ہوم << ہماری نسلیں - ام محمد عبداللہ

ہماری نسلیں - ام محمد عبداللہ

سرخی ماٸل سیاہ اندھیرا چاروں جانب چھایا ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ پٹی اور ہاتھ پیچھے کی جانب بندھے ہوٸے تھے۔ عجیب بات تھی کہ وہ ہوا میں تیر رہی تھی۔ زبان پر الھم لبیک کی تڑپتی، سسکتی ہوٸی صدا تھی۔

”لبیک اللھم لبیک“ دور کہیں بہت دور نور پھوٹ رہا تھا۔ حلیمہ ہڑبڑا کر اٹھی گھبراٸی ہوٸی نگاہوں سے چاروں جانب دیکھا۔ نماز فجر بس قضا ہونے کو تھی۔ اس کے شوہر آصف صاحب گہری نیند سو رہے تھے۔ اس نے جلدی جلدی وضو کر کے نماز فجر ادا کی۔ تاسف بھری نگاہوں سے سوٸے ہوٸے بچوں کی جانب دیکھا۔ ”طلحہ بارہ اور زبیر دس برس کا ہو چکا ہے انہیں تو باجماعت مسجد میں نماز پڑھنی چاہیے۔اس نے دکھ سے سوچا۔ ”سب میری زمہ داری تو نہیں ان کے باپ کو بھی کچھ سوچنا چاہیے۔موصوف باقی نمازیں تو پڑھتے ہیں فجر کی جب خود ہی نہیں پڑھتے تو ان کو کیا اٹھاٸیں گے۔“ اس نے کندھے اچکاٸے۔ معمول کے مطابق ہر کام ٹھیک ہو گیا۔ رہ گٸی تو بس سب کی نماز فجر۔ وہ اب گھر میں اکیلی تھی۔

”کتنا عجیب خواب دیکھا تھا میں نے؟ ”الھم لبیک! کیا میں حج یا عمرے کے لیے جاٶں گی؟مگر اندھیرا کیوں تھا؟ آنکھوں پر سیاہ پٹی بندھے ہوٸے ہاتھ۔۔ اس نے خوف سے جھرجھری لی۔ رات کا پچھلا پہر تھا۔ دھڑ دھڑ دھڑ گھر کا دروازہ بہت زور سے بجا تھا۔ عھد تمیمی جو اپنے بیٹوں محمود اور حسام کے ساتھ تہجد کے نوافل پڑھنے کی تیاری کر رہی تھی گھبرا کر صحن میں آٸی تھی۔ صحن میں پڑی چند چیزوں کو ٹھوکریں مارتے وہ اب صحن میں موجود تھے۔ ”یہ یہ ہے وہ گرفتار کرو اسے اس نے فوج پر پتھراٶ کیا تھا ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تیرہ سالہ محمود کو کھینچا تھا۔“ دس سالہ حسام کی رگوں میں شہید باپ کے خون نے جوش مارا تھا وہ اپنے سے کٸی گنا طاقتور اور عمر میں کٸی سال بڑے فوجی سے ٹکرانا چاہتا تھا کہ عھد نے حسام کو کھینچ کر اپنے ساتھ لگا لیا تھا۔

وہ محمود کو لے جا رہے تھے۔ وہ انہیں نہیں روک سکتی تھی مگر حسام کو وہ کسی قیمت نہیں کھونا چاہتی تھی۔ ابھی کٸی محاذ تھے جنہیں حسام کی قوت اور جوانی درکار تھی۔ وہ اسے جوان دیکھنا چاہتی تھی۔اسرائیل دنیا کا واحد ملک ہے جہاں بچوں کے لیے خصوصی فوجی عدالتوں کا نظام ہے۔ غرب اردن کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں فوجی قبضے کی بدولت فلسطینی بچوں پر اسرائیلی فوج کا فوجداری نظام لاگو کیا جاتا ہے۔اسرائیلی فوج ہر سال سینکڑوں فلسطینی بچوں کو گرفتار کر لیتی ہے جن میں سے اکثریت کی عمریں 12 برس کے لگ بھگ ہیں۔ اسرائیل کا مؤقف ہے کہ گرفتار کیے جانے والے بچے ان کی قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہوتے ہیں۔

سینکڑوں 18 سال سے کم عمر بچے اس وقت اسرائیلی قید میں ہیں۔یو ٹیوب سکرول کرتے ہوٸے فلسطین سے متعلق ایک شارٹ کلپ دیکھتے ہوٸے اس نے سوچا ”آخر یہ فلسطین اور کشمیر کا مسلہ حل کیوں نہیں ہو جاتا بچپن سے مسلہ مسلہ ہی سن رہے ہیں بس۔“

