ایک بادشاہ کے دربار میں ایک گانا گانے والا آیا،اس نے بہت اچھا گانا گایا اور اپنی آواز کے سحر سے بادشاہ اور اسکے وزراء و امراء کو مسحور کر دیا۔ بادشاہ نے خوش ہو کر کہا کہ اسے ھیرے دے دو، اس نے مزید اچھا گایا تو بادشاہ نے کہا اسے سونا دے دو، اسی طرح وہ مزید اچھا گاتا گیا اور بادشاہ خوش ہو کر انعامات کا اعلان کرتا گیا۔
گلوکار اپنے گھر گیا اور اپنی بیگم کو کہنے لگا کہ ''اب ہمارے حالات بدلنے والے ہیں، بادشاہ سلامت بہت جلد مجھے انعام و اکرام سے نوازنے والے ہیں''۔ کچھ عرصہ گزر گیا مگر گلوکار کو انعامات نہ مل سکے۔ وہ بادشاہ کے دربار میں حاضر ہوا اور آداب بجا لانے کے بعد کہنے لگا کہ حضور والا آپ کی طرف سے انعامات کے اعلان کو کافی دن گزر چکے مگر انعامات مجھے نہیں ملے۔ بادشاہ نے کہا بابا یہ لینے دینی کی بات کہاں سے آ گئی، تو نے میرے کان کو خوش کیا اور میں نے تیرے کان کو خوش کیا۔
تمام سیاسی جماعتیں بھی اقتدار سے پہلے عوام کیساتھ بے پناہ وعدے کر کے عوام کے کانوں کو خوش کرتی ہیں مگر جب حکومت مل جاتی ہے اور عوام کام کی ڈیمانڈ کرتے ہیں تو حکومت اپنی مجبوریاں بیان کرنے لگتی ہے۔جب سے پاکستان بنا ہے تب سے سیاستدان عوام کیساتھ مذاق کرتے آئے ہیں۔ جب یہ سیاستدان جیت کر اسمبلیوں میں پہنچ کر حکومت بناتے ہیں تو سارے کئیے ہوئے وعدے بھول جاتے ہیں۔دنیا اتنی ترقی کر چکی مگر قدرتی خزانوں سے مالا مال ملک پاکستان ابھی تک کوئی خاص ترقی نہیں کر سکا۔ یہاں کے مسائل ویسے ہی ھیں جو پاکستان بننے سے پہلے تھے۔
سیاستدانوں کی ناکامی کی بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی بے جا مداخلت بھی ہے۔ تبدیلی نہ آنے کی ایک اور بڑی وجہ یہ ھے کہ سیاست دان کوئی بھی بن جاتا ہے، اس کیلئے باقاعدہ ٹریننگ نہیں ہے۔ تبدیلی نہ آنے کی دیگر وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ عوام کی بے شعوری بھی ہے۔ دیگر ترقی یافتہ ممالک جن میں بہت جلد تبدیلی آئی جیسے چین، جاپان وغیرہ، انکی عوام بہت با شعور ہے، یہ راستے پر کچرا نہیں ڈالتے، اپنی گلیاں اور سڑکیں صاف رکھتے ہیں اور ناجائز قبضہ نہیں کرتے۔
پاکستان کے عوام یہی چاہتے ہیں کہ ان کے منہ میں روٹی تک حکومت ڈال کر دے۔ آپ ایک چھوٹی سی مثال لیں اگر پاکستان کی آبادی میں سے سات کروڑ لوگ بھی روزانہ باھر نکلتے ہیں اور ان میں سے ہر کوئی صرف ایک کاغذ اٹھا کر صاف کر دیتا ہے تو اسکا مطلب ہے کہ سات کروڑ کاغذ جو کچرے کی وجہ بنتے وہ صاف ہو گئے۔پاکستان ایک غریب ملک ہے۔ حکومت کے وزراء بہت فضول خرچ ہیں۔ وہ ایک پروگرام پر لاکھوں روپے خرچ کر ڈالتے ہیں جسکی وجہ سے ملکی خزانے کو کافی نقصان پہنچتا ہے۔ حکومت کو اپنے اخراجات گھٹانے چاھئیں۔ تمام وزراء اپنے گھر سے کھانا کھائیں، اپنی ذاتی گاڑیاں استعمال کریں، کوئی بھی میٹنگ یا پروگرام سادگی سے منعقد کریں۔
جب اپوزیشن میں ہوتے ہیں تو شور مچایا جاتا ہے لیکن جب اقتدار ملتا ہے تو وہ پارٹی تبدیلی کے بارے میں اپنی مجبوریاں اور بے دلیل تاویلیں پیش کرتی ہے۔اس حقیقت سے انکار نہیں کہ کسی بھی معاشرے میں بہتری کے لیے '' آئیڈیل لیڈرشپ'' کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن ایک اکیلا کچھ نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کے ساتھ ہم خیال لوگوں کی ایک بڑی تعداد نہ ہو۔دوسرے نمبر پر اس معاشرے میں قانون کی موجودگی بہت اہم ہے وہ چھوٹی چھوٹی باتیں جن کو اہمیت نہیں دی جاتی ان سے متعلق ضروری قانون سازی ہونی چاہیئے۔
