ہوم << بھارت کوسب جائز ہے- آصف محمود

بھارت کوسب جائز ہے- آصف محمود

امریکہ نے جتنی‘ انسانی ہمدردی‘ یوکرین کے مسئلے پر دکھائی ہے اتنی ہمدردی کشمیر اور فلسطین کے معاملے میں کیوں نہیں دکھا رہا؟ پھر یوکرین کے مسئلے پر اس نے جس حساسیت کا مطاہرہ کیا ہے اس حساسیت کا اطلاق وہ بھارت پر کیوں نہیں کر رہا؟

امریکہ کی پالیسی کا یہی و ہ خوفناک تضاد ہے جسے دیکھ کر رچرڈ ریویز کی بات یاد آ جاتی ہے کہ: ہم امریکی اپنی رہنمائی کے لیے واہیات باتیں کرتے ہیں اور علی الاعلان کرتے ہیں۔ امریکی فارن پا لیسی کے اسی تضاد کو ولیم بلم نے اپنی کتاب Killing Hopes میں ایک اور اسلوب میں بیان کرتے ہوئے کہا کہ:
Neither is that US' foreign policy is cruel because American leaders are cruel. It is that our leaders are cruel because only those willing to be inordinatly cruel and semorseless can hold positions in foreign policy establishment.
(بات یہ نہیں کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی اس لیے بے رحم ہے کہ اس کی قیادت بے رحم ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ ہمارے رہنما اس لیے بے رحم ہیں کیونکہ فارن پالیسی اسٹیبلشمنٹ میں صرف انہی لوگوں کو عہدہ مل سکتا ہے جو بے رحم، ظالم، ڈھیٹ اور بے شرم ہوں)۔

چنانچہ یوکرین کے معاملے میں امریکی فارن پالیسی کے تضادات ولیم بلم کی تنقید کی شرح بن کر سامنے آ رہے ہیں۔ ایک جانب تو یوکرین کے لیے ایسی حساسیت دکھائی جا رہی ہے کہ مسلم دنیا حسرت سے سوچتی ہے کاش مسلمانوں کے معاملے میں بھی ایسی ہی حسرت دکھائی جاتی اور دوسری جانب اس حساسیت کا اطلاق بھی بھارت جیسے ملک پر نہیں ہوتا۔ یعنی یوکرین روس تنازعے کے پس منظر میں جو اصول باقی دنیا پر لاگو کیے جا رہے ہیں، بھارت کو ان سے عملا استثنی دے دیا گیا ہے۔باقی ممالک سے مطالبات ہیں کہ روس سے تعلقات نہ رکھے جائیں، روس سے تیل نہ خریدا جائے، روس سے دفاعی معاہدات نہ کیے جائیں لیکن بھارت سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ بھارت چاہے تو روس سے تیل خرید کر اپنی معیشت کو سہارا دے لے اور چاہے تور وس سے دفاعی سازو سامان کی خریداری کے نئے معاہدے کر لے۔ اسے امان ہے۔ اس پر نہ امریکی قیادت تنقید کرتی ہے نہ کوئی شکوہ اورنہ کوئی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ ایسے میں ولیم بلم سرگوشی کرتے محسوس ہوتے ہیں کہ میں نے جو لکھا تھا غلط تو نہیں لکھا تھا؟

ایک طرف پاکستان ہے، جس کی ایف اے ٹی ایف کے ذریعے کمر دہری کر دی جاتی ہے اور دوسری جانب بھارت ہے جس پر CAASTA کے اطلاق کی آج تک امریکہ نے بات تک نہیں کی۔یعنی خود ہی امریکہ نے ایک اصول طے کیا، خود ہی اس اصول کے عملی اطلاق کے لیے ایک قانون بنایا اور خود ہی بھارت کو اس قانون کو پامال کرنے کی آزادی دے رکھی ہے۔ CAASTA یعنی Countering America's Adversaries Through sanctions Act امریکہ کا اپنا قانون ہے جو ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں پاس ہو۔ اس کے علاوہ Russian Influence in Europe and Eurasia Act اور Ukraine Freedom Support Actجیسے قووانین بھی موجود ہیں۔لیکن CAASTA کی ہمیت اس لیے زیاد ہ ہے کہ اس تعلق براہ راست ایران، شمالی کوریا اور روس جیسی ریاستوں پر پابندیوں سے ہے۔