تھوڑا اور سکرول کیا تو

will you dance for pepsi

پر لبیک کہتے پاکستانی قوم کے مسلمان بچے

why not meri jan

کہتے جسمانی اور ایمانی دونوں طاقتیں

pepsi(pay every pani to save israel)

پر نچھاور کر رہے تھے۔

”عھد تمیمی حسام کے ساتھ سڑک کے کنارے کنارے متانت اور وقار سے چل رہی تھی۔ ” کتنی دیر لگے گی وہاں تک پہنچنے میں؟“ حسام نے ماں کی جانب دیکھا۔جتنی دیر میں آپ ایک مرتبہ سورہ کہف کی تلاوت کر لیں گے۔“ عھد مسکراٸی۔حسام بھی مسکرانا چاہتا تھا مگر اس کا دل بابا اور محمود بھاٸی کے لیے اداس تھا۔حسام تلاوت کرو۔ عھد نے حسام کی کمر تھپکی۔ وہ خود کو مضبوط رکھنے کے لیے مسکرا رہی تھی۔

حلیمہ فون چھوڑ کر کتابوں کی الماری درست کرنے لگی تھی۔ ”بس کوٸی ایک کتاب درکار ہوتی ہے تو آصف صاحب تو ساری الماری بےترتیب کر دیتے ہیں۔“ کتابیں ترتیب دیتے ہوٸے ایک کتاب کے سرورق پر نظر پڑتے ہی اس کا دل زور سے دھڑکا تھا۔ رات والے اندھیرے خواب میں جہاں سے نور پھوٹتا دکھاٸی دیا تھا وہ یہی گنبد تو تھا۔ وہ بے چین ہوٸی۔”مسجد اقصی۔۔ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کا مسلہ“ تو یہ مسجد اقصی کا گنبد ہے۔ خواب میں میں نے مسجد اقصی کی جانب سفر کیا ہے کیا؟ لیکن اندھیرا آنکھوں پہ پٹی بندھے ہاتھ۔“ اسے بے چینی و اضطراب نے گھیر لیا۔ وہ کتاب لے کر صوفے پر آن بیٹھی۔

زمانہ قدیم میں جس علاقے کو’’شام‘‘ کہاجاتا تھا، وہ لبنان ،فلسطین، اردن اور شام کی سرزمین پر مشتمل تھا،احادیث میں جس کی فضیلت ذکر فرمائی گئی ہے، اس سرزمین کو یہ اعزازحاصل ہے کہ یہاں کثرت سے انبیاء کرام کومبعوث فرمایاگیا، نیزدیگر کئی علاقوں سے انبیاء کرام نے ہجرت فرماکر اس علاقے کو اپنامسکن بنایا، جن میں سے چند یہ ہیں:

سیدناابراھیم، سیدنااسحاق،سیدنایعقوب، سیدنا یوشع،سیدنا موسیٰ نے تو اس سرزمین(بیت المقدس)پر اپنی موت کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائی تھی۔(صحیح بخاری:۱۳۳۹) سیدنا داؤد،سیدنا سلیمان، سیدنازکریا، سیدنالوط، سیدنا یحیٰ، سیدناعیسیٰ، یہودیوں نے سیدنا عیسیٰ کے قتل کی سازشیں کی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا اور ان کا دوبارہ نزول اسی سرزمین پر ہوگا۔محمدرسول اللہ ﷺ کی پیدائش اور بعثت اگرچہ مکہ میں ہوئی لیکن معراج کے موقعہ پر آپﷺ کو اس مقدس سرزمین یعنی مسجداقصیٰ (بیت المقدس) کی سیر کرائی گئی جہاں آپﷺ نے تمام انبیاء کرام کی امامت فرمائی اور معراج کی ابتداء یہیں بیت المقدس (مسجد اقصیٰ) سے ہی ہوئی۔

فلسطین انبیاء کی سرزمین، بابرکت سرزمین اس کا دل فلسطین سے عقیدت اور محبت کی لہروں پر ڈولنے لگا تھا۔”حلیمہ، طلحہ، زبیر۔۔۔۔۔۔“ اسے اور بچوں کو کسی نے آواز دی تھی۔ وہ کتاب وہیں صوفے پر چھوڑ کر باہر آ گٸی۔وہ سب عبادت کی نیت سے میلوں چل کر اپنی نمازوں پر ڈھیروں اجر و ثواب پانے اور میراث انبیاٸے کرام علیھم السلام مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے وہاں پہنچے تھے۔حسام اپنی امی جان عھد تمیمی کا ہاتھ تھامے مسجد اقصی میں داخل ہونے لگا تھا کہ اسراٸیلی پولیس کے ان کے اور مسجد اقصی کے درمیان آگٸی تھی۔ *”پچاس سال سے کم عمر نہ کوٸی مرد نہ کوٸی عورت حتی کہ کوٸی بچہ بھی مسجد میں داخل نہیں ہو سکتا۔“