جیسے نالوں میں، سڑکوں پہ کچراپھینکنے، پان کی پیک تھوکنے، غلط سمت ڈرائیونگ کرنے، نوپارکنگ پہ گاڑی کھڑی کرنے، عوام کے تفریحی مقامات پر کچرا ڈالنے پہ سخت سزائیں ہونی چاہیں۔ تیسرے نمبرپہ ان قوانین کے بننے کے بعد ان پر عملدرآمد یقینی ہونا چاہیئے۔ یعنی قانون توڑنے والے کے ساتھ کوئی رعایت نہ کی جائے بلکہ قانون کے مطابق سزادی جائے۔پس ثابت ہوا کہ '' قانون کی حکمرانی'' بہت سے مسائل کاحل ہے۔
اب ذرا پاکستانی معاشرے پہ نظرڈالیے حکمرانوں سے لیکرعوام تک، امیر سے لیکر غریب تک، قانون سب کے ہاتھ میں کھلونا بناہواہے۔ سب کومعلوم ہے کہ قانون کیسے توڑناہے اور اگر کبھی '' گرفت'' میں آجائیں تو اس سے کیسے نکلنا ہے۔ یہ اچھی طرح جانتے ہیں۔ ایسے میں قانون پر عملدرآمد کیسے؟دوسراطریقہ تبدیلی لانے کا یہ ہے کہ جس میں معاشرے خاص طور پر عوام میں شعور بیدار کیا جائے۔ انہیں یہ بتایاجائے کہ انفرادی فوائد کے بجائے اجتماعی فوائد پرانحصار کیا جائے۔ ہر ذمہ داری حکومت کے کھاتے میں ڈال کر اپنی ذمہ داری سے بچنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اپنے ملک، شہر، گلی کوچوں کو اپنا سمجھنا چاہیئے۔
یعنی ان کو''Own''کیاجائے۔ جب تک ہم اپنے گھر کے علاوہ اپنے علاقے شہر، ملک کو نہیں اپنائیں گے۔ ان کے خراب حالات، اور مشکلات کو اپنی حالت اور مشکل نہیں سمجھیں گے۔ تبدیلی کے امکانات بہت کم ہیں۔ ملکی ترقی،معاشرتی اصلاحات تب ہی ممکن ہے جب لوگوں میں شعور موجود ہوکہ اگر ملک اور معاشرے میں کچھ غلط ہوگا تو ہمارے ساتھ بھی غلط ہوگا۔ جب تک مسائل کو اپنا نہیں سمجھا جائے گا۔ اس کے حل کے لیے کوئی لائحہ عمل مرتب نہ کیا جاسکے گا۔ اور حل کو جاننے بغیر مسائل کو خاتمہ ممکن نہیں۔ یہ کہہ دینا بہت آسان ہے کہ حکومت ناکارہ ہے۔ حکومت عوام سے لاتعلق ہیں، سوال یہ ہے کہ عوام اپنے آپ سے کتنے مخلص ہیں؟
اگر سیاستدان نفرت،عدم برداشت،خلوص اور بردباری کی سیاست کرتے تو آج حالات یوں نہ ہوتے۔ بد قسمتی سے سیاست میں ایسے لوگوں کی اجارہ داری ہے جو اپنے مخالف کو کرپٹ، اور گھٹیا جبکہ خود کو صادق و امین تصور کرتے ہیں۔ اگر واقعی ہی تبدیلی لانی تھی تو یہ رویوں کی تبدیلی لا?یں، نفرت کی جگہ محبت سے تبدیل کریں، تعصب کی جگہ فراخ دلی سے تبدیل کریں۔ الزام تراشی کی سیاست کی بجائے کام کی سیاست کو ترقی دی جائے تو ھی تبدیلی ممکن ہے۔
تبدیلی اس وقت ممکن ہے جب شفاف احتساب ممکن ہو گا،جب حکومتیں فضول اخراجات ختم کریں گی، جب تمام سیاستدانوں سمیت ملک کے تمام ادارے باہمی رضامندی و محبت سے صرف پاکستان کیلئے کام کریں گے، اور تبدیلی تبھی ممکن ہے جب عوام بھی باشعور ہو کر اپنے فرائض پورے کریں گے اور صرف حکومت پر انحصار نہیں کریں گے۔ اگر حکومت سمیت عوام نے بھی الزام تراشی، گالم گلوچ، اور منفی رویوں کو پروان چڑھایا تو تبدیلی کا سورج پاکستان میں کبھی طلوع نہیں ہو سکے گا۔
تبصرہ لکھیے