسف کے بھائیوں کو مشیت الٰہی کے اصول نے تدبیر کرنے دی۔دوسری طرف یوسف عہ غلام بنائے گئے،تہمت لگائی گئی،خادم بننا پڑا،قید کی مشقت سے گزرنا پڑا،اپنوں کی بد خواہی اور جدائی سہنا پڑی مگر اللہ نے نیکوں کے ساتھ سب ہونے دیا۔

نیکی کے علمبرداروں کو اپنی فرمانبرداری پر چلنے کے لئے راہیں ہموار ملیں۔علیم وخبیر اللہ اگر ان میں سے کسی ایک کو بھی اپنی پلاننگ سے آگاہ کر دیتا تو یہ امتحان ،امتحان نہ رہتا،تربیت کا عمل متاثر ہوتا،بد خواہوں کے برے جذبات چھپے رہ جاتے تو اپنی مسلسل شر انگیزیوں سے کبھی یوسف عہ کو عزیز مصر کے مرتبے تک پہنچنے نہ دیتے،یعقوب عہ درجات کی بلندیوں کو نہ پہنچتے اور یوسف عہ گردش حالات کی حکمت کو جان لیتے تو ایسی شاندار شخصیت نہ بن پاتے۔

پھر،ہم لوگ کیوں ہر بات کو جان لینا اور سمجھ لینا چاہتے ہیں،ہم تقدیر کے آگے سر تسلیم خم کیوں نہیں کر لیتے،ہم شر پسندوں کی تدبیروں سے گھبرا کر اپنا یقین کیوں ڈگمگاتا محسوس کرتے ہیں آخر "خیر الماکرین" کے الفاظ ہماری ڈھارس بندھانے کو کامیاب کیوں نہیں ہو جاتے؟ہم جب مکمل طور پر اپنے آپ کو بے بس پاتے ہیں تو ہاتھ پاؤں کیوں چھوڑ دیتے ہیں،ناامیدی اور یاسیت ہم پر کیوں طاری ہو جاتی ہے،ہم تقدیر کی سکیم کے مطابق سامنے کنویں کو موت،غلامی کو ذلت،خادم بننے میں عار کیوں محسوس کرتے ہیں؟

ہم تقدیر کی واضح رہنمائی کے برعکس اپنی فہم پر بھروسہ کرتے ہیں نا تو اللہ اپنی مشیت کے تحت ہمیں ہماری فہم سے آزماتا ہے۔یقینا عقل ہمیں کائنات پر غوروفکر کرنے کے لئے دی گئی ہے نا کہ خالق کے بالمقابل کھڑا ہونے کے لئے بس اتنا یقین اپنے اندر راسخ کر لیجئے کہ جب اللہ ہمیں آزماتا ہے نا تو اس سے ہماری خیر خواہی ہی مقصود ہوتی ہے،وہ کبھی بھی ہمیں گناہ کی وادی میں اترنے نہ دے گا اگر توکل کی ڈوری مضبوط ہو تو وہ کبھی ہمیں مایوس نہ ہونے دے گا .

اگر اسی کو مختار کل مان لیں تو مگر،جب ہم اپنی کمزوریوں کو دور نہیں کرتے،قناعت،شکر کی راہ نہ اختیار کر کے اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالتے ہیں تو اللہ سے اس کے قوانین سے انحراف کے بعد مدد کی توقع کیوں رکھتے ہیں؟اللہ کو علیم وخبیر مان لیجئے،اس کے کاموں میں دخل اندازی چھوڑ دیجئے۔وہ آپ کو کبھی مایوس ہونے دے گا اور نہ ہی بے یارو مددگار۔