حسام کی نگاہیں گیٹ کے پار صحن میں یہود کو دندناتا دیکھ رہی تھیں۔ مسجد کے مشرقی حصے سے کتنے ہی مسلمانوں کو پکڑ کر نظر بند کیا جا رہا تھا۔ عھد تمیمی کا دل آنے والے خطروں سے لرز رہا تھا کیا مسجد اقصی میں بھی وہ سب دہرایا جاٸے گا جو الخلیل شہر میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ ہوا۔ ”ہم نماز فجر کی اداٸیگی کے لیے آٸے ہیں۔“ عھد دو قدم آگے بڑھی۔لیکن آج مسجد اقصی میں داخل نہ ہونے کے لیے پچاس سال سے کم عمر ہونا ایک کافی اور بڑا جرم تھا۔ وہ بے بسی سے ہونٹ بھینچے پیچھے ہٹ گٸی۔آج زندگی میں پہلی بار اسے لگا وہ مسجد اقصی کھو چکی ہے۔

فضاٶں میں گھورتی نگاہیں حضرت عمر فاروقؓ اور سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ کو کھوج رہی تھیں۔ شاہان عرب سے لے کر ایٹمی طاقت پاکستان تک کوٸی ہے جو ہماری بے بسی پر لبیک کہے، ہماری جبینوں میں تڑپتے سجدوں کے لیے پنجہ یہود میں جکڑے مسجد اقصی کے دروازوں کو نمازیوں کے لیے کھلوا دے ؟ وہ بے بسی اور غم کی کیفیت میں تھی۔

”کون بلا رہا ہے مجھے؟ طلحہ کو اور زبیر کو؟“ حلیمہ چکراٸی چکراٸی صحن میں پھر رہی تھی۔ کہیں سے ردی اخبار کا ایک ٹکڑا اڑتا اڑتا صحن میں آ گرا تھا۔ اس نے غیر ارادی طور پر وہ اٹھا لیا تھا۔مسجد اقصی کی مسلسل بے حرمتی، فلسطینی مسلمانوں کے خون سے رنگی ارض مقدس۔۔۔۔۔۔ اخبار کا ایک بے کار چھوٹا سا ٹکڑا اقصی کے آنسوٶں سے تر تھا۔ کیا ہم جسد واحد ہیں؟اگر ہم اسی جسم کا حصہ ہیں تو کہیں سے ٹیس کیوں نہیں اٹھتی؟؟؟کچن سے لے کر فرج تک، وارڈ روب سے لے کر ڈریسنگ ٹیبل تک اور واش روم سے لے کر بیڈ روم تک ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پراڈکٹس سے گھر بھرا پڑا تھا جو اپنی آمدنی کا ایک بڑا حصہ اسرائیل کے تحفظات کے لیے وقف کر دیتی ہیں۔

جنہوں نے محلے کی مسجد میں نماز نہیں پڑھی تھی انہیں مسجد اقصی میں مسلمانوں کے داخلے پر پابندی پر بھلا کیا تردد ہو سکتا تھا؟؟؟؟؟؟ خواب میں دکھاٸی گٸی آنکھوں پر بندھی پٹی کھلتی تو کلاٸیوں پر لگی گرہوں کو کھولنے کی باری آتی۔ حلیمہ کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ عھد تمیمی کے آنسو حلیمہ کے دل سے اٹھنے والی اللھم لبیک کی صدا کی آبیاری کر رہے تھے۔ وہ بے قرار و بے چین کمرے میں چلی آٸی۔ کتاب کے اوراق ہوا کے دوش پر پلٹ رہے تھے۔ شام، فلسطین اور بیت المقدس کی فضیلیت آیات قرآنی اور احادیث رسول محمد صلى الله عليه واله وسلم کی روشنی میں۔

سرزمین فلسطین اور انبیاء

مسجد اقصی کے فضاٸل

یہود۔۔۔ اقتدار مصر سے قیام اسراٸیل تک

مظلوم اسلامیان فلسطین

روئے ارضی پر کلمۂ اسلام کا غلبہ

یہ سب اسے جاننا تھا۔
طلحہ اور زبیر کو سمجھانا تھا۔

وہ دور تو اب دور نہیں جب اس کرہ ارض پر ہر ہر گھر میں اسلام پوری شان و شوکت کے ساتھ داخل ہو کر رہے گا سوچنے کی بات تو فقط اتنی ہے کہ جب عالمی منظر نامہ تبدیل ہو رہا ہو گا۔ جب مسلم امہ ایک بار پھر رب کاٸنات کی اس زمین پر مسند خلافت سنبھالنے والی ہو گی۔ اس وقت ہماری نسلیں حضرت عیسی علیہ السلام کی فوج کا حصہ ہوں گی یا فتنہ دجال کا تر نوالہ ؟

Comments

Click here to post a comment