ہفتہ ٢ذى الحج ١٤٤٠ھ۔ بمطابق 3 اگست 2019ء۔
مکہ مکرمہ میں پہلی رات گزارنے کے بعد ہم علی الصباح بیدار ہوئے۔ نمازفجر ہوٹل کی گراونڈ میں ادا کی اور ناشتہ کرنے کے بعد عمرہ کی ادائیگی کیلئے حرم روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ کوئٹہ پشین کے واجد بھائی اور ان کے دو تین ساتھی بھی شامل ہوئے۔ بلڈنگ سے بس نمبر 915 میں کدی سٹاف گئے جہاں سے رابطہ مکہ کی بسں میں سوار ہوکر کلاک ٹاور (گھڑی بلڈنگ ) کے نیچے اتارے گئے۔ واضح رہے کہ رابطہ مکہ ٹرانسپورٹ کمپنی کی یہ بسیں حرم کی چاروں اطراف مسلسل 24 گھنٹے حجاج کرام کی نقل وحمل میں مصروف رہتی ہیں۔
وقف ملک عبدالعزیز گھڑی بلڈنگ کے نیچے بیسمنٹ میں تین چار منٹ واک کے بعد ہم حرم کے بیرونی صحن کو باب عبدالعزیز کے سامنے سیڑھیوں سے چڑھ گئے۔ اب ہم حرم شریف کے بیرونی میدان ”ساحة الحرم” میں تھے۔ ساتھیوں کو پہلے سے عمرہ کا طریقہ اور ہدایات بتائی تھیں ۔ ایک بار پھر تذکرہ کیا۔ کہ عمرہ کے لغوی معنی ”ارادہ اور زیارت” کے ہیں کیونکہ اسمیں بیت اللہ کا ارادہ اور زیارت کی جاتی ہے۔ شریعت کی اصطلاح میں، میقات سے احرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف، صفاومروہ کی سعی کرنا اورسر کے بال منڈوانا یا کٹوانا،”عمرہ” کہلاتا ہے۔ ہر عمل کی قبولیت کیلئے رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ضروری شرط ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل آئیں دیکھتے ہیں کہ آپﷺ نے کس طرح حج و عمرہ ادا کیا تھا ؟
رسول الله ﷺ کا عمرہ:
رسول اللہ ﷺ ہجرت کے بعد مکہ مکرمہ میں پانچ مرتبہ داخل ہوئے۔ اور ایک حج چار عمرے ادا کئے۔ آخری عمرہ سن 10ھ کو اپنے پہلے اور آخری حج ”حجة الوداع” کے موقع پر ادا کیا۔ آپﷺ ہفتہ کے دن ٢٥ ذى القعده سن ١٠ ہجری کو نماز ظہر کے بعد مدینہ منورہ سے حج کیلئے روانہ ہوئے۔ ذوالحلیفہ میں رات گزار کر اگلے دن ظہر سے قبل غسل کرکے احرام باندھا، دو رکعت نماز ظہر ادا کی اور مصلٰی پر بیٹھے حج وعمرہ کی نیت فرمائی اور تلبیہ پڑھا۔ اسی دن یعنی 26 ذی القعدہ بروز اتوار نماز ظہر کے بعد ذوالحلیفہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ آپ ﷺ کے ساتھ مدینہ طیبہ، آس پاس اور راستے میں شامل ہونے والے ساتھیوں کی تعداد تقریبا ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی۔ آپﷺ نے راستے میں آٹھ مختلف منازل پر قیام کرکے راتیں گزاریں۔ آٹھویں رات مکہ اور تنعیم کے درمیان وادی ذی طُوٰی (آبارالزاھر) میں اترے۔
بروز اتوار 4 ذی الحجہ کو نمازِ فجر کے بعد غسل کیا اور معابدہ، حجون اور جنت المُعلٰی کے راستہ سے مکہ میں داخل ہوئے۔ یہ چاشت کا وقت تھا، آپﷺ نے سب سے پہلے وضو کیا اور باب السلام سے مسجدالحرام میں داخل ہوئے۔ آپﷺ نے تحیة المسجد نہیں پڑھی بلکہ سیدھے مطاف کا رخ کیا۔ اضطباع یعنی دائیاں کندھے کو ننگا کرکے حجر اسود کے پاس آئے، اسے چھوا، بوسہ دیا اور طواف شروع کیا۔ پہلے تین چکروں میں ”رمل” کیا یعنی چھوٹے چھوٹے قدموں کیساتھ تیز تیز چلے۔ رکن یمانی کو چھوا مگر چوما نہیں۔
رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیان یہ دعا پڑھی۔ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَ قِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۲۰۱﴾
اسی طریقے سے سات چکر پوری کرکے آپﷺ مقام ابراہیم کے پاس آئے اور قرآن کریم کی یہ آیت پڑھا۔ ”وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ” ترجمہ۔(تم مقام ابراہیم کو جائے نماز مقرر کر لو) پھر آپﷺ نے دو رکعت نماز ادا کی۔ پہلے رکعت میں فاتحہ کے بعد سورہ الکافرون اور دوسری رکعت میں سورہ اخلاص پڑھا۔ نماز سے فارغ ہوکر آب زم زم پیا۔ پھر حجرِاسود کا استلام کرکے سعی کیلئے صفا کی طرف گئے۔
وہاں پہنچ کر آپﷺنے یہ آیت پڑھی، ” اِنَّ الصَّفَا وَ الْمَرْوَةَ مِنْ شَعَآئِرِ اللّٰهِ ۚفَمَنْ حَجَّ الْبَيْتَ اَوِ اعْتَمَرَ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِ اَنْ يَّطَّوَّفَ بِهِمَا ؕ وَ مَنْ تَطَوَّعَ خَيْرًا ۙ فَاِنَّ اللّٰهَ شَاكِرٌ عَلِيْمٌ (١٥٨) ترجمہ۔ (صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں اس لئے بیت اللہ کا حج و عمرہ کرنے والے پر ان کا طواف کرلینے میں بھی کوئی گناہ نہیں۔ اور اپنی خوشی سے بھلائی کرنے والوں کا اللہ قدردان ہے اور انہیں خوب جاننے والا ہے)۔ پھر کعبہ کی طرف رخ کرکے اللہ کی توحید وکبریائی بیان کی اورتین مرتبہ یہ کلمات دہرایا، ”لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ، لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ، أَنْجَزَ وَعْدَهُ، وَنَصَرَ عَبْدَهُ، وَهَزَمَ الْأَحْزَابَ وَحْدَهُ ”(اللہ کے سوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، وہ اکیلا ہے،ساری بادشاہت اسی کی ہے اورساری تعریف اسی کے لئے ہے۔ اکیلے اللہ کےسوا کوئی عبادت کےلائق نہیں، اس نےاپنا وعدہ خوب پورا کیا، اپنے بندے کی نصرت فرمائی، تنہا (اسی نے) ساری جماعتوں (فوجوں) کو شکست دی) اور دیر تک دعا کی۔
پھر مروہ کی طرف چلنا شروع کیا۔ جب وادی کے درمیان نشیبی نالہ ”بطن مسیل” (جہاں اب سبز لائٹس لگے ہیں) پہنچ گئے تو تیز تیز چلنا شروع کیا۔ پھر عام رفتار سے چلتے ہوئے مروہ کے اوپر پہنچ گئے اور کعبہ رو ہوکر وہی پڑھا جو صفا پر پڑھا تھا۔ اسی طرح آپﷺ نے صفا و مروہ کے درمیان سات چکر پورے کئے۔ سعی کے اختتام پر آپﷺ نے لوگوں کو مخاطب کر کے پکارا، ”اگر پہلے میرے سامنے وہ بات ہوتی جو بعد میں آئی تو میں قربانی ساتھ نہ لاتا، اور اس احرام کو عمرے میں بدل دیتا ، لہذا تم میں سے جس کے ہمراہ قربانی نہیں، وہ اپنے حج کو عمرہ میں تبدیل کرکے احرام کھول دے اور حلق یا قصر کرکے حلال ہو جائے۔
حج تمتع کرنے والوں پر عمرہ کی تکمیل کے بعد تمام پابندیاں ختم ہو جاتی ہیں۔ آپﷺ اور بعض صحابہ کرام (جو اپنے ساتھ قربانی کے جانور لائے تھے) حج قران ادا کرتے یعنی ایک ہی احرام میں عمرہ اور حج کرتے، اسلئے انہوں نے نہ احرام کھولا اور نہ بال کتروائے۔ یہ تھا آپﷺ کا عمرہ۔۔(آپﷺ کے سفرحج کا یہ خلاصہ بخاری اور مسلم کی صحیح احادیث کی روشنی میں خرم مراد اور خلیل الرحمان چشتی کی تحاریر سےلیاگیا ہے)
تبصرہ لکھیے