اور ان پابندیوں میں صرف یہی ممالک شامل نہیں ہیں۔ بلکہ ن کے ساتھ تعاون کرنے والے ممالک بھی بعض صورتوں میں اس کی زد میں آ سکتے ہیں۔وہ صورتیں بھی ان قوانین میں بیان کر دی گئی ہیں۔اور ان میں سے ایک شکل یہ ہے کہ ”روس کے ساتھ کوئی دفاعی معاملہ کرنا‘۔ اب جب کہ روس یوکرین پر حملہ آور ہے اور امریکہ اور مغربی دنیا اپنے سفید فام بھائیوں کی بقاء کے لیے نئے اصول لے کر میدان عمل ہے جو اصول کبھی بھی کشمیر یا فلسطین کے لیے بروئے کار نہیں لائے جاتے تو سوالات کا پیدا ہونا تو فطری امر ہے۔ مگر اس سے بھی بڑا سوال یہ ہے کہ یوکرین کے لیے بھی جوضابطے بنائے گئے ہیں ان کا اطلاق بھارت پر نہیں کیا جا رہا۔

حال ہی میں بھارت کا روس کے ساتھ سپر سانک کروز میزائل کا معاہدہ ہوا ہے جو ایٹمی حملہ کرنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس منصوبے کی مالیت پانچ ارب ڈلر ہے۔یہ منصوبہ باہمی اشتراک سے آگے بڑھے گا۔ بھارت کا شیئر ساڑھے پچاس فیصد اور روس کا شیئر ساڑھے انچاس فیصد ہو گا۔ اس ایک فی صد کے فرق میں بھی جہان معنی ہے اگر چہ علامتی ساہی ہے۔ یہ اس بات کا اعلان ہے کہ اس منصوبے میں بھارت صرف برابر کا نہیں، تھوڑا زیادہ برابر کا پارٹنر ہے۔مگ فائٹر اور براہموس میزائل کے معاملات اس سے الگ ہیں۔

یہی نہی بلکہ بھارت روس سے ستاسی لاکھ بیرل یومیہ کے حساب سے آئل خرید رہا ہے۔امکان ہے کہ وہ اس وقت روسی تیل کا سب سے بڑا خریدار بن چکا ہے۔یوکرین پر حملے کے بعد یہ دونوں کام غیر معمولی نوعیت کے ہیں۔امریکہ کی جانب سے اس پر رد عمل آنا ایک فطری سی بات تھی لیکن ہمیں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ امریکہ اس بارے میں خاموش ہے۔یعنی ایک تو اصولوں کے تعین میں تضاد ہے۔ مسلمانوں کا لہو بہہ رہا ہو تو امریکہ اور مغرب کا رد عمل اور ہوتا ہے اور جب ان کے اپنے سفید فاموں کا لہو بہنے لگے تو ان کا رد عمل بالکل اور نوعیت کا ہوتا ہے۔ چنانچہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ جو اقدامات یوکرین کے حوالے سے اٹھائے گئے ہیں ایسے اقدامات کشمیر یا فلسطین کے حوالے سے نہیں اٹھائے جاتے۔

دوسرا یہ کہ ان اصولوں کا اطلاق بھی بھارت جیسے ممالک پر نہیں کیا جاتا۔ گویا بین الاقوامی قانون ہو یا اپنا قانون، امریکہ کسی کو بھی اپنے مفاد کے لیے نظر انداز کر سکتا ہے۔یہ کوئی آج کا رویہ نہیں، یہ امریکہ فارن پالیسی کا بنیادی اصول رہا ہے۔ سابق سیکرٹری آف سٹیٹ ڈین ایچیسن نے کہا تھا: ”امریکہ بین الاقوامی قانون کا پابند نہیں ہے۔انٹر نیشنل لاء جائے جہنم میں، مجھے کوئی پرواہ نہیں کہ انٹر نیشنل لاء کے ماہرین کیا کہتے ہیں“۔ امریکہ کے اسی رویے کو بیان کرتے ہوئے سابق اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ جان آر بولٹن نے کانگریس کی کمیٹی برائے بین الاقوامی تعلقات کے سامنے تحریری بیان دیتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا کہ ”معاہدوں کی نوعیت محض سیاسی ہوتی ہے اور قانونی اعتبار سے ان پر عمل کرنا ضروری نہیں ہوتا“۔

معاہدہ ہویا قانون ہو، اامریکہ نے کبھی کسی کو کوئی اہمیت نہیں دی۔ چنانچہ آج اگر اس کا مفاد بھارت سے وابستہ ہے تو سے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہے کہ اس کے اپنے قوانین کیا ہیں اور ان قوانین کی روشنی میں بھارت کہاں کھڑا ہے۔ جس کی گردن مروڑنی ہو گی ان قوانین کے تحت مروڑ دی جائے گی اور جس سے صرف نظر کرنا ہو گا، کر لیا جائے گا۔

سوال مگر یہ ہے کہ امریکہ کا دہرا رویہ جنوبی ایشیاء میں سیکیورٹی کے کیسے سنگین مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔امریکہ اور مغربی دنیا کو اس خطرے کا احساس ہے یا نہیں، سوال یہ ہے کہ ہمیں خود کتناا حساس ہے؟

Comments

Click here to post a comment